ڈاکٹر ساجد عباسی
اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ظلم کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہوگا جب مسلم امّت اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کا عزم کرلے۔ امت کا فرضِ منصبی ہے: دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس اور امر بالعروف و نہی عن المنکر۔
حالیہ پر تشدد واقعات بہت ہی خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ جے پور سے ممبئی جانے والی ٹرین میں ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک جوان نے اپنے ساتھی سے رائفل چھین کر پہلے اپنے سینئر کو نشانہ بنایا اور پھر ریل کے تین ڈبوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تین باریش مسلمانوں کو گولی مار کر موت کی نیند سلادیا۔ جن کا کام حفاظت کرنا تھا انہوں نے ہی درندگی کی بدترین مثال قائم کی اور ٹرین کے سفر کو غیر محفوظ بنا دیا۔
ہریانہ میں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے مسلح جلوس کو میوات کے علاقے نوح سے گزارا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس جلوس کی سربراہی ایک ایسا گاؤ رکھشک کر رہا تھا جس کے ہاتھوں ناصر اور جنید کا قتل ہوا تھا۔
اس تشدد کے بعد گروگرام کے سیکٹر ۵۷ میں واقع مسجد انجمن میں آگ لگادی گئی اور اس کے بعد مسجد کے نائب امام محمد سعد کو شہید کر دیا گیا جن کی عمرصرف ۲۲ سال تھی۔ یہ بہار کے رہنے والے تھے۔
ان واقعات سے یہ حقیقت ثابت ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنا حکومت کی نظر میں کوئی جرم نہیں رہا ۔ایسا گاؤ رکھشک جس پر دو دو قتل کے الزامات ہیں وہ قانون کی زد سے بالا تر ہو جاتا ہے اور جری ہو کر فساد کی نیت سے ایک پر تشدد مسلح جلوس کی قیادت کرتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ کو ۲۰۲۴ کے الیکشن جیتنے کے لیے فسادات کی آگ کو بھڑکانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ ظالم سمجھتے ہیں کہ جتنا زیادہ اقلیتی طبقات پر ظلم ہوگا اتنا ہی ہندو خوش ہوں گے اور وہ متحد ہوکر الیکشن میں ان کی حمایت کریں گے۔ الیکشن جیتنے کا جو آزمودہ فارمولا ان کو ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات سے ملا ہے یہ ان کے لیے بنیادی حکمتِ عملی بن گئی ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ہندو قوم کی اکثریت توہم پرست اور جاہل ہے جن کے ذہنوں میں میڈیا کے ذریعے نفرت کے زہر کو کسی بھی حد تک بھرا جا سکتا ہے۔ ان کے فسادی وہ بے روزگار نوجوان ہیں جو نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کی جھوٹی تاریخ کو بار بار بیان کر کے مسلمانوں سے نفرت بٹھائی جا رہی ہے۔ ریلوے پولیس کا اہلکار چار قتل کرنے کے بعد یہی بیا ن دے رہا تھا کہ میڈیا کے کوریج سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے مسلمان پاکستان سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ نفرت کے اس ماحول کو پیدا کرنے میں میڈیا کا بہت گھناؤنا رول رہا ہے۔ ان نچلی ذاتوں کے نوجوانوں کو یہ نہیں معلوم ہے کہ صدیوں سے ان کی نسلوں پر برہمنوں نے ظلم کیا ہے نہ کہ مسلم حکمرانوں نے۔ یہ فرقہ پرست اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلم حکمرانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر دن رات ان کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے نااہلی کے باوجود سیاسی اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مسلم دشمنی مجبوری بن گئی ہے۔
دنیا میں ظلم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ ظلم ہے جب طاقت ور قوم کمزور قوم پر کرتی ہے یا طاقت ور فرد کمزور فرد پر کرتا ہے۔ دوسرا ظلم وہ ہے جو حق کی مخالفت میں حق کے علم برداروں پر کیا جاتا ہے۔ ہر زمانے میں انبیاء و رسل اور ان کے ماننے والوں کی مخالفت کی گئی اور ان پر ظلم کیا گیا۔ ظلم کے باوجود جب اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے اتمامِ حجت کی حد تک اللہ کے پیغام کو اپنی قوموں میں پیش کیا تو اس صورت میں اللہ کی مدد آتی گئی اور ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا رہا ہے ۔
بھارت میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ پہلی قسم کا ظلم ہے۔ ان پر اس لیے ظلم ہو رہا ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور کمزور ہیں۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
