طوفان ابھی تھما ہے ختم نہیں ہوا!

آئین کی تمہید سے ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ الفاظ ہٹانے کا مطالبہ؛ عدالت عظمیٰ کی پھٹکار

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

دستورکی اصطلاح کو ہندوتوا سے بدلنے کے لیے بھی عدالت میں درخواست؛ وقت رہتے تدبیر ضروری
بھارت کے آئین کو نشانہ بنانا اور اس سے کھلواڑ کرنا اس ملک کی فسطائی طاقتوں کا ایک اہم مشغلہ بن گیا ہے۔ ہر تھوڑے دن کے وقفے سے ان کی جانب سے یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ملک کا دستور اس ملک کی اکثریت کی امیدوں اور آرزوؤں کی تکمیل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اس لیے اس میں ترمیم کی شدید ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسی ہی کوشش ان عناصر کی جانب سے کی گئی جومتنازعہ بیانات دے کر میڈیا کی سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے سابق رکن راجیہ سبھا سبرامنیم سوامی کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو بات کا بتنگڑ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ موصوف ایک دور میں جنتا پارٹی کے قدآور قائد تھے۔ سابق وزیرا عظم آنجہانی چندر شیکھر اور مسلم رہنما سید شہاب الدین مرحوم سابق ایم پی کے ساتھ بھی سوامی کے بڑے دیرینہ مراسم رہے۔ لیکن اقتدار کی ہوس نے انہیں سیکولر روایات سے دور کر دیا اور گزشتہ چند برسوں سے وہ سنگھ پریوار کے ترجمان بن کر سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی اس سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور کچھ ایسی کارستانیوں میں اپنے آپ کو مصروف کیے ہوئے ہیں جو نہ ان کے حق میں بہتر ہیں اور نہ ملک کے مفاد میں ان کی سرگرمیوں کو قابل قبول مانا جا سکتا ہے۔ سبرامنیم سوامی نے دستور کی تمہید میں درج "سوشلسٹ” اور "سیکولر” الفاظ کی شمولیت کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ان الفاظ کو دستور کی تمہید سے حذف کردے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو یہ باور کرایا کہ یہ دونوں الفاظ دستور کی 42ویں ترمیم کے ذریعہ 1976میں دستور کی تمہید میں شامل کیے گئے ہیں۔ 26نومبر 1949کو جب دستور ساز اسمبلی نے اس دستور کو منظور کیا تھا، اس وقت یہ الفاظ آئین کی تمہید میں شامل نہیں تھے۔ ان کے مطابق دستور کی تمہید میں مزید الفاظ کو جوڑنا من مانی ہے۔ اس لیے سوشلسٹ اور سیکولر اصطلاحوں کو وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ سبرامنیم سوامی کے علاوہ ایک اور درخواست گزار ایڈووکیٹ وشنو شنکر جین کا بھی عدالت میں استدال رہا کہ تمہید میں الفاظ کو شامل کرنے کے تعلق سے پارلیمنٹ میں اس پر کوئی مباحث نہیں ہوئے اس لیے یہ الفاظ حقیقی آئین کے جذبہ کے خلاف ہیں چنانچہ دستور کی تمہید میں اسے شامل کرنا غیر دستوری عمل ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران 21 اکتوبر 2024 کو یہ رولنگ دی کہ سیکولرازم ہمیشہ بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ رہا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا استدال تھا کہ ملک کی عدالتوں نے اپنے کئی فیصلوں میں یہ واضح کر دیا کہ سیکولرازم دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا ہمیشہ حصہ رہا ہے۔ اگر کوئی دستور میں استعمال ہوئی حق مساوات اور بھائی چارہ کی اصطلاحات پر نظر ڈال لے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ سیکولرازم دستور ہند کا "کور فیچر” رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہندوستان کے تناظر میں سیکولرازم اور سوشلزم کے وہ معنی نہیں لینا چاہیے جو مغربی ممالک میں مستعمل ہیں۔ سوشلزم کا مطلب یہی ہے کہ سب کو مساوی مواقع ملیں اور دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ یہ دونوں دفعات کسی بھی طرح بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے سوال کیا کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے باقی و برقرار رہے؟
