شمالی بھارت میں موسم سرما کی آمد فضائی آلودگی اور دھند سے سانس لینا دشوار
اے پی سی آر نے کی انسانی حقوق کے تحفظ کی اپیل
محمد ارشد ادیب
ہماچل پردیش کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ، مسلمانوں کو باہری ثابت کرنے میں کانگریسی وزراء بھی شامل؟
اجودھیا میں دیوالی کا جشن چراغاں، مقامی رکن پارلیمنٹ نظر انداز!
نینی تال میں کم سن حسینہ کے سبب کئی نوجوان موزی مرض میں مبتلا
دیوالی کے بعد بعد دلی اور لکھنؤ میں سانس لینا دشوار:
شمالی بھارت میں پٹاخوں کے تیوہار دیوالی کے ساتھ موسم سرما نے دستک دے دی ہے۔ دلی اور لکھنو سمیت پورے شمال پر دھند کی دبیز چادر نے بچوں اور بزرگوں کے ساتھ تمام حیوانات کے بھی مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ دلی سے متصل این سی آر کے علاقوں اور لکھنؤ میں آب و ہوا اتنی آلودہ ہو چکی ہے کے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ دریائے جمنا کا پانی صاف کرنے میں دلی حکومت کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔دیوالی پر پٹاخے نہ جلانے کی ہدایت کو دلی والوں نے دھوئیں میں اڑا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ حلقوں میں ان مسائل پر گفتگو ہونے کی بجائے حلال فری دیوالی منانے کی مہم چلائی گئی۔ دراصل یو پی کی یوگی حکومت نے کچھ ماہ قبل ریاست میں حلال مصنوعات پر پابندی لگائی تھی۔ اس نے حلال سرٹیفکیشن کو غیر قانونی بتاتے ہوئے حلال ٹیاگ والی مصنوعات کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ دیوالی کے موقع پر ہندو جن جاگرتی منچ نے اس مہم کو دوبارہ تیز کر دیا ہے۔ منچ نے ہندو سماج سے حلال مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہمارا ٹارگٹ صرف حلال فری دیوالی نہیں بلکہ حلال مکت بھارت ہے۔ معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر بیگ نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس مہم کے پیچھے تین مقاصد ہو سکتے ہیں; مسلمانوں کی معیشت کو ٹارگٹ کرنا، ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانا اور ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سلب کرنا۔ حلال مکت بھارت کے پیچھے دراصل مسلمان مکت بھارت کا منصوبہ کار فرما ہے جس کا گاہے بگاہے اظہار
ہوتا رہتا ہے۔
ایودھیا، دیوالی کے موقع پر مقامی رکن پارلیمنٹ نظر انداز:
ایودھیا میں اس بار دیوالی دھوم دھام سے منائی گئی جس میں ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عقیدت مند بن کر رام جی کا رتھ کھینچا۔ اس موقع پر متعدد پروگراموں کا انعقاد کیا گیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایودھیا کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد کو کسی بھی تقریب میں نہیں بلایا گیا۔ انہوں نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے ہمارے تہواروں کا سیاسی کرن کر دیا ہے جو تیوہار گنگا جمنی تہذیب میں مل کر منائے جاتے تھے بی جے پی ان کے خلاف ہے۔
ایودھیا کے ایک مقامی صحافی نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل بی جے پی غریب اور دلت مخالف ہے۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں صدر جمہوریہ کو نہیں بلایا گیا اور اب عوام کے منتخب کردہ رکن پارلیمنٹ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے سیاسی نقصان کا ڈر بھی کار فرما ہے۔ ان کو ایودھیا سے ایک دلت لیڈر کی کامیابی ابھی تک ہضم نہیں ہو پائی ہے جشن کے نام پر وہ یو پی کے ضمنی انتخابات کے ساتھ دوسری ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اودھیش پرساد کی شرکت بی جے پی کے سیاسی مقاصد کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے انہوں نے ایودھیا کی تقریب میں بولتے ہوئے کہا کہ جو رام بھکت نہیں وہ راشٹر بھکت یعنی محب وطن بھی نہیں ہو سکتا۔ ایودھیا میں مختلف مقامات پر ایک ساتھ پچیس لاکھ دیے جلانے کا ریکارڈ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس پر نریش شرما نام کے ایک صارف نے ایکس پر لکھا "ایودھیا میں چار لاکھ دیوں کا بجٹ 137 کروڑ یعنی ایک دیا 3353 روپے کا؟ دیوالی انسانوں کی منائی گی یا گدھوں کی۔” کرشنا نام کے صارف نے اس پر تبصرہ کیا دیپک جلانے کے بہانے یہ پیسوں کے ہوس کے مارے گدھ تیل کے بیرل پی جائیں گے۔” اس بار دیوں کے بچے ہوئے تیل سے غریبوں کو دور رکھنے کے لیے، دیے بجھنے سے پہلے ہی ندی میں بہا دیے گئے ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایودھیا میں دیوالی کے بعد بچے ہوئے تیل کو جمع کرنے کے لیے غریبوں کی لائن لگ گئی تھی۔ اس پر ایک مقامی صحافی نے تبصرہ کیا تھا کہ ہمارے یہاں اتنی غربت ہے کہ مفت کا راشن ملنے کے باوجود ان کے پاس تیل خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ میڈیکل کالج میں علاج کے لیے ڈاکٹرز نہیں ہیں لیکن سرکاری تقریبات پر خرچ کرنے کے لیے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہیں۔ اتنی بھاری رقم سے مفت علاج کے ساتھ ساتھ لاکھوں بچوں کی تعلیم کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہماچل پردیش کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ
ہماچل پردیش کے سنجولی، منڈی اور دیگر مقامات پر ہونے والے پرتشدد احتجاج اور فرقہ وارانہ واقعات کا جائزہ لینے کے لیے اے پی سی آر نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی، اس کمیٹی کے ممبروں نے ریاست کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اس رپورٹ کو "کرییٹنگ دی مسلم آؤٹ سائیڈر” کا عنوان دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں فرقہ وارانہ واقعات کے ساتھ پرتشدد احتجاج اور ریاستی حکومت کے رول کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کی تفصیلات ملک کے سامنے پیش کی گئی۔ ندیم خان نے پریس کانفرنس کی شروعات کرتے ہوئے کہا کہ ہماچل پردیش حکومت کی سب سے بڑی ناکامی لاء اینڈ آرڈر کو برقرار نہ رکھ پانا ہے۔ سرشٹی جیسوال نے اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حکومت ہونے کے باوجود ہماچل پردیش میں رہنے والے باہری باشندوں سے ان کے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ مانگے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ فرقہ پرستی ایک بیماری ہے، کانگرس پارٹی بھی اس بیماری سے پاک نہیں ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی سے اپیل کی کہ پارٹی میں موجود فرقہ پرست عناصر کو ریاست باہر نکال دینا چاہیے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ریاستی حکومت کے دو اہم وزیروں وکرم آدتیہ سنگھ اور انوردھ سنگھ کے بیانات کا حوالہ دیا ہے کہ کس طرح انہوں نے مسلمانوں کو باہری قرار دیتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات کو ہوا دی۔ شملہ کے سابق ڈپٹی میئر ٹکندر پنوار نے پریس کانفرنس میں اس کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ شملہ میں پچیس ہزار سے زیادہ عمارتیں غیر مجاز ہیں، یہاں تک کہ گیارہ منزلہ ہائی کورٹ کی عمارت بھی غیر مجاز تھی۔ بیس مندر جنگلات کی زمین پر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن صرف ایک خاص عینک سے دیکھنے والے لوگ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس (اے پی سی آر) نے ہماچل پردیش میں شملہ کے علاوہ سنجولی،منڈی، سولن، کلو اور پالم پور کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہماچل پردیش کے فرقہ وارانہ واقعات ہریانہ اسمبلی انتخابات میں سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے بھی ہو سکتے ہیں۔
اے پی سی آر نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے مظلوموں کی حمایت میں کھڑے ہونے کا عزم کیا ہے۔ اس نے سِول سوسائٹی، عدلیہ اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ ان واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر واضح موقف اختیار کرے۔ واضح رہے کہ ہماچل پردیش کی طرح اتر اکھنڈ میں بھی مسلمانوں پر باہری ہونے کا لیبل لگا کر ریاست سے بھگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دونوں ریاستوں میں دیو بھومی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ بھارت کے آئین میں تمام باشندوں کو کہیں بھی بودوباش کرنے اور روزگار حاصل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
نینی تال میں نشئی حسینہ بنی مصیبت
اتر اکھنڈ کے ضلع نینی تال سے ایک افسوس ناک خبر وائرل ہوئی ہے۔ قصبہ رام نگر میں سترہ سالہ لڑکی کو نشے کی لت لگ گئی۔ اپنی اس عادت کو پورا کرنے کے لیے وہ غلط صحبت میں پڑتی چلی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس لڑکی کو ایڈز کی مہلک بیماری تھی۔ اب ان لوگوں کی جانچ کی جا رہی ہے جنہوں نے اس لڑکی سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔ اب تک سترہ افراد اس لڑکی کے سبب موذی مرض کی زد میں آچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان نوجوانوں کی بیویوں کا ٹیسٹ کرانے پر یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے برے کام کا برا نتیجہ۔ اسلام میں جنسی بے راہ روی سے اسی لیے روکا گیا ہے۔
گجرات میں ڈی این اے ٹیسٹ کا چونکانے والا نتیجہ
گجرات سے بھی ایک چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے کہ ریاست کی مختلف عدالتوں میں خاندانی تنازع کی جو مقدمے آتے ہیں ان میں اولاد کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کی 2014 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کے کیسز ہر ہفتے اوسطاً پانچ آتے ہیں اور ان پانچ میں سے چار ایسے ہوتے ہیں جن میں اولاد قانونی طور پر شوہر کی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی وہ ولدیت ٹیسٹ میں فیل ہوجاتے ہیں۔ سبھاش شرما نام کے ایک صارف نے اس رپورٹ کو ایکس پرشیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہی ہے بھارتی تہذیب اور ثقافت؟
یہ رپورٹ اس وقت کی ہے جب غیر ازدواجی جنسی تعلقات کی شادی کے بغیر اجازت نہیں تھی اور نہ ہی لیو ان رلیشن شپ کی اجازت تھی۔ اب جبکہ ان کی اجازت مل گئی ہے، آگے کیا حال ہونے والا ہے آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024