صحافیوں پر بڑھتے حملے اظہار رائے کی آزاد ی پر خطرہ
صحافیوں پر کئے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں تقریباً61 فیصد صحافیوں کو اپنی خبروں یا اس سے متعلق حقائق کی وجہ سے کبھی نہ کبھی دھمکی یا دیگر طرح کے دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سروے کے مطابق ملک اور دنیا میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی پر خطرہ بڑھ رہا ہے۔ میڈیا گھرانوں اور اخبارات کے شعبے میں موثر ریگولیشن نہیں ہونے کی وجہ سے مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم دی ویزن فاونڈیشن اور ملک کے صحافیوں کی اہم تنظیم نیشنل یونین آف جرنلسٹس (انڈیا) نے صحافیوں کی سلامتی اور میڈیا گروپوں کے لئے سیکورٹی انتظامات پر ایک مطالعہ اور سروے تیار کا ہے جس سے صحافیوں پر حملوں کے علاوہ زیادتی کے واقعات پر غور کیا جاسکے اور وقت رہتے اس مسئلے کا موثر حل تلاش کیا جاسکے۔ ملک بھر کے صحافیوں کے درمیان یہ سروے تین نومبر سے 14نومبر کے درمیان کیا گیا۔
سروے میں تقریباً 823 صحافیوں نے حصہ لیا جس میں 21 فیصد خواتین شامل ہیں۔سروے میں 266 میڈیا اہلکار پرنٹ میڈیا ’اخبارات‘ میگزین ’263 آن لائن میڈیا اور 98 ٹی وی سے وابستہ تھے۔ ملک میں 2019 کے دوران چار صحافیوں کا قتل کردیا گیا۔ اس سے پہلے 2018میں ملک میں پانچ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے یا کام کے دوران ہلاک کردیا گیا۔ سروے میں شامل میڈیا اہلکاروں کا تجزیہ تھا کہ سیاسی حالات اور خیالات میں اختلاف کی وجہ سے صحافیوں کو ذہنی‘ جسمانی اور جذباتی زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں سال 2008 سے 2018 کا وقت سب سے خراب رہا۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے حملوں کا شکار ہونا پڑا۔
سروے میں شامل ہونے والے تقریباً74 فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کے میڈیا ادارہ میں خبروں کی اشاعت کے لئے سب سے زیادہ اہم معیار اس کی صداقت ہے۔ تیرہ فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ ادارہ کی ترجیح خصوصی خبروں کی اشاعت ہے۔ تقریباً 33فیصد صحافیوں کا ماننا ہے کہ اکیسویں صدی میں صحافت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اظہار رائے کی آزادی پر بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔ جب کہ تقریباً 21فیصد صحافیوں کا ماننا ہے کہ فرضی اور پیڈ نیوز آنے والے وقت کا سب سے بڑا چیلنج بنیں گے۔
تقریباً 18 فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ نیوز ویب سائٹ کی تعداد میں بے پناہ اضافہ سے مین اسٹریم کے اخبار اور میڈیا سے توقعات بڑھ رہی ہیں۔ لوگوں کا خبروں پر بھروسا کم ہوا ہے۔ یہ صحافت کی معتبریت پر بحران کا دور ہے۔
کسی طرح کی دھمکی یا زیادتی کا شکار تقریباً 44 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ اس طرح کے معاملے میں انہوں نے اس کی شکایت اپنے میڈیا ادارے کے افسران سے کی جب کہ صرف 12 فیصد صحافیوں نے اس طرح کی دھمکی کی اطلاع پولیس یا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کودی۔ سروے میں شامل تقریباً 61 فیصد صحافیوں کو کبھی نہ کبھی حملے یا دھمکی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ 76 فیصد صحافیوں کے میڈیا اداروں میں سلامتی سے متعلق نظم نہیں ہے۔یا انہیں اس طرح کی سلامتی پر عمل یا پروٹوکول کے سلسلے میں کوئی علم نہیں ہے۔
رپورٹ تیار کرنے او رسروے کرنے والے صحافی امیش سنگھ نے بتایا کہ بڑے شہروں او ربڑے اخبارات کے صحافیوں پر حملے یادھمکی کے واقعات کی خبریں اکثر میڈیا کی سرخیاں نہیں بن پاتی ہیں۔ مین اسٹریم کا میڈیا علاقائی یا غیر انگریزی اخبارات کو نظر انداز کرتا ہے۔ جس سے یہ بحث کا موضوع نہیں بن پاتا ہے۔ یہ بہت خراب صورت حال ہے۔ حکومت کو فوراً ایک موثر ریگولیٹری بنانے اور اقو ام متحدہ کے منصوبہ عمل کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ یو این آئی)