دستوری پس منظر:۔ سپریم کورٹ میں ان دو اصطلاحات کو لے کر جو بحث چھڑی ہے اس کے پس منظر کو جانے بغیر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ بھارت کی آزادی کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ ایک ایسا ملک جہاں کئی مذاہب، کئی تہذیبیں اور کئی زبانیں پائی جاتی ہیں ان سب کو کیسے متحد رکھا جا سکتا ہے۔ ایک آزاد ملک کی جمہوریت اور اس کی آزادی کے تحفظ کے لیے لازمی تھا کہ ایک ایسا دستور مدّون کیا جائے جو ملک کے تمام طبقوں کو مطمئن کرسکے۔ اسی لیے آزادی ہند سے ایک سال پہلے ہی 1946 میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ اسی دستور ساز اسمبلی کی نگرانی میں مسودہ ساز کمیٹی (Drafting Committee) قائم کی گئی۔ اس کے صدر نشین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔ اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ حالات و ظروف کا خیال رکھتے ہوئے ایک جامع اور مبسوط دستور مدوّن کرے۔ اس کمیٹی نے دو سال آٹھ ماہ تیرہ دن کی کڑی محنت کے بعد دستور کا مسودہ تیار کیا اور اسے دستور اسمبلی میں پیش کیا۔ دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 کو اسے منظور کیا۔ اسی کی یاد میں ہر سال 26 نومبر کو "یوم دستور” منایا جاتا ہے۔ دستور ہند کی ساری تفصیل میں گئے بغیر قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان نے 26 نومبر 1949 کو جو دستور بھارتی قوم کے حوالے کیا اس میں دستور کے دیباچہ یا تمہید (PREAMBLE) کی بڑی اہمیت ہے۔ اس تمہید میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہندوستان ایک "مقتدر اعلیٰ، عوامی، جمہوریہ (Sovereign, Democratic, Republic) ہوگا۔ یہ بات سچ ہے کہ جس دستور کو 26 نومبر 1949 کو قوم کے نام معنون کیا گیا اس کی تمہید میں ‘سوشلسٹ (Socialist) اور سیکولر (Secular) الفاظ شامل نہیں تھے۔ یہ دونوں الفاظ 1976میں اندرا گاندھی کے دور حکومت میں دستور کی 42ویں ترمیم کے ذریعہ دستور کی تمہید میں جوڑے گئے۔ واضح رہے کہ یہ دور ایمرجنسی کا تھا اور پارلیمنٹ معطل کر دی گئی تھی۔ اس لیے اس دستوری ترمیم پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکی۔ مسز اندر اگاندھی نے کس نیت سے ان الفاظ کو دستور کے دیباچہ میں شامل کیا یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ملک کی عدالتوں نے بھی اپنے خصوصی اختیار عدالتی نظرثانی (Judicial Review) کے حق کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدا م کو کالعدم قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنی رولنگ میں کہا کہ عدالتیں بارہا یہ کہہ چکی کی سوشلزم اور سیکولرازم دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہے اور دستورکا کور فیچر ہے۔ خاص طور پر اس ضمن میں مشہور زمانہ کیشونند بھارتی کیس کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس کیس میں عدالت نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ دستور کی تمہید میں بیان کردہ الفاظ دستور کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس میں ترمیم یا اسے ختم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت چاہے کسی پارٹی کی رہے وہ دستور کی تمہید میں بیان کردہ اصطلاحات میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔
عدالتی فیصلوں کے بعد بھی یہ ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ دستور میں ترمیم کی باتیں کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کے کچھ عزائم ہیں۔ موجودہ دستور کے ہوتے ہوئے وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے ملک کے حقیقی مسائل کو یہ عناصر نظر انداز کرتے ہوئے ایسے مسائل پر ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے سیاسی مفادات پورے ہوسکیں۔ جب اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں پہلی مرتبہ این ڈی اے حکومت بنی تھی اس وقت ہی دستور پر نظر ثانی کے نام پر ایک کمیشن جسٹس چیلّیا کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ دستوری ترمیمات پر اپنی سفارشات حکومت کوپیش کرے ۔