بھارت میں مسلمانوں پر اس زمانے میں بھی ظلم ہوا جب انگریزوں کی حکومت تھی اور آزادی کے بعد تو ظلم کا ایک نیا باب کھل گیا۔ ہندو قوم پرستوں کا ظلم انگریزوں کے زمانے میں ہونے والے ظلم کو بھی مات دے چکا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں پر اس لیے ظلم کیا تھا کہ مسلمان ان سے سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، لیکن ہندو فرقہ پرستوں کا ظلم صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کو چھوڑ کر گھر واپسی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان بس یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے تشخص کے ساتھ پر امن طریقے سے بھارت میں رہیں۔ آج ہندو فرقہ پرستوں کو سیاسی بالا دستی کے لیے ہندو ووٹروں کی حمایت چاہیے اور ان کی متحدہ حمایت کے لیے ان فرقہ پرستوں کو ایک مقصد چاہیے تھا۔ چونکہ ان کے پاس کوئی مثبت اور ٹھوس مقصد نہیں ہے اس لیے انہوں نے ایک آسان مقصد کو تلاش کر لیا ہے اور وہ ہے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی۔ فرقہ پرستوں کے لیے اپنی توہم پرست قوم کوجھوٹی داستانیں بیان کر کے ان کے اندر مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنا اور لالچ و فریب سے سیاسی طاقت حاصل کرنا ایک آسان ہدف بن چکا ہے، چنانچہ فرقہ پرست ہندوؤوں نے بہت تیزی کے ساتھ اپنا ہدف حاصل کیا۔ ان حربوں سے انہوں نے ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ میں دو مرتبہ زبردست کامیابی حاصل کی۔ چونکہ ترقی کے تمام محاذوں پر حکمراں جماعت بری طرح ناکام ہوئی ہے اس لیے وہ ۲۰۲۴ میں بھی اسی نفرت کے فارمولے پر گامزن ہے۔ اس سیاسی کشمکش میں مسلمان تختۂ مشق بن رہے ہیں۔ نفرت اب نئی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے اور سارے پچھلے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو قوم بحیثیتِ مجموعی بی جے پی کو مسلم منافرت پر ووٹ دے گی یا ملک کے سنگین مسائل اور بدامنی کی بنیا د پر ووٹ نہیں دے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہندو قوم کی اکثریت ۲۰۲۴ میں کیا فیصلہ کرے گی۔
ایسے حالات میں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کب اور کیسے آئے گی اور کب مسلمانوں کو راحت ملے گی؟
بھارت کے مسلمان دنیا کی اقوام میں سے ایک قوم نہیں ہیں بلکہ ایک مشن بردار امین امّت ہے جس کو بہترین امت کا لقب دیا گیا ہے۔ اس اعزاز کے ساتھ اس امت پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچائے اور اسی کو امت کا مقصدِ وجود بنایا گیا ہے۔ اللہ کی مدد اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت میں مسلمان اس ذمہ داری کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ بھارت میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ یقیناً ظلم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ظلم کو ہونے کیوں دے رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ظلم دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمان خوابِ غفلت سے جاگیں اور اپنے فرضِ منصبی کو ادا کریں۔ یہ ماب لنچنگ، مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے والے بیانات جس میں قتلِ عام کی کھلی دھمکیاں دی جاتی ہیں، مسلح اور پر تشدد جلوسیں نکالنا، مسلمانوں کو گھروں کو مسمار کرنا، ان کی املاک کو جلانا، ان کو قتل کرنا اور ان کے معصوم نوجوانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کو قید کرنا یہ سب اگر اللہ کی طرف سے عذاب نہیں ہے تو تنبیہات ضرور ہیں۔ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے آتی ہے اور اس لیے آتی ہے کہ اس سے رجوع الی اللہ ہو۔ لوگ اپنا احتساب کریں اور اپنی غلطیوں پر معافی مانگیں اور اپنے رویّے کو درست کرلیں :وَلَقَدْ أَرْسَلنَآ إِلَى أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاءلَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (الانعام ۴۲) تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔اللہ تعالیٰ کا مزید ارشاد ہے: وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (السجدہ:۲۱) اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھا تے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں۔
دنیا میں جو عذاب دینے کی قرآن میں بات کی گئی ہے وہ دراصل تنبیہ اور عبرت کے لیے ہے۔ اصل سزا تو آخرت کی سزا ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے رحمت کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۔۔ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے۔ وہ تو ہر اس انسان کوباپنی رحمت سے درگزر کرنے کے لیے تیار ہے جو ندامت و شرمساری کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے اور سچی توبہ کرے اور معافی مانگے، چاہے اس کے کتنے ہی گناہ ہوں۔
