شفافیت کے ساتھ جامع جانچ لازمی

خانگی ادارےکا سرکاری نشان استعمال کرنا اعلیٰ پیمانے کی دھوکہ دہی!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

این ٹی اے کے ساتھ یو جی سی چیف مامیڈالا جگدیش کمار کے بغیر تحقیقات نامکمل
نیٹ کے بعد نٹ کے پیپر لیک کی باری آئی، لاکھوں لوگوں نے اس کا بھی امتحان دیا تھا، جب یہ منسوخ ہوا تو اس پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا، ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پیپر لیک اب ملک میں ایک نارمل معاملہ بن چکا ہے، حکومت نے بھی امتحان منعقد کرنے والے ادارے پر جانچ کا پینل بٹھا دیا۔ لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ تمام پہلوؤں کی جامع انکوائری ہونی چاہیے، نہ صرف اس ایک ادارے کی جامع جانچ ہو بلکہ اس کے ساتھ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے کردار کی بھی جانچ ہو اور خاص طور پر اس کے چیئرپرسن، مامیڈالا جگدیش کمار، کی بھی جامع جانچ ہونی چاہیے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ادارے نے نٹ کا امتحان کروایا تھا وہ خود ایک پرائیویٹ انسٹیٹیوٹ ہے، این ٹی اے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی ایک پرائیویٹ ادارہ ہے، پہلے حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ ایک خانگی ادارہ کیسے نیشنل لیول کا امتحان منعقد کرسکتا ہے، وہ بھی ایک ایسا امتحان جس سے لاکھوں لوگوں کا مستقبل وابستہ ہے؟ این ٹی اے کی دھوکا دہی کا معاملے یہ ہے کہ وہ حکومت ہند کا نشان (Emblem) استعمال کر رہا ہے۔ اس کو کس نے اجازت دی کہ وہ حکومت کا نشان استعمال کرے؟ ہم تو اب تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ حکومت کا ہی کوئی ادارہ ہے لیکن یہ ایک پرائیویٹ باڈی ہے ایک پرائیویٹ سوسائٹی ہے، ہمیں تو یہ بات اس وقت معلوم ہوئی جب اس کا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ دیکھا گیا۔ جب کہ یہ بات طے ہوتی ہے اور تمام سرکاری محکموں اور دیگر اداروں کو رجسٹرار آف سوسائٹیز کے ذریعے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جو کوئی ان کے ساتھ کسی بھی معاہدے یا اسائنمنٹ میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ پہلے اس سوسائٹی کے اثاثوں اور اس کی کارکردگیوں کی اپنے طور پر جانچ کرلے اور تصدیق کرلے۔ پھر کیسے یہ چوک ہوئی کہ ایک خانگی ادارہ اب تک عوام کو حکومتی ادارے کے طور پر باور کراتا اور اس کا نشان استعمال کرتا رہا؟
این ٹی اے جو مختلف انسٹیٹیوٹس کے لیے امتحانات منعقد کرتا ہے کیا وہ کسی اگریمنٹ میں شامل ہوتے ہیں؟ کس بنیاد پر وہ امتحانات کرواتا ہے اس کی بھی جانچ ہونی چاہیے۔ یو جی سی سے اس کے ہر سال معاہدے ہوتےہیں یا نہیں؟ کیا وہ اپنے اسیٹس کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے؟ بد قسمتی سے پراسرار طور پر وہ اپنی معلومات عوامی ڈومین میں نہیں رکھتا ہے۔ کیا ہر سال وہ اپنے معاہدے کو تجدید کرواتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا معاہدہ ہونے سے پہلے یو جی سی کی قانونی اتھاریٹی کے ذریعے یہ فیصلہ منظور کیا جاتا ہےکے اس کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے یا نہیں؟ یہ تمام معلومات عوامی ڈومین میں آنی چاہئیں۔
یہ باتیں اس لیے پوچھی جارہی ہیں کیوں کہ جےاین یو میں ایڈمیشنس کے معاملے میں جو بے قاعدگیاں ہوئیں ہیں اس وقت جے این یو وی سی یہی جگدیش کمار ہی تھے، جو اس وقت یو جی سی کے چیئرپرسن ہیں، اس وقت بھی جے این یو میں ایڈمیشنس کے لیے اسی این ٹی اے کو استعمال کیا گیا تھا، جے این یو ٹی اے کے موجودہ صدر، موشمی باسو اس معاملے پر 2020 سے آر ٹی آئی ڈالے ہوئے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ این ٹی اے کے لیے یہ اچانک محبت کیسے پیدا ہو گئی ہے؟
آپ اس دوسرے ثبوت میں اس وقت ہونے والی سنگین خلاف ورزیوں کی داستان پڑھ سکتے ہیں، اس ثبوت کو جے این یو ٹی اے نے ایک پریس میں یکم مارچ 2021 کو پیش کیا تھا، یہی موصوف یعنی جگدیش کمار جو اس وقت وی سی تھے انہوں نے ہی جے این یو کو این ٹی اے کے ساتھ معاہدے میں پھنسایا تھا۔ جے این یو اور این ٹی اے کے درمیان کسی بھی قسم کے یادداشت مفاہمت یعنی ایم او یو پر دستخط نہیں ہوئے، اور یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ این ٹی اے نے جے این یو سے امتحان کے انعقاد کے لیے کتنی رقم وصول کی تھی جس کی وجہ سے جے این یو کو آمدنی میں کمی ہوئی اور الٹا نقصان یہ ہوا کہ طلباء کے معیار میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ گویا کہ انہوں نے جے این یو کے وی سی کی حیثیت سے ہر قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی یہاں تک کہ مفادات کے تصادم کے باوجود وہ این ٹی اے کے سرونگ گورننگ باڈی کے ممبر بھی رہے۔ آخر اس عشق کو کیا نام دیں؟
