عالمی تجارتی جنگ اور بھارت کی معیشت: مواقع اور چیلنجز

بھارت: دنیا کا نیا اسٹارٹ اپ پاور ہاؤس؟

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

چین میں حکومتی نگرانی اور پابندیوں کے باعث اسٹارٹ اپ کلچر زوال کا شکار
حالیہ تجارتی جنگ کے دوران عالمی معیشت ایک غیر یقینی اور اتھل پتھل کے دور سے گزر رہی ہے۔ بھارت کو اس وقت اپنی توجہ مینوفیکچرنگ کے مضبوط ماحول کی تشکیل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ گزشتہ دس برسوں میں بنیادی ڈھانچے میں نمایاں بہتری آئی ہے اور Ease of Doing Business کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے، تاہم مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت ابتدائی جھٹکوں سے باہر آ چکا ہے۔ افراط زر میں کمی آئی ہے اور بازار بھی مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم، تشویشناک پہلو یہ ہے کہ معاشی ترقی کی پیشگی شرح نمو کے اندازوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تمام بڑی ریٹنگ ایجنسیوں نے شرح نمو کے اندازوں میں کمی کے اشارے دیے ہیں۔ اس سے معیشت کو جھٹکا تو لگے گا مگر بھارت اس جھٹکے کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور ممکن ہے کہ اس سے کچھ فائدہ بھی حاصل کر سکے۔
فی الحال، امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھارت کے دورے پر ہیں۔ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے نئی دہلی میں کئی ہائی پروفائل دورے اور ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے تجارتی معاہدے کو محفوظ بنانے کے لیے گفتگو کو تیز کر دیا ہے کیونکہ بھارت کی پالیسی ابتدا سے ہی ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی رہی ہے، چین کی طرح امریکہ سے محاذ آرائی کی نہیں۔
چین دنیا کا واحد ملک ہے جو امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا ہے۔ ٹرمپ نے چین پر من مانے طور پر 245 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اور چین نے جوابی کارروائی کے طور پر امریکہ پر بھی 126 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے۔ 75 سے زائد ممالک کسی معاہدے پر دستخط کرکے اس جھٹکے سے بچنے کی امید کر رہے ہیں۔ روبل کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی معاشی تجارتی نظام میں اتھل پتھل کا ماحول ہے۔ یورپ نے اب کہنا شروع کیا ہے کہ جس مغرب کو ہم جانتے تھے، وہ معدوم ہو چکا ہے۔
بھارت اس اتار چڑھاؤ اور غیر یقینی کے دور میں تجارتی جنگ میں اپنے لیے مواقع تلاش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار بھارت کو لے کر زیادہ پرجوش ہیں جو بھارت کے مفاد میں ہے۔ بھارت میکسیکو اور چین کی طرح برآمدات پر مبنی معیشت نہیں ہے اس لیے ٹیرف کا خطرہ بھارت کے لیے ان کے مقابلے کم ہے۔ ساتھ ہی بھارت اس شعبے میں سب سے زیادہ ٹیرف سے متاثر نہیں ہوا ہے کیونکہ اس پر ٹیرف محض 26 فیصد ہے جبکہ چین پر سب سے زیادہ ویتنام پر کل ملا کر 46 فیصد اور بنگلہ دیش پر 37 فیصد ہے۔ تجارتی گفت و شنید خواہ جیسی بھی ہو یہ فرق بھارت کے حق میں کام کر سکتا ہے خصوصاً تین صنعتوں: الیکٹرانکس، مشینری اور ٹیکسٹائل میں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیاں بھارت کے لیے نئے دروازے کھول سکتی ہیں۔ سیمی کنڈکٹروں کی سپلائی میں فی الحال تائیوان حاوی ہے، جسے 30 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔ اگر سپلائی چینز بدلتی ہیں تو بھارت خود ایک متبادل کے طور پر پیش کر سکتا ہے، جو ٹیسٹنگ، پیکیجنگ اور کم لاگت والی اشیاء کی تیاری سے شروع کر سکتا ہے۔ اسی طرح، مشینری اور کھلونوں جیسے شعبوں میں بھی مواقع ہیں جن پر آج چین کا غلبہ ہے۔
