عدالتی کارروائیوں کے دوران مذہبی رسومات بند ہونی چاہئیں

سپریم کورٹ کے جسٹس ابھے ایس اوکا نے مشورہ دیا کہ دستور ہند میں پیش کئے گئے سیکولرازم کو فروغ دیا جانا چاہیے

نئی دہلی،06مارچ :
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ابھے ایس اوکا نے عدالتی کاموں کے دوران مذہبی رسومات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئین کو نمن کرنا بہتر ہے۔جسٹس ابھے ایس اوکا نے مشورہ دیا کہ سیکولرازم جیسا کہ دستور ہند میں تصور کیا گیا ہے کو فروغ دیا جانا چاہیے اور اس لیے عدالت سے متعلق واقعات کا آغاز آئین کے تمہید کی کاپی کے سامنے جھک کر کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیں ایک مثالی آئین دیا ہے جس میں سیکولرازم کا ذکر ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بھلے انگریزوں نے بنایا ہو لیکن یہ ہمارے آئین کے تحت چلایا جاتا ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس ابھے ایس اوکا نے یہ باتیں 3 مارچ کو مہاراشٹر کے پونے ضلع میں ایک نئی عدالت کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا، “کبھی کبھی ججوں کو ناگوار باتیں کہنا پڑتی ہیں۔ میں کچھ ناگوار بات کہنے جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں عدالتوں میں پروگراموں کے دوران پوجا ارچنابند کر دینی چاہیے۔
اس کے بجائے، ہمیں آئین کی تمہید کی تصویر رکھنی چاہیے اور کسی بھی پروگرام کو شروع کرنے کے لیے اسے سلام کرنا چاہیے۔
جسٹس ابھے نے کہا کہ جب میں کرناٹک میں تھا تو میں نے اس طرح کے مذہبی پروگراموں کو کم کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن میں انہیں پوری طرح سے نہیں روک سکا۔ لیکن 75 سال مکمل کرنا ہمارے لیے سیکولرازم کو آگے بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔اس پر زور دیتے ہوئے جسٹس ابھے ایس اوکا نے کہا، ”جب آئین کے 75 سال مکمل ہوں گے، تو ہمیں اس کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے یہ نئی روایت شروع کرنی چاہیے۔“
سپریم کورٹ کے جج 3 مارچ کو پونے ضلع کے پمپری چنچواڈ میں ایک نئی عدالت کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے پروگرام میں بول رہے تھے۔جسٹس ابھے ایس اوکا نے کہا کہ ان کے لیے تمہید میں ’سیکولر‘ اور ’جمہوری‘ کے الفاظ بہت اہم ہیں۔