لیکن این ٹی اے نے یقیناً جے این یو سے بہت کچھ حاصل کیا، تجربہ اور وقار کے علاوہ پیسہ خوب ملا، اور خاص بات یہ کہ اس کے چیف پروموٹر جگدیش کمار کو، جیسے ہی انہوں نے جے این یو میں اپنی مدت پوری کی، بھرپور انعام دیا گیا، انہیں یو جی سی کی چیئرپرسن شپ سے نوازا گیا۔ یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے وی سی شپ میں طلباء اور اساتذہ کے خلاف منظم تشدد کیا گیا اور بدترین بد انتظامی دیکھی گئی، شاید اسی کی وجہ سے انہیں بطور انعام یو جی سی کا چیئرمین بنا گیا ہوگا۔
ان کے کارنامے یہاں بھی نہیں رکے، جیسے ہی 4 فروری 2022 کو انہوں نے چیئرمین شپ سنبھالی اس کے دو ماہ کے اندر یعنی 21 مارچ 2022 کو یو جی سی نے نوٹیفکیشن جاری کردیا کہ اب یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے قومی داخلہ امتحان ہوگا، سی یو ایس ٹی یو جی کے نام سے یعنی کامن یونیورسٹی انٹرنس ٹیسٹ یہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے امتحان ہوگا، اس امتحان کو کرنے کا فیصلہ کہاں ہوا؟ کیا یو جی سی کمیشن نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا؟ کیا کسی یو جی سی کی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ اس ٹیسٹ کو این ٹی اے ہی منعقد کرے؟ کیا اس میں غور ہوا کہ کامن ٹسٹ کے لیے نیشنل ایجوکیشنل پالیسی کی تجاویز کو کیسے نافذ کیا جائے؟ کیا این ٹی اے کو اس بارے میں بتایا گیا؟ کیا اس میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ 21 مارچ کو جب کہ یونیورسٹیوں کو خطوط لکھے گئے کہ ایک قومی ٹسٹ ہوگا، کیا اس سے پہلے این ٹی اے کے سرٹیفکیٹ چیک کیے گئے، اور کیا پروٹوکول کی تصدیق کی گئی؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں۔
جب اس بارے میں اپنے طورپر جانچ کی گئی تو حیرانی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ کمیشن کی صرف دو میٹنگیں ہوئیں اس کے منٹس بھی یونیورسٹی کی سائٹ پر دستیاب ہیں، فروری اور مارچ میں یہ میٹنگیں ہوئیں، لیکن ان میں سے کسی بھی میٹنگ میں نہ ہی این ٹی اے کے بارے میں گفتگو ہوئی اور نہ ہی یو جی سی نیٹ کے بارے میں کوئی بحث ہوئی۔ آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید ٹسٹ رکھنے کا فیصلہ پہلے ہی ہوگیا ہوگا اور شاید جگدیش کمار محض اس کو نافذ کر رہے ہوں گے، لیکن معاملہ ایسابھی نہیں ہے، ٹیسٹ کو این ٹی اے کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ ہے ہی نہیں۔ یہ فیصلہ تو خالص جگدیش کمار کا ہی ہے۔ پھر بعد کی میٹنگوں میں بھی این ٹی اے کی کوئی جانچ نہیں ہوئی نہ ہی ماہرین کا انتخاب ہوتا ہے اور نہ ہی مراکز کے انتخاب کے بارے میں کوئی گائیڈ لائنس جاری کیے جاتے ہیں، کسی معاہدے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کارکردگی پر کوئی بحث نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بجائے یو جی سی اپنی 22 ستمبر کی میٹنگ میں این ٹی اے پر گفتگو کو متفرق میں ریکارڈ کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر گفتگو ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، دیگر آئٹم میں رکھا جاتا ہے تاکہ اس پر کھیل کھیلا جاسکے۔
مکمل کمیشن این ٹی اے کو کبھی بطور وینڈر مناسب سمجھا ہی نہیں اور نہ اسے یو جی سی نٹ یا کامن یونیورسٹی انٹرنس ٹسٹس منعقد کرنے کے لیے مناسب سمجھا، اس کی کارکردگی پر بحث ہی نہیں کی گئی۔ وہ میٹنگ بھی جس میں یو جی سی نٹ کو پی ایچ ڈی میں داخلے کا امتحان قرار دیا گیا تھا، وہ فیصلہ بھی کمیشن کے فیصلے کے طور پر درج نہیں ہے، بلکہ محض پہلے سے چلی آنے والی کارروائی کی توثیق کے طور پر لکھا ہوا ہے۔ یہ سارے کھیل جگدیش کمار کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ اگر آپ آخری دو میٹنگوں کی روداد دیکھیں گے کہ 578 ویں میٹنگ میں مکمل کمیشن بیٹھا ہی نہیں اس میں کمیشن کے صرف چار ارکان اور ان کے علاوہ دو خصوصی مدعو ہی شامل تھے۔
این ٹی اے اتنا بڑا سیس پول یعنی گندی نالی نہیں بنتا اگر اس کے پاس یو جی سی کامن انٹرنس ٹسٹس منعقد کرنے کا اختیار نہ ہوتا اور نہ ہی یو جی سی سیپٹک ٹینک بن پاتا، این ٹی اے کو گندی نالی بنانے اور یو جی سی کو سیپٹک ٹینک بنانے میں جگدیش کمار کا بڑا ہاتھ ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب این ٹی اے کی مکمل جانچ کی جائے تب جگدیش کمار کی بھی جامع جانچ ہو اس لیے کہ وہ اس کے پروموٹر ان چیف ہیں، ان کی جانچ کے بغیریہ جانچ مکمل نہیں ہوسکتی۔
***