اس دنیا میں جو مصیبت بھی کسی پر آتی ہے اس میں بھی رحمت کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔ یا تو وہ گناہوں کے کفارہ کے لیے آتی ہے۔یا درجات کو بلند کرنے کے لیے آتی ہے۔ اگر ظالموں کو دنیا میں پکڑا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے تو اس میں بھی خیر کا پہلو ہوتا ہے اور اس میں دنیا کے لیے بھلائی اور عبرت کا سامان ہوتا ہے۔ عذاب کے ذریعے ظالم کو مزید ظلم سے باز رکھا جاتا ہے۔حتی کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تو اس میں بھی رحمت کا پہلو اس طرح سے ہے کہ ان کو مزید معصیت و ظلم سے روک دیا گیا۔ دنیا کو ان کے ظلم سے نجات دی گئی اور آنے والی قوموں کے لیے ان کے واقعات میں عبرت کا سامان رکھا گیا۔ اللہ کے ہر فیصلے میں حکمت اور خیر مضمر ہوتا ہے۔
مصیبتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک گروہِ انسانی کا خوف دوسرے گروہ پر مسلط کر دیا جائے اور ایک کو موقع دیا جائے کہ دوسرے پر حملہ کرے۔
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ (الانعام ۴۵)
کہو، وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوادے۔
اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ فتنہ و فساد کی حالت میں اچھے اور برے سب ہی زد میں آجاتے ہیں۔ جب فساد اور قتل و غارتگری کا ماحول پیدا ہو جائے تو ان حالات میں اچھے لوگ بھی مارے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مسلم معاشرے کے ہر فرد کی کوشش یہ ہو کہ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں کہ مسلمان ظالموں کے نرغے میں آجائیں۔
وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً (الانفال ۲۵) اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔
اللہ سے دعا ہے کہ ان مسلمانوں کو درجہ شہادت سے سرفراز فرماے جن کو صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔
وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (البروج ۸) اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
اب ہم یہ دیکھیں کہ دشمنوں کی یلغار سے بچنے کی کیا تدبیریں ہوسکتی ہیں۔ قرآن ہی سے اس سلسلے میں ہمیں رہنمائی مل سکتی ہے۔
۱۔ پہلی چیز جو ہمیں دنیا کے عذاب یا مصیبت سے بچانے والی ہے یا دشمنوں کے حملوں سے بچانے والی ہے وہ ہے استغفار۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ۔۔ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال ۳۳) اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دیدے۔
استغفار سے مراد محض انگلیوں پر استغفار ورد کرنا نہیں ہے بلکہ سنجیدگی کے ساتھ غلطیوں کا اعتراف کرنا ہے۔ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کا معاملہ نہ ہی حقوق اللہ کے معاملے میں بہتر ہے اور نہ ہی حقوق العباد کے معاملے میں۔ مسلمانوں میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو پنج وقتہ نماز پڑھتے ہیں جبکہ نماز روح کی غذا ہے؟ جس طرح جسم کے زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کی زندگی کے لیے نماز آکسیجن کی طرح ہے۔جب ہم نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں تو ہمارا تعلق اللہ سے جڑ جاتا ہے اور جیسے ہی نماز ترک کر دی جاتی ہے ایک آدمی کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ اور جب کسی کا شیطان سے تعلق جڑ جاتا ہے تو شیطان فحش و منکرات، خرافات اور اسراف کو خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے۔ نماز پڑھنے کی جب توفیق ہوگی تو استغفار کی بھی توفیق ہوگی اور امت کی اکثریت جب استغفار کرنے لگے گی تو اللہ عذاب کو ٹال دے گا اور دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنا دے گا۔
۲۔ دوسری چیز جو اللہ کے عذاب سے مسلمانوں کو بچانے والی ہے وہ ہے اصلاح کا کام۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (ھود۱۱۷) تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔
اس آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ تباہی و بربادی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح کرنے والے ہر وقت موجود ہوں اور اچھی خاصی تعداد میں ہوں۔ اصلاح مسلمانوں کے اندر بھی مطلوب ہے اور غیر مسلمین کے اندر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو فساد کے بالمقابل اصلاح کرنے کے لیے امت بنا کر قرآن جیسی کتاب عطا فرمائی ہے جو شفاء لما فی الصدور ہے۔قرآن میں ہر انسانی مسئلہ کا حل موجود ہے چاہے وہ اخلاقی ہو، سماجی ہو، معاشی ہو یا سیاسی۔ اہلِ ایمان کے سوا کون دنیا میں اصلاح کا کام کرسکتا ہے جن کے پاس دلوں کے امراض کی شفا یعنی قرآن موجود ہے۔
