محمد نوشاد خان
ایک آرم ریسلر کے طور پر اب تک آپ کی کامیابی کیا رہی ہے؟
میں نے اپنے کریئر میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ایک آرم ریسلر کے طور پر میرا سفر سال 2016ء سے شروع ہوا تھا۔ لگ بھگ 8 سال کے اس سفر میں، مجھے کافی تجربہ اور اعتماد حاصل ہوا ہے۔ گولڈ، سلور اور برونز اور بہت سی ٹرافیاں جیتی ہیں۔ تینوں میڈل جیتنے والی کی حیثیت سے میں نے ہمارے کالج ویک گیمز میں حصہ لیا اور وہاں سے ضلعی سطح کے لیے منتخب ہوئی۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر میں نے ریاستی سطح کے لیے کوالیفائی کیا۔
گوا میں، قومی سطح کے کھیلوں میں، میں نے دائیں اور بائیں ہاتھ کے زمرے میں چاندی کا تمغہ جیتا اور یہ میری زندگی کا اہم موڑ تھا۔ اس نے مجھے نام اور شہرت دلائی اور مجھے ایک پہچان ملی۔ میں جب بھی کسی کو یہ کہتے ہوئے سنتی کہ ’’وہ دیکھو وسیم صاحب کی بیٹی جارہی وہ جو پہلوان ہے‘‘ میں فخر اور اطمینان محسوس کرتی۔ یہ واقعی میرے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہوتا ہے۔
آپ نے آرم ریسلنگ کیسے شروع کی؟ آپ کے سامنے کیا چیلنجز تھے؟
میں نے اسے صرف تفریح طبع کے لیے شروع کیا تھا۔ میرے کالج میں حکام نے مجھ میں چنگاری دیکھی اور مجھے آگے بڑھنے اور ریاستی سطح پر حصہ لینے کی ترغیب دی۔ میں نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ستمبر 2022ء میں فرانس میں ہونے والی ورلڈ چیمپیئن شپ اور جون 2022ء میں ملائیشیا میں ہونے والی ایشین چیمپیئن شپ اور دوسری قومی آرم ریسلنگ چیمپیئن شپ میں، جو 2022ء میں گوا میں منعقد ہوئی، ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لیے کوالیفائی کیا۔ ملائشیا میں ہونے والی 2022ء ایشین چیمپئن شپ اور فرانس میں 2022ء کی عالمی چیمپئن شپ میں، میں مالی بوجھ کی وجہ سے ہندوستان کی نمائندگی کرنے سے قاصر تھی۔ یہ ایک جھٹکا تھا۔ مجھے گولڈ میڈل جیتنے کی بہت امیدیں تھیں۔ میں اب بھی پر امید ہوں۔ 2024ء میں ایک اور کوشش کروں گی اور ہندوستان کے لیے گولڈ میڈل جیتوں گی۔
میرے والد کے انتقال کے بعد میری زندگی مزید مشکل ہو گئی۔ وہ خاندان کے سربراہ اور آمدنی کا واحد ذریعہ تھے۔ میں نے کبھی گیمز کھیلنا بند کرنے کے بارے میں نہیں سوچا، لیکن مجھے کسی بھی آئندہ ٹورنمنٹ کے لیے اپنے پریکٹس سیشن میں واپس جانے سے پہلے تازہ دم ہونے کے لیے کچھ وقفے درکار تھے۔ میرے والد کے انتقال کر جانے سے بہت سے معاملات میں میری طاقت کافی کم ہوگئی، لیکن اس نے مجھے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کچھ ہمت بھی دی اور یہی میری کامیابی تھی۔ جب سے میرے والد کا انتقال ہوا، میرا خاندان میری مدد کا بنیادی ذریعہ رہا ہے۔ میری والدہ نے میری مالی ضروریات کو پورا کیا اور جذباتی و ذہنی مدد فراہم کی۔
براہ کرم ہمارے قارئین کے لیے آرم ریسلنگ کے بارے میں کچھ بتائیں کہ یہ کیسے کھیلی جاتی ہے؟
آرم ریسلنگ میں حصہ لینے والوں کو کھلاڑیوں (players)کے بجائے پلّرز (Pullers)کہا جاتا ہے۔ سیدھے الفاظ میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم حریف کی میز سے رابطہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی کلائیاں بلند کرنی ہوتی ہیں۔ دونوں تکنیکیں – ہُک اور ٹاپ رول – پُلرز کے لیے فائدہ مند ہیں اور صرف ریفری کے ’ریڈی گو‘ کہنے کے ساتھ ہی پُلرز ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کے خیال میں ہندوستان میں کھیلوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو کیا کرنا چاہیے؟
آسام کے لڑکے اور لڑکیاں خصوصی معیاری تربیت کے ساتھ ضلع اور ریاستی سطح پر کھیلوں کے مضبوط انفراسٹرکچر کی مدد سے قومی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں ہندوستان کے لیے مزید تمغے جیت سکتی ہیں۔ آسام میں مجھ جیسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں اگر پیشہ ورانہ تربیت دی جائے تو آسام بلکہ پورے ملک کو فخر ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں نے پچھلے دس سالوں میں کھیلوں کے لیے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک مثبت ترقی کی علامت ہے۔
آخر میں، آپ اپنی زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے بعد ملک کے لیے کیا کرنا چاہیں گی؟
میں 2024ء میں منعقد ہونے والی ورلڈ آرم ریسلنگ چیمپیئن شپ میں کوالیفائی کرنے اور پرفارم کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہوں۔ وہاں اچھی پوزیشن حاصل کرنا اور ملک کے لیے طلائی تمغہ لانا میرا خواب ہے۔ اپنے مرحوم والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، میں نہ صرف آرم ریسلنگ کے لیے بلکہ تمام کھیلوں کے لیے ایک ’’اسپورٹس اکیڈمی‘‘ کھولنا چاہتی ہوں۔ میں اپنی ریاست اور اپنی قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہوں اور بین الاقوامی مقابلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لیے کھیلوں کے ہیروز کو تیار کرنا چاہتی ہوں۔ یہ اکیڈمی سب کے لیے مفت ہوگی۔
(بشکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی)
***
***
عافیہ بیگم نے اپنی ہائی اسکول کی تعلیم سیکرڈ ہارٹ اسکول ڈبروگڑھ سے اور سیکنڈری اسکول کی تعلیم لٹل فلاور اسکول سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آسام کے ڈبروگڑھ میں ہنومان بیکس سورج مل کنوئی (DHSK)کالج سے بی کام اور ایم کام مکمل کیا۔ محمد نوشاد خان کے ساتھ ایک انٹرویو میں، انہوں نے نہ صرف آرم ریسلنگ کے لیے بلکہ تمام کھیلوں کے لیے ’’اسپورٹس اکیڈمی‘‘ کھول کر اپنے مرحوم والد کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست اور قوم کی خدمت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ بین الاقوامی مقابلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لیے کھیلوں کے ہیروز کی پرورش کرنے کی بھی خواہش رکھتی ہیں۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023