بھارت امریکہ کے ساتھ Rare Earth Minerals جیسے شعبوں میں بھی تعاون دینا چاہتا ہے۔ یہ سیمی کنڈکٹرز، ای وی موٹرز، میزائل، جیٹ، ونڈ ٹربائنز کے علاوہ ایل ای ڈی لائٹس جیسی کئی اہم پیداوار کے لیے بھی اہم عنصر ہیں۔ ایک طرح سے یہ مستقبل کی دھاتیں ہیں۔ ان کی پیداوار پر بھی تقریباً چین نے قبضہ جمائے رکھا ہے۔ یہ سب ویئر ارتھ پیداوار کا 70 فیصد اور ریئر ارتھ منرلز کا 90 فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ عناصر ڈی وی ہٹانے کے لیے بہت اہم ہیں۔ چند دنوں قبل ہی چین نے امریکہ کو ان عناصر کی برآمدات پر روک لگا دی ہے جس سے امریکی تجارت کے ٹھپ پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس ضمن میں بھارت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آ سکتا ہے۔
اصولی طور پر اس کا جواب مثبت ہی ہونا چاہیے کیونکہ چین اور برازیل کے بعد بھارت ہی کے پاس ریئر ارتھ عناصر کا ذخیرہ ہے مگر مشکل ان کو نکالنے اور پروسیس کرنے کی ہے۔ موجودہ حالات میں بھارت اور امریکہ اس عمل میں معاونت کر سکتے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہے، جس کے لیے وقت درکار ہے۔ ابھی سب سے ضروری ہے کہ چینی مینوفیکچرنگ کا متبادل دنیا کے سامنے لایا جائے۔
اکثر پالیسی سازوں کو لگتا ہے کہ یہ وقت سب سے زیادہ مناسب ہے۔ محض ٹیرف ہی کمپنیوں کو متاثر نہیں کریں گے، دیگر عوامل جیسے خام مال کی قیمت، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، زمین کی حصولیابی کے بعد کاروبار کرنا کتنا سہل ہے اور یہاں آنے والے مسائل سے کتنی جلدی نجات حاصل کی جا سکتی ہے، یہ عوامل شاید ٹیرف سے بھی زیادہ اہم ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کے نشانے پر اصلاً چین ہے۔ اب بھارت کی طرف سے گفت و شنید کرنے والوں کو طویل مدتی لائحہ عمل کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے تاکہ ملک کی صنعتی قوت کو مزید بہتر کیا جائے جو کئی معنوں میں چین سے بہت پیچھے ہے۔ جاپان اور چین کی صنعتی ترقی سے ہمیں مفید سبق لینا چاہیے۔ یہ دونوں امریکہ کے ساتھ کاروباری لحاظ سے بھارت کے مقابلے بہت مضبوط حالات میں ہیں۔ امریکہ کو ان کے مینوفیکچرنگ کی شدید ضرورت ہے۔ کم آزاد تجارت سے زیادہ آزاد تجارت کی طرف بڑھنے سے درآمداتی ٹیکس کو سلسلہ وار کم سے کم کرنا شامل ہے۔
کسی بھی ترقی پذیر معیشت میں تیار شدہ اشیاء کو اسمبل کرنے والوں کی تعداد پیداوار کرنے والوں سے زیادہ ہی رہتی ہے۔ اسمبل کرنا مینوفیکچرنگ کی بہت ہی آسان شکل ہے۔ اسمبل کرنے والے تیار شدہ پیداوار کو ہمیشہ عوام کو فروخت کرتے ہیں۔ ان کے برانڈز چھائے رہتے ہیں اور اس لیے انہیں مشینری وغیرہ تیار کرنے والوں کے مقابلے زیادہ ہی مقبولیت ملتی ہے۔ جب کسی معیشت میں کھپت بڑھتی ہے تو اسمبل کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ وہ صارف کو کم قیمت پر سامان مہیا کرانے کے لیے کل پرزوں کی رعایتی درآمدات کی مانگ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کی لاگت کو کم کر سکیں۔ اس سے آہستہ آہستہ صنعتی صلاحیتوں میں کمی آتی جاتی ہے۔
ہمارے ملک نے 1990 کی دہائی میں صنعتی پالیسیوں کو وقت سے پہلے ہی ترک کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مینوفیکچرنگ کا حجم چین کے ذریعے اعلیٰ ٹیکنالوجی سے تیار کردہ اشیاء کے حجم سے 48 گنا کم ہے۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی صنعتوں کو تیار کیا۔ اس طرح 1990 تک جاپان مینوفیکچرڈ اشیاء کے معاملے میں دنیا کی فیکٹری بن چکا تھا مگر 2010 تک چین جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری بن گیا۔
