شمالی ریاستوں میں مندر مسجد کے تنازعات میں شدت وارا نسی کی مقامی عدالت کا گیان واپی مسجد کے سروے سے انکار
اتر اکھنڈ میں مسلمانوں کا رہنا دوبھر چمولی کے بعد اتر کاشی میں بھی پرتشدد احتجاج
محمد ارشد ادیب
بہرائچ فساد میں برسر اقتدار جماعت کے ساتھ پولیس کی کھلی پول فسادات سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی
یوگی حکومت کی انکاؤنٹر ویڈیو شوٹ کرانے کی ہدایت کانگریس کا فرضی انکاؤنٹرز کی ہائی کورٹ سے جانچ کا مطالبہ
لکھنو کے بھکاریوں کا دلچسپ سروے نوکری پیشہ افراد سے زیادہ کمائی بھکاریوں کی ہے
شمالی ہند میں مندر مسجد کے تنازعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے خصوصی ایکٹ کے باوجود مساجد کو عدالت میں متنازعہ بنانے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اتر اکھنڈ اور ہماچل پردیش جیسی چھوٹی ریاستوں میں بھی مسجدوں کے خلاف پر تشدد احتجاج ہو رہے ہیں۔
اتر اکھنڈ کے ضلع اتر کاشی میں ایک مسجد کو لے کر حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ مقامی پولس انتظامیہ کو بی این ایس ایس کی دفعہ 163 نافذ کرنی پڑی۔اتر کاشی کا دورہ کرنے والے دہرادون کے ایک صحافی نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں بتایا کہ فی الحال اتر کاشی میں حالات معمول پر آ رہے ہیں بازار بھی کھل چکے ہیں لیکن تناؤ کو دیکھتے ہوئے پولیس چوکسی برت رہی ہے۔ جس مسجد پر تنازعہ شروع ہوا تھا وہاں پر پولیس کا کڑا پہرا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہندو تنظیموں کے پرتشدد احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے جنہیں علاج کے لیے دہرادون کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ سوامی درشن بھارتی نامی تنظیم نے جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پرتشدد تحریک کی دھمکی دی تھی جس کے سبب مقامی مسلمانوں نے مسجد کے بجائے گھروں میں نماز ادا کی۔ اتر کاشی سے متصل یمنا گھاٹی میں بھی ماحول کشیدہ ہے۔ اس سے پہلے ضلع چمولی کے خانسر و دیگر مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ پوری ریاست میں پچھلے دو مہینے سے مختلف مقامات پر الگ الگ بہانوں سے سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے والے واقعات ہو رہے ہیں۔ان واقعات کے پیچھے کون عناصر ہیں یہ معلوم کرنا پولیس کا کام ہے۔ فی الحال مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے پہاڑی اور غیر پہاڑی باشندوں کی سیاست کار فرما ہے۔ کچھ ہندو تنظیمیں مقامی باشندوں کو یہ پٹی پڑھاتے ہیں کہ باہر سے آنے والے مسلمان تمہاری روزی روٹی چھین رہے ہیں، اسی کا بہانہ بنا کر کبھی لو جہاد کے نام پر تو کبھی اور کسی فرضی جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اتر کاشی اور چمولی کے واقعات میں ویاپار منڈل کا بازار بند کرانا اور احتجاجی تنظیموں کا ساتھ دینا اس بات کا غماز ہے کہ یہ مسئلہ روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ سماجی کارکن و صحافی ذاکر علی تیاگی نے ایکس ہینڈل پر ٹویٹ کر کے وزیر اعظم کے دفتر کو ٹیگ کیا۔ انہوں نے لکھا "پی ایم او انڈیا کو فوراً نوٹس لینا چاہیے، دھامی سرکار غنڈوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے جس کے سبب ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔” انڈیا 4 نیشن نام کے ایکس ہینڈل سے اس پر تبصرہ کیا گیا "یہ غنڈہ گردی کی کارروائی ہے جو سماج دشمن عناصر کی ذریعہ کی گئی ہے ان غنڈوں کو ہندو سنگھٹن کا نام نہ دیں یہ صرف غنڈے ہیں انہیں بی جے پی کے ووٹوں کی فصل میں تیار کیا گیا ہے”۔
مقامی صحافیوں کے مطابق کچھ شدت پسند تنظیمیں مسجد کو غیر قانونی بتا کر گرانے کی مہم چلا رہی ہیں۔ پولیس سے جھڑپ کے بعد 8 نامزد ملزموں کے ساتھ تقریباً 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ اس مسجد کو قانونی قرار دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ تنظیمیں مسجد کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد کسی بھی عبادت کا نیچر نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو کہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔
بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا پر قانونی داؤ پیج
وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے شاہی عیدگاہ پر عدالتوں میں قانونی لڑائی جاری ہے۔ وارنسی کی سینئر سِول جج کی عدالت نے گیان واپی مسجد کا سروے کرانے کی عرضی کو مسترد کر دیا ہے۔ ہندو فریق کی جانب سے واد متر رستوگی نے اے ایس آئی سے مسجد کے حوض والے حصے کا سروے کرانے کے ساتھ مسجد کے مین گنبد کے نیچے کھدائی کرانے کی عرضی دی تھی۔ انجمن انتظامیہ کمیٹی نے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ ہندو فریق نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے پہلے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا میں شاہی عید گاہ کے معاملے میں مسلم فریق کی عرضی کو خارج کر دیا تھا جس میں ہندو فریق کی عرضیوں کی ایک ساتھ سماعت کے فیصلے پر ریکال عرضی دی گئی، اب ان عرضیوں پر آئندہ چھ نومبر سماعت کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
اسی درمیان سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے اعتراف نے سب کو چونکا دیا ہے جب انہوں نے بابری مسجد رام جنم بھومی کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے فیصلے سے پہلے اپنے بھگوان کے سامنے بیٹھ کر تنازعے کا حل تلاش کرنے میں مدد کی دعا کی تھی۔ انہوں نے پونے میں اپنے آبائی مقام پر ایک تہنیتی پروگرام میں عقیدے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کیس کا ذکر کیا۔ اس پر کئی قانونی ماہرین نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے عدالتی فیصلوں میں عقیدے کا سہارا لینے پر تنقید کی ہے۔ ایک جج قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے آئین کے سامنے حلف اٹھاتا ہے۔ جمہوری نظام میں کوئی بھگوان یا دیوتا دستور سے اوپر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی عقیدے سے ترغیب حاصل کرکے فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ معروف صحافی عارفہ خانم شیروانی نے اس پر طنز کرتے ہوئے لکھا جج صاحب اگر ایک بار عمر خالد کے بارے میں بھی بھگوان سے بات کر لیتے تو اچھا ہوتا۔ بھگوان کچھ تو کہتے، بیل نہ ملتی نہ سہی ٹرائل تو ملتا۔” واضح رہے کہ نوجوان طلبہ لیڈر عمر خالد کے معاملے میں دی نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے” فور ایئرس ان جیل ودآؤٹ ٹرائل” یعنی چار سال جیل میں رہنے کے باوجود مقدمے کا ٹرائل شروع نہیں ہو سکا۔
بہرائچ کے مہاراج گنج فساد کے بعد نئے نئے انکشافات
مہاراج گنج فسادات کے سلسلے میں نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں جس سے مقامی انتظامیہ کے ساتھ برسر اقتدار جماعت کی بھی فضیحت ہو رہی ہے، حالانکہ قصبے کے حالات معمول پر آ رہے ہیں سپریم کورٹ کی سختی کے بعد بلڈوزر کارروائی پر بھی بریک تو لگ گیا ہے لیکن بی جے پی رکن اسمبلی سریشور سنگھ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے نے ان کی پارٹی کی پول کھول دی ہے۔ مہسی کے رکن اسمبلی نے اپنی پارٹی کے شہر کے صدر سمیت سات فسادیوں کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی ہے اس میں ان پر پوسٹ مارٹم ہاؤس کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ بھیڑ کو اشتعال دلانے اور اقدام قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ فساد برپا کرنے والے ایک اور شخص کا ویڈیو وائرل ہو گیا ہے جس میں وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پولیس نے صرف دو گھنٹے کی مہلت دی تھی، اگر پولیس غداری نہ کرتی تو پورا مہاراج گنج صاف ہو جاتا ہے یعنی مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا۔ اس فساد میں پولیس کی سنگین لاپروائی سامنے آئی ہے۔ ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ مقامی تھانے میں تیوہار رجسٹر پچھلے 13 سال سے اپڈیٹ ہی نہیں کیا گیا ہے ورنہ ہر تہوار سے پہلے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے مقامی افراد کی ایک میٹنگ ہوتی تھی اور تہوار رجسٹر میں اس میٹنگ کی تفصیلات درج کی جاتی تھیں۔ جانچ میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہردی تھانے کا پچھلے 13 سال سے کوئی معائنہ ہی نہیں ہوا۔ پولیس کے علاوہ حکام نے فسادات سے نمٹنے کا کوئی ٹرائل بھی نہیں کرایا۔ سی او مہسی مشتعل بھیڑ کی طرف آنسو گیس کی گولیاں بھی نہیں چلا سکے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں بڑی کارروائی ہو سکتی ہے۔
