شمال میں تعلیم اور روزگار کا برا حال!

نیٹ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا طلبا میں کیوں ہے مایوسی ؟

محمد ارشد ادیب

یو پی کے اساتذہ آن لائن حاضری سے پریشان۔ مسائل کے حل کی فریاد
گجرات میں دس جائیدادوں کے لیے سیکڑوں امیدوار، ریاست کے ترقی یافتہ ہونے کا پھوٹا بھانڈا
شمالی ہند میں ان دنوں ایسا لگ رہا ہے جیسے ساون بھادوں ایک ساتھ برس رہے ہوں ہر طرف پانی و سیلاب کی طغیانی ہے ہزاروں بستیاں زیر آب آ چکی ہیں۔اس کے علاوہ تعلیم اور روزگار ایسے موضوعات ہیں جن سے ہر خاص و عام متاثر ہے۔ میڈیکل داخلے کا اہلیتی ٹیسٹ نیٹ یوجی قومی سطح پر لاکھوں طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے لیے باعث تشویش بنا ہوا ہے این ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال تقریبا 24 لاکھ طلباء نیٹ کے اہلیتی ٹیسٹ میں شامل ہوئے اس دوران نیٹ کا پرچہ لیک ہونے اور کچھ امتحاناتی مراکز پر سیٹنگ کے الزامات لگے میرٹ لسٹ جاری ہونے کے بعد ان الزامات میں مزید تیزی آگئی کیونکہ اس بار طلباء نے بڑی تعداد میں میرٹ میں جگہ بنائی ہے پہلی پوزیشن پر ہی 60 سے زیادہ طلبہ کے نام ہیں سی بی آئی پرچہ لیک کی جانچ کر رہی ہے جبکہ اس پورے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے عدالت سے رجوع کرنے والے طلبہ اور ان کے سرپرست نیٹ کے امتحانات دوبارہ کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت اور این ٹی اے کے حکام امتحانات کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی سے انکار کر رہے ہیں سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ امتحانات کے نتیجوں کو برقرار رکھا جائے یا دو بارا امتحانات کرائے جائیں ۔
دوسری جانب مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی پرچہ لیک معاملے کی تحقیقات میں جٹی ہے سی بی آئی نے اس معاملے کے کلیدی ملزم راکیش کمار عرف راکی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے راکی جھارکھنڈ کے راچی میں ریسٹورنٹ چلاتا تھا اور بہار کے نالندہ کا رہنے والا ہے سی بی آئی نے اسے سچ اگلوانے کے لیے 10 دن کی ریمانڈ یعنی تحویل میں لیا ہے۔
اس معاملے میں یو پی کے حکمران محاذ کے دو ارکان اسمبلی کا نام بھی سامنے آیا ہے جو مشرقی یوپی میں پرچہ لیک کے مافیا مانے جاتے ہیں سہیل دیو سماج پارٹی کے بیدی رام اور نشاد پارٹی کے رکن اسمبلی وپل دوبے کا کہنا ہے کہ ان کے اوپر پرچہ لیک کے پرانے معاملے درج ہیں نیٹ کے پرچے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے تاہم سوشل میڈیا کے صارفین کہہ رہے ہیں چور چوری سے باز سکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں بہرحال یو پی میں پرچہ لیک کی فہرست کافی لمبی ہے اگر نیٹ میں بھی پرچہ لیک ثابت ہو گیا تو حیرانی کی بات نہیں ہوگی اصل سوال یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے نیٹ کے نتائج کو ہری جھنڈی دے دی اور کونسلنگ کے بعد سی بی آئی پرچہ لیک کی تصدیق کر دیتی ہے تو میرٹ کا کیا ہوگا اور اس میرٹ سے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کا مستقبل کیا ہوگا ؟
شاہین گروپ آف انسٹیٹیوشن کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق نیٹ کے امتحانات دوبارہ کرانے سے ہی طلبہ کو مکمل انصاف مل سکتا ہے جبکہ کوچنگ انڈسٹری کے اندرونی ذرائع کے مطابق نیٹ کی تیاری کرنے والے کوچنگ سینٹر طلبہ کو پاس کرانے کے لیے لاکھوں روپے وصول چکے ہیں وہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
تعلیم سے جڑا ایک اور مسئلہ ان دونوں یو پی اور بہار میں موضوع بحث بنا ہوا ہے یو پی حکومت کے محکمہ بنیادی تعلیم نے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کی حاضری آن لائن لگانے کا فرمان جاری کیا ہے اب اساتذہ پریشان ہیں کہ سیلاب میں ڈوبے ہوئے اسکولوں میں آن لائن حاضری کیسے لگائی جائے؟ اساتذہ انجمنوں کی اپیل پر سات جولائی کو ہیش ٹیگ بائیکاٹ آن لائن حاضری کے عنوان سے ایکس پر مہم چلائی گئی اس میں پانچ لاکھ سے زیادہ پیغامات آن لائن حاضری کے خلاف درج کیے گئے آن لائن حاضری کے پہلے دن صرف نو اساتذہ نے سرکاری حکم پر عمل کیا ان میں سے دو کے نام ڈبل درج ہیں جبکہ دو استادوں نے غلطی سے آن لائن حاضری کا اقرار کیا ہے اس کے باوجود محکمہ تعلیم کے افسران حکم پر عمل اوراپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ آن لائن حاضری کے خلاف نہیں ہیں لیکن اسے نافذ کرنے سے پہلے حکومت کو سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنی چاہیے اس کے علاوہ اساتذہ کو پورے سال میں صرف 14 سی ایل اور ایک عدد ای ایل ملتی ہے اگر کوئی استاد کسی ناگہانی یا عذر کے سبب تاخیر سے اسکول پہنچے تو آدھے دن کی چھٹی لینے کا بھی کوئی موقع نہیں ہے ایسے میں تنخواہ کٹنا لازمی ہے ATEWA کے صدر بجے کمار بندھو کہہ رہے ہیں” یہ صرف حاضری نہیں ہے یہ ایک جال ہے آپ کی حاضری آپ کی تنخواہ کاٹنے کے ساتھ آپ کا ڈی اے بڑھوتری’ ترقی’ سب کچھ رکے گا پھر ریکارڈ خراب دکھا کر باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا سوچ لیجئے یہ نجی کاری کی طرف لے جانے والا فیصلہ ہے”.
اساتذہ کے پاس تعطیلات میں شادی بیاہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے بعض اساتذہ کو اپنی شادی کے لیے بھی میڈیکل لیو لینی پڑتی ہے آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس ایسوسییشن یو پی کے صدر شکیل احمد نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ” حکومت اور اس کے حمایتی کچھ عناصر سوشل میڈیا میں اساتذہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اساتذہ کام چوری کے سبب یا فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے ہوئے وقت پر اسکول نہیں پہنچتے ہیں جبکہ اصلیت یہ ہے کہ آج بھی دور دراز کے اسکولوں تک پہنچنے کے پختہ راستے نہیں ہیں کہیں ندی پار کر کے جانا پڑتا ہے اور کہیں پیدل چل کر پہونچنا پڑتا ہے۔ایسے حالات میں اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے حکومت اگر واقعی تعلیمی معیار کو بلند کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے تمام اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے اور اساتذہ کا ان کے گھر کے قریب تبادلہ کیا جائے تو اساتذہ خوشی خوشی اپنے فرائض منصبی کو ادا کر سکیں گے۔‘
یوپی کے تمام اضلاع میں اساتذہ آن لائن حاضری نافذ کرنے سے پہلے اپنے مطالبات پورے کرنے کی مانگ کر رہے ہیں ریاست کی اہم اپوزیشن جماعت سماج وادی پارٹی نے اساتذہ کے مطالبات کی حمایت کی ہے ایس پی کے سربراہ اکھلیش یادو اور پروفیس رام گوپال یادو نے میڈیا میں بیان جاری کر کے حکومت کے رویے پر تنقید کی ہے کچھ عرصہ پہلے بہار کے محکمۂ تعلیم نے بھی ہولی کے موقع پر اساتذہ کو ڈیوٹی پر بلایا تھا اسکول کے اوقات میں تبدیلی کرتے ہوئے اساتذہ کو شام پانچ بجے تک اسکول میں رہنے کا دباؤ بنایا گیا تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دراصل حکومت تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی فراق میں رہتی ہے مستقل اساتذہ کے بجائے جزوقتی اساتذہ کا تقرر اور اس جیسے دیگر فیصلے اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں جو تعلیم کے شعبے کو نجی کاری کی طرف لے کر جائے گا جہاں غریب اور نادار بچوں کے لیے تعلیم کا کوئی موقع نہیں بچے گا۔
بھارت میں بے روزگاری کتنی بڑھ گئی ہے اس کی ایک جھلک ترقی یافتہ کہی جانے والی ریاست گجرات کی ان وائرل تصویروں میں نظر آئی جس میں ایک نجی ہوٹل کے باہر سیکڑوں امیدوار نوکری کی جدوجہد کرتے نظر آئے اطلاعات کے مطابق گجرات کے بھڑوچ ضلعے میں ایک پرائیویٹ ہوٹل نے 10 اسامیوں کا اشتہار دیا اس کے لیے 1800 امیدوار انٹرویو دینے پہنچ گئے ہوٹل کے باہر ایسی افرا تفری مچی کے ہوٹل کی ریلنگ ہی ٹوٹ گئی اور اسکے ساتھ ہی گجرات ماڈل کی پورے ملک میں قلعی کھل گئی باقی ریاستوں کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ یو پی میں پچھلے نو سال میں 24 محکموں کی بحالیاں شروع ہوئیں لیکن پوری ایک بھی نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ یو پی ایس ایس سی کے دو چیئرمین اپنی میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں تو نوکری ملے گی کیسے؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024