اگر اپنے ملک کی بات کریں تو وہ اس وقت چوراہے پر کھڑا ہے۔ اس کے سامنے سوال ہے کہ کیا اسے مغربی تجارتی دباؤ کے سامنے جھک جانا چاہیے یا پھر اپنی صنعتی طاقت کو وسعت دینا چاہیے؟ بھارت ایک بڑا بازار ہے، اس لیے یہ گھریلو اور بیرونی سرمایہ کاروں کو بلا سکتا ہے، بشرطیکہ آمدنی میں اضافہ ہو اور زیادہ لوگوں کو روزگار ملے، اور ان کی فنی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ مختلف معیشتیں نئی صلاحیتیں حاصل کرکے آگے بڑھتی ہیں۔ اس لیے کسی گھریلو انٹرپرینیور کو وہ سیکھنا چاہیے جو اس کے پاس پہلے سے موجود نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ملک کو نئے لیبر مارکیٹ کے بارے میں بنیادی تبدیلی کرنی ہوگی۔ لیبر فورس محض پیداوار کا ذریعہ نہیں ہے کہ ضرورت ختم ہونے پر انہیں باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ وہ کسی ملک کے ترقی پذیر ذرائع ہو سکتے ہیں، ویسے ہی جیسے جاپان کے محنت کش ہیں۔ یعنی محنت کش سیکھتے ہوئے اختراعیت کے ذریعے ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔
حکومت ہند نے مینوفیکچرنگ کو بدلتے ہوئے حالات میں بڑھاوا دینے کا عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معیشت کی نمو کا اہم انجن ہے۔ لہٰذا اب ضروری ہو گیا ہے کہ مینو فیکچرنگ کو بڑھاوا دے کر نوجوان ورک فورس کو سمیٹ کر آگے بڑھایا جائے اور عوام کو روزگار فراہم کرتے ہوئے اس کی معاشی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ بھارت کے لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ مینوفیکچرنگ کو بڑھاوا دے کر نوجوان ورک فورس کو جذب کرتے ہوئے دوسرے پر انحصار کم کرے اور مقابلہ جاتی سپلائی چین تیار کرے۔
وزیر خزانہ سیتا رمن نے کہا کہ ہمارا ملک شعبہ خدمات میں بڑی ترقی کر چکا ہے اور مینوفیکچرنگ کو پس پشت ہرگز نہیں ڈالا جا سکتا اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھارت کی جی ڈی پی کا حصہ 12 فیصد سے بڑھا کر 22 تا 23 فیصد تک حاصل کیا جائے۔
وزیراعظم مودی نے اپنی من کی بات میں کہا کہ آج اسٹارٹ اپس کا ایکو سسٹم محض چند میٹرو شہروں تک محدود نہیں ہے۔ کئی لوگ بھارت کے اسٹارٹ اپس کی تعریف کر رہے ہیں اور کئی لوگ نئے نئے اسٹارٹ اپس لے کر آ رہے ہیں، مگر اسٹارٹ اپس کی یہ کامیابی محض اتفاق نہیں بلکہ بھارت کی بدلتی ہوئی اقتصادی پالیسی، نوجوانوں کی اختراعی صلاحیت اور حکومت کی مسلسل حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ اگر اسی رفتار سے مینوفیکچرنگ، خدمات اور ٹیکنالوجی کے شعبے مل کر آگے بڑھتے رہے تو بھارت نہ صرف موجودہ عالمی تجارتی جنگ میں ایک مضبوط متبادل بن کر ابھرے گا بلکہ اپنی معیشت کو بھی دیرپا بنیادوں پر مضبوطی عطا کرے گا۔
ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ممالک غیر یقینی حالات، تجارتی پابندیوں اور سپلائی چین کی الجھنوں میں الجھے ہیں، بھارت کے لیے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تسلسل، صنعتوں کو سازگار ماحول اور نوجوانوں کو ہنر مندی کے مواقع فراہم کر کے عالمی اقتصادی منظرنامے میں ایک نئی پہچان قائم کرے۔
***

 

***

 • بھارت نے دنیا کے ٹاپ 100 اسٹارٹ اپس میں 40 کمپنیوں کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ دیا۔
• ہندوستانی اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم اب امریکی ماڈل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
• عالمی تجارتی جنگوں اور سپلائی چین کے بحران نے بھارت کو متبادل مرکز بننے کا موقع دیا ہے۔
• بھارت میں نوجوانوں، پالیسی سازوں اور ٹیکنالوجی نے ایک نیا اقتصادی ماحول پیدا کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025