’شہریوں پر زمین، سمندر اور فضا سے اندھا دھند بمباری اگر نسل کشی نہیں تو کیا ہے؟‘‘

نماز عید کے لئے جمع ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع میں جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے اسرائلی جارحیت کو نشانہ بنایا

غزہ ،13 اپریل :۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف  یوں تو پوری دنیا کے انصاف پسند ممالک وقتاً فوقتاً احتجاج کر رہے ہیں اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اس معاملے میں جنوبی افریقہ جیسے ملک نے عالمی عدالت میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔دریں اثنا جنوبی افریقہ نے ایک بار پھر فلسطینیوں کی آواز بلند کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔جنوبی افریقہ کے  صدر رامافوسا کا کہنا ہے کہ 70 سال سے زائد عرصہ سے "امتیازی سلوک، جبر اور نسل پرستی” کے بعد، غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو "اب نسل کشی کا سامنا ہے”۔

جنوبی افریقہ کے صدر نے ان خیالات کا اظہار دارالحکومت پریٹوریا کے قریب لاڈیم کے کھیلوں کے میدان میں نماز عید کے لیے جمع ہونے والے سینکڑوں مسلمانوں سے خطاب کے دوران کیا۔

جنوبی افریقہ کی حکومت نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں اس پر غزہ پر ہونے والے حملوں میں "نسل کشی” کا الزام لگایا گیا ہے۔ اسرائیل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

’’شہریوں پر زمین، سمندر اور فضا سے اندھا دھند بمباری اگر نسل کشی نہیں تو کیا ہے؟‘‘ رامافوسا نے یہ پوچھتے ہوئے کہا کہ کیا جبری نقل مکانی اور پوری آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا مارنا نسل کشی کا عمل نہیں ہے۔

"اس ہفتے روانڈا کی نسل کشی کو دنیا کی نظروں کے سامنے آئے30 سال ہو گئے ہیں، 10 لاکھ افراد کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ ہم پیچھے نہیں بیٹھیں گے، اپنے بازو جوڑ کر بیٹھیں گے، کیونکہ متاثرین کی نسل، مذہبی یا سیاسی عقائد سے قطع نظر، ہماری زندگی میں ایک اور نسل کشی کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 33,545 فلسطینی ہلاک اور 76,094 زخمی ہو چکے ہیں۔