۳۔ تیسری چیز ہے اللہ کی شکر گزاری۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَّا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء ۱۴۷) آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑ ا قدر داں ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قرآن کی نعمت ہے جو مسلمانوں کو دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (یونس۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ہے، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔
اس نعمت پر شکر گزاری یہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کریں، اس کو سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں، اس کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور اس کا تعارف پیش کرتے ہوئے بندگانِ خدا یعنی غیر مسلموں میں اس کے تراجم کو پہنچائیں۔ قرآن ھدی للّناس ہے اور امت مسلمہ کو سارے انسانوں تک اس کے پیغام کو پہنچانے کے لیے نکالا گیاہے۔
۴۔ کتمانِ حق سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (البقرہ ۱۵۹) جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں در آں حال یہ کہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔
مسلمانوں کی اولین ذمہ داری تھی کہ وہ حق کو اپنے ہم وطنوں میں پیش کرتے لیکن صدیوں سے یہ کام رکا ہوا ہے۔ کتمانِ حق کی سزا یہ ہے کہ مسلمانوں کو لعنت کی حالت میں مبتلا کر دیا جائے۔ لعنت کی ایک شکل یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا جائے۔ لعنت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جائے۔
آج مسلم بادشاہوں کی تاریخ کو مسخ کر کے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں پر ظلم ڈھائے تھے۔آج مسلمانوں پر ظلم کرنے کے لیے اسی جھوٹ کو شدت سے پھیلایا جاتا ہے۔
اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَـئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرہ ۱۶۰) البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ کا حل پیش کر دیا ہے کہ اگر مسلمان داعی امت بن کر اللہ کے پیغام کو چھپانے کے بجائے بیان کرنے لگیں تو اللہ کی رحمت مسلمانوں پر برسے گی۔ اللہ تعالیٰ اس صورت میں اللہ دشمنوں کی ہر چال کو ناکام بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لیے ایک اشارہ حالات کو بدلنے کے لیے کافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ اللہ تعالی کا ارشادہے: إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ مسلمان خود کو بدلیں اور اللہ کو ناراض کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ کو غضب میں لانے والی دو اہم چیزیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اکثر مسلمان قرآن جیسی کتاب رکھ کر مشرکانہ افعال کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ کے آستانوں پر حاضری دینا بدترین قسم کا شرک ہے۔ ہندوؤں کے پاس تو اللہ کا کلام موجود نہیں ہے، اگر وہ شرک کرتے ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن مسلمان اللہ کا خالص کلام رکھ کر شرک کا ارتکاب کریں تو یہ اللہ کو غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔دوسری چیز یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے بجائے غیر اسلامی خرافات کا عملی نمونہ پیش کرکے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کو غیر مسلموں کے سامنے پیش نہ کرکے کتمانِ حق یعنی حق کو چھپانے کا جرم کر رہے ہیں جس پر ان غیر مسلموں کی اخروی فلاح منحصر ہے۔ امت کا مقصدِ وجود ہی یہ ہے کہ وہ شہادت علی الناس کا فرضِ منصبی انجام دیں۔ یہی مقصد امت کے اندر اتحاد کا واحد ذریعہ ہے اور اتحاد ہی سے امت باقی رہ سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ظلم کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے لیکن یہ اس وقت ہوگا جب مسلم امت اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کا عزم کرلے۔ امت کا فرضِ منصبی ہے : دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس اورامر بالعروف و نہی عن المنکر۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023