 

***

 حیرانی کی بات یہ ہے کہ کمیشن کی صرف دو میٹنگیں ہوئیں اس کے منٹس بھی یونیورسٹی کی سائٹ پر دستیاب ہیں، فروری اور مارچ میں یہ میٹنگیں ہوئیں، لیکن ان میں سے کسی بھی میٹنگ میں نہ ہی این ٹی اے کے بارے میں گفتگو ہوئی اور نہ ہی یو جی سی نیٹ کے بارے میں کوئی بحث ہوئی۔ آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید ٹسٹ رکھنے کا فیصلہ پہلے ہی ہوگیا ہوگا اور شاید جگدیش کمار محض اس کو نافذ کر رہے ہوں گے، لیکن معاملہ ایسابھی نہیں ہے، ٹیسٹ کو این ٹی اے کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ ہے ہی نہیں۔ یہ فیصلہ تو خالص جگدیش کمار کا ہی ہے۔ پھر بعد کی میٹنگوں میں بھی این ٹی اے کی کوئی جانچ نہیں ہوئی نہ ہی ماہرین کا انتخاب ہوتا ہے اور نہ ہی مراکز کے انتخاب کے بارے میں کوئی گائیڈ لائنس جاری کیے جاتے ہیں، کسی معاہدے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کارکردگی پر کوئی بحث نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بجائے یو جی سی اپنی 22 ستمبر کی میٹنگ میں این ٹی اے پر گفتگو کو متفرق میں ریکارڈ کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر گفتگو ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، دیگر آئٹم میں رکھا جاتا ہے تاکہ اس پر کھیل کھیلا جاسکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024