اسی درمیان یو پی حکومت نے فرضی انکاؤنٹر کے الزامات سے بچنے کے لیے نئی گائیڈ لائن جاری کی ہے اور پولیس کو انکاؤنٹر کا ویڈیو شوٹ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ دوسرے تھانے کی پولیس کے ساتھ فورنسک ٹیم انکاؤنٹر کے مقام کی جانچ کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے اس گائیڈ لائن پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کانگریس لیڈر شاہنواز عالم نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکاؤنٹرز تو اچانک ہوتے ہیں فائرنگ کے دوران اس کی ویڈیو گرافی کیسے کی جائے گی؟ ویڈیو گرافی کرانے کی ہدایت دینے کا مطلب یہ ہے کہ یو پی حکومت فرضی انکاؤنٹرز کی بات تسلیم کر چکی ہے؟ انہوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے کمیشن کے ذریعے اس کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شاہنواز عالم نے اسے جمہوریت کے لیے خطرناک بتاتے ہوئے اس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
لکھنو میں بھکاریوں کا دلچسپ سروے
ادب و تہذیب کے شہر لکھنو میں ایک انوکھا سروے ہوا ہے۔ اس سروے کے مطابق لکھنو کے بیشتر بھکاری ماہانہ60 ہزار سے 90 ہزار روپے کمائی کر رہے ہیں۔ مندر، مسجد اور مزاروں کے سامنے یا ٹریفک سگنل پر یا سڑک کے کنارے پر جگہ آپ کو بھکاری مل جائیں گے۔پھٹے پرانے کپڑوں میں بھیک مانگنے والوں پر ترس کھا کر کچھ روپیوں کی بھیک دینا عام بات ہے۔ مگر لکھنو میونسپل کارپوریشن، محکمہ سماجی بہبود اور شہری ترقیاتی ایجنسی ڈوڈا کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے میں یہ چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ سروے کے مطابق لکھنؤ کے فیاض باشندے ہر روز بھکاریوں کو تقریبا 13 لاکھ روپے کی خیرات بانٹ دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خواتین بھکارن مرد بھکاریوں سے زیادہ کمائی کرتی ہیں یعنی ایک بھکاری ہر ماہ 60 ہزار روپے کماتا ہے تو ایک بھکارن 90 ہزار روپے کماتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی سالانہ آمدنی تقریبا گیارہ لاکھ روپے ہے جو کہ بہت سے سرکاری نوکروں اور عام تاجروں و محنت کش لوگوں کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ لکھنو میں بھکاریوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے ۔سروے میں بہت کم بھکاری ایسے ملے جو مجبوری میں بھیک مانگ رہے تھے باقی تمام 90 فیصد پیشہ ور بھکاری ہیں۔ بھکاریوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں سرکاری اسکیموں کا فائدہ پہنچانے کے لیے ایک خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے، اس کے لیے ان سے فارم بھروائے جا رہے ہیں۔ اس میں پانچ ٹیمیں پوری تن دہی سے کام کر رہی ہیں۔ ٹیم میں شامل افسروں کا کہنا ہے کہ کچھ بھکاریوں کے پاس اسمارٹ فون اور پین کارڈ سمیت دیگر کئی جدید چیزیں بھی ملی ہیں۔ بھکاریوں سے شہریوں کو نجات دلانے کے لیے حکومت اقدامات کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور انہیں پیشہ ورانہ تربیت اور انہیں روزگار فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ حل ہو سکے۔ حالانکہ اس سلسلے میں جب سروے ٹیم کے افسروں نے ایک بھکاری سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں تین لاکھ روپے ہیں اسے کوئی سرکاری سہولت نہیں چاہیے بلکہ صرف بھیک مانگنے کی اجازت چاہیے۔ اسلام میں بھی بھیک مانگنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن، لوگوں سے بلا ضرورت سوال کرنے والے کے چہرے پر بدنما داغ ہوں گے۔ اس کے باوجود غریب مسلمانوں میں بھیک مانگنے کی عادت فروغ پا رہی ہے جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ دلچسپ اور تازہ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024