موجودہ حکومت کے عزائم:۔ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں کامیابی کے بعد جب بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کا موقع ملا تو ہندتوا طاقتوں کی جانب سے دستور میں ترامیم کا ایک نہ ختم ہونے والا مطالبہ شروع ہو گیا۔ اس قسم کی طاقتیں یہ تاثر دیتی رہیں کہ بی جے پی کو ملک کی اکثریت کی تائید حاصل ہے اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ اکثریت کی امنگوں کے مطابق ایک نیا دستور معرضِ وجود میں آئے۔ دستور میں ترمیم تو محض ایک بہانہ رہا ہے اصل میں پورے دستور کی معنویت پر ہی ان طاقتوں نے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اب جو مسئلہ عدالت میں زیر دوراں ہے، اس کا کوئی حل نکل بھی جائے تو فسطائی طاقتیں کوئی اور مسئلہ لے کر عدالت سے رجوع ہوں گی۔ اب جب کے بی جے پی کو تیسری معیاد بھی مل گئی ہے، اس بات کی پوری کوشش کی جائے گی کہ اس معیاد کے دوران دستور سے ایسی دفعات کو حذف کر دیا جائے جو ان کے لیے رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ سیکولرازم کی اصطلاح ہمیشہ ان عناصر کے لیے کھٹکتی رہی۔ ان کا دعوی ہے کہ سیکولرازم، ہندوستان کی روایات سے میل نہیں کھاتا۔ یہ مغربی نظریہ ہے جسے خوامخوہ ہندوستانی دستور میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ دستور کے معماروں نے یہ واضح کیا کہ مغرب میں سیکولرازم کا جو نظریہ ہے اس سے ہندوستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مغربی سیکولرازم کی بنیاد مذہب اور سیاست کو جداگانہ حیثیت دینا ہے۔ وہ سیاست میں مذہب کی مداخلت کو برداشت نہیں کرتا۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس کی تفصیل یہاں پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان میں سیکولرازم کے جس نظریہ کو قبول کیا گیا اس کے تحت کہا گیا کہ مملکت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوگا۔ مملکت شہریوں کے درمیان مذہبی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کرے گی اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔ اتنے سیدھے سادے نظریہ کو فرقہ پرست طاقتیں توڑ مڑور کر پیش کرکے عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرتی ہیں تاکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل ہو سکے۔ ہندوستان میں جہاں "کثرت میں وحدت ” (Unity in Diversity) کے نظریہ کو فروغ حاصل ہوا، وہاں چند طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ہندوستان کی اس انفرادیت کو ختم کرکے ایک مذہب، ایک تہذیب اور ایک زبان کو ملک کی 140کروڑ کی آبادی پر زبردستی مسلط کر دیا جائے۔ اسی لیے سیکولرازم اور سوشلزم کو دستور کی تمہید سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے اپنی رولنگ دے دی اور واضح کر دیا کہ یہ دونوں الفاظ دستور کے بنیادی ڈحانچہ کا حصہ ہیں۔ ابھی سپریم کورٹ نے دوران سماعت اپنی رولنگ دی ہے۔ حتمی فیصلہ آنے کے لیے ابھی کافی وقت لگے گا۔ سپریم کورٹ نے مسئلہ کی حسّاسیت کے پیش نظر اگلی سماعت 18 نومبر 2024 کو مقرر کی ہے۔ درخواست گزاروں کا ادعا ہے کہ وہ سیکولرازم یا سوشلزم کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ اسے دستور کے بنیادی ڈھانچے میں رکھا جائے جو ناقابل ترمیم ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس کھنہ کا یہ سوال بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک رہے یا نہ رہے؟ ابھی تو ہندتوا طاقتوں نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ اب ہندوستان کا سیکولر رہنا ضروری نہیں ہے لیکن آنے والے وقتوں میں کھلے عام سیکولرزم کی مخالفت کرتے ہوئے یہ طاقتیں ہندتوا کی تائید میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور یہ دعویٰ کریں گی کہ اس ملک کا مستقبل ہندتوا سے وابستہ ہے اور یہی یہاں کا دستور ہو۔ سپریم کورٹ میں ہندوستانی دستوریت کی اصطلاح کو ہندتوا سے بدلنے کی بھی درخواست دی گئی ہے۔ اس درخواست کو چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے 17 اکتوبر 2024 کو خارج کر دیا ہے لیکن طوفان تھما نہیں ہے۔ اس لیے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ان سنگین حالات سے بے خبری محبان وطن کے لیے سمّ قاتل ثابت ہوگی۔
***

 

***

 ہندوستان میں جہاں "کثرت میں وحدت ” (Unity in Diversity) کے نظریہ کو فروغ حاصل ہوا، وہاں چند طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ہندوستان کی اس انفرادیت کو ختم کرکے ایک مذہب، ایک تہذیب اور ایک زبان کو ملک کی 140کروڑ کی آبادی پر زبردستی مسلط کر دیا جائے۔ اسی لیے سیکولرازم اور سوشلزم کو دستور کی تمہید سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے اپنی رولنگ دے دی اور واضح کر دیا کہ یہ دونوں الفاظ دستور کے بنیادی ڈحانچہ کا حصہ ہیں۔ ابھی سپریم کورٹ نے دوران سماعت اپنی رولنگ دی ہے۔ حتمی فیصلہ آنے کے لیے ابھی کافی وقت لگے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024