شہید قدس یحییٰ سنوار

وہ مرد آہن جس نے آزادی کی خاطر جام شہادت نوش کیا

مترجم:محمد اکمل علیگ

یحیی ابراہیم حسن سنوار 19 اکتوبر 1962 کو جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ 1948 میں عسقلان پر اسرائیلی قبضے کے بعد ان کے خاندان نے ہزاروں فلسطینیوں کے ساتھ ہجرت کی تھی اور خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں رہنے لگے تھے۔
ابتدائی اور ثانوی تعلیم خان یونس میں ہی حاصل کی، اس کے بعد اسلامی یونیورسٹی غزہ میں داخلہ لیا اور وہاں سے عربک لٹریچر میں بی اے کیا۔
2011 میں اسلامی یونیورسٹی غزہ کی فارغ التحصیل سیدہ سے شادی کی جن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا گیا۔
وہ طالب علمی کے زمانے ہی سے کافی سرگرم تھے اور اسی زمانے میں فلسطین میں اخوان المسلمون کی طلبہ ونگ اسلامک بلاک کے ایکٹو ممبر شمار ہونے لگے تھے۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ کی طلبہ یونین کے کئی سارے عہدے پر فائز ہوئے، اسپورٹ کلب کے جنرل سکریٹری بنے، پھر یونین کے نائب صدر اور پھر صدر بنے۔
طالب علمی کے زمانے میں ایکٹیو رہنے اور مختلف عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے ان کے اندر قائدانہ صلاحیت اور مہارت پیدا ہو گئی تھی، اسی وجہ سے حماس کی تاسیس کے بعد ہمیشہ حماس کے کسی نہ کسی عہدے پر فائز رہے اور کامیابی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو ادا کیا۔
انہوں نے 1986 میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسینؒ کی نگرانی میں خالد ہندی اور روحی مشتہی کے ساتھ مل کر ایک سیکورٹی سروس کی بنیاد رکھی جس کا نام تنظیم برائے جہاد و دعوت رکھا، جسے مختصر میں "مجد” کہا جاتا ہے ۔
اس تنظیم کا مقصد قابض اسرائیل کے جاسوس اور ایجنٹوں کا پردہ فاش کرنا، انہیں گرفتار کرنا اور ان کے ذریعے اسرائیلی سیکورٹی سروسز اور خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ داروں کے سلسلے میں معلومات حاصل کرنا تھا، اس تنظیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حماس اندرونی طور پر مضبوط ہوئی اور جاسوسوں اور ایجنٹوں سے پاک ہو گئی۔
وہ شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کافی حساس تھے اور فلسطین کی آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا، اسی وجہ سے انہیں کئی بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، سب سے پہلے 1982 میں گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ طالب علم تھے اور عمر صرف بیس سال تھی، پھر 1985 میں گرفتاری ہوئی اور پھر 20 جنوری 1988 کو گرفتار ہوئے، اس بار ان پر اسرائیلی فوجیوں اور ایجنٹوں کے اغوا اور قتل کا الزام لگایا گیا اور چار بار عمر قید کی سزا سنائی گئی جس کی مدت 426 سال ہوتی ہے۔
وہ جیل میں بھی کافی سرگرم اور ایکٹو رہے اور قیدیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے، انہوں نے 1992، 1996، 2000 اور 2004 میں قیدیوں کے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کی۔ انہیں جیل ہی میں دو مرتبہ حماس کے قیدیوں کی اعلیٰ کمیٹی کا لیڈر چنا گیا۔
انہیں اسرائیل کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا نتیجے میں انہیں چار سال تک قید تنہائی کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اس دوران پیٹ کی تکلیف سے دو چار رہے اور منہ سے مسلسل خون آنے لگا۔انہوں نے دو مرتبہ جیل سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ پہلی مرتبہ جبکہ عسقلان میں مجدل کی جیل میں تھے اور دوسری مرتبہ جبکہ رملہ کی جیل میں تھے۔
مجدل کی جیل میں ایک تار اور چھوٹی سی لوہے کی آری سے سوراخ کرنا شروع کیا اور دیوار کے بیرونی حصے تک پہنچ گئے کہ اچانک وہ ڈھہ گیا اور پکڑے گئے اور اسی وجہ سے انہیں چار سال کے لیے قید تنہائی میں رکھا گیا۔
پھر دوسری مرتبہ جبکہ رملہ جیل میں تھے، لوہے کی کھڑکی کو کاٹنا شروع کیا اور ایک لمبی رسی تیار کی لیکن آخری وقت میں راز کھل گیا اور دوبارہ پکڑے گئے۔
قید کے دوران گھر والوں کو ملنے کی اجازت نہیں تھی، تیرہ سال میں صرف دو بار ان کے والد کو ملنے دیا گیا اور اٹھارہ سال بعد ان کے بھائی کو ملنے کی اجازت دی گئی۔
انہوں نے جیل میں گزارے گئے اپنی 23 سالہ زندگی کا بھر پور استعمال کیا، جیل ہی میں عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی فہم و فراست اور نفسیات کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور کئی کتابوں کا ترجمہ کیا۔
1: "الشاباک بین الاشلاء” کے نام سے عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا، یہ کتاب اسرائیل کی اندرونی خفیہ ایجنسی "شاباک” کے سلسلے میں ہے ۔
2: "الاحزاب الاسرائیلیۃ ” نامی کتاب کا ترجمہ بھی عبرانی سے عربی میں کیا، یہ کتاب اسرائیل کی مختلف سیاسی جماعتوں کے متعلق ہے۔
3: ” الشوک و القرنفل” کے نام سے ایک ناول لکھی، اس ناول میں 1967 سے لے کر پہلے انتفاضہ تک کے فلسطینی جدوجہد کو بیان کیا ہے۔

