شنگھائی تعاون تنظیم کے اختتام پر اعلامیہ جاری، اگلی کانفرنس کی میزبانی بھارت کو ملی
یہ سربراہ کانفرنس سمرقند میں نئے تعمیر شدہ ”سلک روڈ سمرقند” بین الاقوامی سیاحتی علاقے میں واقع کانگریس سینٹر میں ازبکستان کے صدر شوکت مرزائیف کی میزبانی میں اختتام پذیر ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، روس کے صدر ولادیمیر پوتن، چین کے صدر شی جن پنگ، قازقستان کے صدر قاسم جومرٹ توکایف، کرغزستان کے صدر سادیر جاپاروف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، مبصر ممالک کے صدر بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو، منگولیا کے صدر اوخناگین خورل سُخ، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، مدعو رہنماؤں میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردگان، ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے شرکت کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن روس، چین، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ہندوستان، پاکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے سربراہی اجلاس کے نتائج پر سمرقند اعلامیہ پر دستخط کیے۔
اعلامیے میں، رہنماؤں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایس سی او دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے خلاف نہیں ہے اور اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ باہمی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
رہنماؤں نے عالمی تجارتی تنظیم کی کارکردگی میں اضافہ کرنے اور معاشی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیم میں اصلاحات پر زور دیا۔اعلامیے میں رہنماؤں نے دفاع اور سلامتی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے، دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کی ایک فہرست بنانے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تنظیم ”امن مشن” کی مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ متعدد ممالک کی جانب سے عالمی میزائل دفاعی نظام کی یکطرفہ ترقی کی مذمت کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ اس سے بین الاقوامی سلامتی اور استحکام پر منفی اثر پڑتا ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں کی ترقی، پیداوار، ذخیرہ اندوزی اور استعمال اور ان کی تباہی پر پابندی کے کنونشن کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، رہنماؤں نے خلاء کی غیر فوجی کارروائی کے لیے اپنی حمایت اور ایک بین الاقوامی، قانونی طور پر پابند دستاویز پر دستخط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کی روک تھام کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی شقوں پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔
رہنماؤں نے افغانستان میں تمام نسلی، مذہبی اور سیاسی گروہوں کے نمائندوں کی شرکت کے ساتھ ایک جامع حکومت کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ، ”ایس سی او کے خیر سگالی سفیر” کے خطاب کی منظوری دینے والے رہنماؤں نے 2023 کو سیاحت کا سال قرار دیا۔
اس سربراہی اجلاس کے بعد، ایس سی او کی مدت صدارت ہندوستان کے پاس ہو جائے گی، جبکہ اگلی ایس سی او سربراہی کانفرنس 2023 میں ہندوستان میں ہوگی۔
سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کی جانب سے طویل المدتی اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے جامع ایکشن پلان سمیت کل 40 دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔
دوسری طرف، چین کے صدر شی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں تمام اراکین پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا ایک نئے تنازع کے دور میں داخل ہو چکی ہے لہٰذا روسی صدر ولادیمیر پوتن اور وسطی ایشیا کے شراکت دار رہنماؤں کو ’سازشی انقلاب‘ کے لیے اکسانے سے غیرملکی طاقتوں کو روکنا ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے بعد پہلی بار چین سے باہر سمرقند میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کرنے والے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ان رہنماؤں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے یا پھر غیر ملکی مداخلت کو روکنا چاہیے۔چینی صدر نے کہا کہ دنیا ایک نئے ہنگامہ خیز دور میں داخل ہو چکی ہے، ہمیں وقت کے رجحان کو سمجھنا چاہیے، یکجہتی اور تعاون کو بڑھانا چاہیے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ہمیں ایک متحدہ برادری کی تعمیر کو فروغ دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کی سلامتی کے نظام اور ترقیاتی مفادات کے لیے کی جانی والی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے، اس کے علاوہ ہمیں بیرونی قوتوں کو سازشی انقلاب سے روکنے اور مشترکہ طور پر کسی بھی طرح دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔
چینی صدر نے ’زیرو سم گیمز اور بلاک سیاست‘ پر تنقید بھی کی، جس کا بظاہر اشارہ امریکہ کی طرف تھا، جس پر ماضی میں بیجنگ نے چین مخالف اتحاد کی جانب جھکاؤ پر تنقید کی تھی۔ایران کے لیے ایس سی او بظاہر ایک امریکہ مخالف بلاک ہے اور ایس سی او میں شامل ہونے کی تیاری کر رہا ہے جہاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ایس سی او کو امریکہ کی سخت پابندیوں کے خلاف آگے بڑھنا چاہیے۔اجلاس میں شریک رہنماؤں نے اپنے منتخب موضوعات پر بات کی اور اتحاد پر زور دیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رہنماؤں پر سپلائی چین کا بحران حل کرنے پر زور دیا جبکہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان میں تباہ کن سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی پربات کی۔
اسی طرح کرغزستان اور تاجکستان کے رہنماؤں نے ولادیمیر پوتن اور چینی صدر کی بات سنی، جن کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق سے قبل ایک بدترین سرحدی تنازع تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ گیا تھا۔
ولادیمیر پوتن نے ایس سی او میں رہنماؤں کو تجویز دی کہ ایس سی او کو اپنا کھیلوں کا مقابلہ کروانا چاہیے۔ ولادیمیر پوتن کے اتحادی بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کھیلوں کے لیے ایسی تاریخیں تجویز کیں جو پیرس میں 2024 سمر اولمپکس اور 2026 میں میلانو-کورٹینا سرمائی اولمپکس کے ساتھ ہوں گی۔