4: "حماس: التجربہ و الخطأ” کے نام سے ایک کتاب لکھی، یہ کتاب حماس کے مختلف کارنامے اور غلطیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
5: "مجد” کے نام سے ایک کتاب لکھی، یہ کتاب اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں کس طرح معلومات جمع کرتی ہیں، ایجنٹوں کی تربیت کیسے کرتی ہیں اور تحقیقات کے وہ تمام وحشیانہ جسمانی اور نفسیاتی طریقے پر روشنی ڈالتی ہے جس کا استعمال اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں جیلوں میں کرتی ہیں۔
2011 میں ان کی رہائی اس معاہدے کے تحت ہوئی جس میں اسرائیل کے ایک فوجی جلعاد شالیط کے بدلے ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کی رہائی ہوئی۔
جیل سے رہائی کے بعد 2012 میں ان کو حماس کے سیاسی شعبے کا رکن منتخب کیا گیا، اسی طرح حماس کی عسکری ونگ قسام کا بھی ذمہ دار بنایا گیا۔ اس دوران ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے اندرونی طور پر حماس کے سیاسی شعبے اور عسکری شعبے کے درمیان نظم و نسق کو بہتر بنایا اور منظم کیا جس سے حماس داخلی طور پر کافی مضبوط اور مستحکم ہو گئی۔
2015 میں انہیں حماس کے پاس موجود اسرائیلی قیدیوں کا ذمہ دار بنایا گیا اور قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کی بھی ذمہ داری دی گئی۔ 2015 میں ہی امریکہ نے انہیں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا اور اسرائیل نے انہیں ختم کرنے کے لیے اپنی مطلوبہ فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا۔
2017 میں غزہ پٹی میں ان کو حماس کا صدر منتخب کیا گیا، اس دوران انہوں نے وطنی مصلحت کی خاطر حماس اور فتح کے درمیان سیاسی طور پر اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔
انہوں نے مصر سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی، اس ضمن میں ایک وفد کے ساتھ قاہرہ کا دورہ کیا اور مصر کے ساتھ معیشت، سیکورٹی اور بارڈر کے سلسلے میں معاہدہ کیا۔
2021 میں انہیں دوسری مرتبہ حماس کا صدر منتخب کیا گیا، اسی دوران حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی جسے "سیف القدس” کا نام دیا گیا۔ اس جنگ میں حماس کو شاندار فتح ملی۔
اسرائیلی فضائیہ نے تین مرتبہ ان کے گھر پر بمباری کی۔ پہلی مرتبہ 2012 میں پھر 2014 اور پھر 2021 میں لیکن ہر بار وہ محفوظ و مامون رہے۔
31 جولائی 2024 کو اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد انہیں حماس کی سیاسی ونگ کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ 17 اکتوبر 2024 کو فرنٹ لائن پر اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
7 اکتوبر 2023 کو اچانک حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ برسائے گئے اور قسام کے فوجی اسرائیل کے اندر داخل ہو گئے، اس اچانک حملے میں حماس نے سیکڑوں اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا اور ڈھائی سو کے قریب اسرائیلیوں کو گرفتار کر لیا، حماس کی طرف سے اسرائیل پر اب تک کا یہ سب سے بڑا حملہ تھا اور اس حملے کا نام حماس نے مسجد اقصٰی کے دفاع کی مناسبت سے "طوفان اقصیٰ” رکھا۔ اسرائیل نے اس حملے کا ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار کو قرار دیا۔
یحییٰ سنوار نے اپنی پوری زندگی فلسطین، مسجد اقصٰی اور القدس کے دفاع اور آزادی کے لیے وقف کر دی۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ اسی راہ میں شہادت نصیب فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی تمنا پوری کر دی اور انہوں نے آخری سانس تک لڑتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
بشکریہ الجزیرہ

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024