
شعراء کا ظلم کے خلاف متحد ہونے کا عہد، مشاعرے میں جذباتی اظہار
ادارۂ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، علی گڑھ میں ’ظلم کے خلاف ضمیر کی آواز‘ کے عنوان پر شعری نشست
علی گڑھ (دعوت نیوز ڈیسک)
موجودہ زمانے میں پوری دنیا ظلم و فساد سے بھر گئی ہے۔ قتل و غارت گری عام ہو گئی ہے۔ طاقت وَر کم زوروں کو دبانے کچلنے اور اپنا غلام بناکر رکھنے کے لیے ہر قسم کے حربے جتن آزما رہے ہیں، خاص طور سے فلسطین کا علاقہ جہنم کدہ بنا ہوا ہے جہاں سب تک تقریباً ایک لاکھ افراد جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، بدترین دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ وطنِ عزیز میں بھی مسلمان اور دیگر اقلیتیں ریاستی سرپرستی میں استحصال، تعصّب، فرقہ واریت اور مظالم کا شکار ہیں۔ امت مسلمہ کی یہ پہچان اور ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور ہر ممکن طریقہ سے ظالم کا ہاتھ روکے۔ مگر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ایک بڑی تعداد ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔
ادارہ ٔتحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ نے پہل کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ظلم کے خلاف جو آواز بھی دور دراز علاقوں سے اٹھ رہی ہے انہیں یکجا کیا جائے اور حساس دل، اہل ادب کو جمع کر کے ظلم کے خلاف اجتماعی آواز اٹھائی جائے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر اس نے ’ظلم کے خلاف ضمیر کی آواز‘ کے عنوان سے ایک بامقصد مشاعرے کا انعقاد کیا۔ نشست کی صدارت سابق نائب شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ پروفیسر تبسم شہاب نے کی۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر معروف اسلامی شاعر جناب سرفراز احمد بزمی شریک ہوئے۔ نشست کی نظامت ڈاکٹر شارق عقیل نے کی۔
پروگرام کا آغاز ادارے کے اسکالر محمد دائم فلاحی کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مولانا اشہد جمال ندوی نے مشاعرہ کی غرض و غایت کو واضح کیا، جس میں ظلم کے خلاف علمی و ادبی مزاحمت کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ جناب سرفراز احمد بزمی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی نے سپاس نامہ پیش کیا۔
نشست میں شریک ہونے والے شعراء نے اپنے اپنے اشعار کے ذریعے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور لوگوں کے ضمیر کو بیدار کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ہر حال میں سینہ سپر ہو کر اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔
شعرائے کرام کی بڑی تعداد نے اپنے کلام سے مجلس میں چار چاند لگا دیے اور بعض نے اپنے کلام کو ترنم میں پیش کیا۔مجلس بار بار سامعین کی پرجوش داد و تحسین سے گونجتی رہی۔ آخر میں مہمان خصوصی اور صدر مجلس نے اپنے کلام سے مجلس میں چار چاند لگائے۔ مجلس کا اختتام صدر ادارہ کے شکریہ کلمات پر ہوا۔
شرکائے مجلس کی متنوع نمائندگی نے اس بات کی گواہی دی کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا کسی خاص طبقے کا نہیں بلکہ ہر باشعور انسان کا فریضہ ہے۔ پروگرام کو ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی کے فیس بُک پیج پر براہِ راست نشر کیا گیا جس سے بڑی تعداد مستفید ہوئی ۔
کچھ اشعار قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
وہ ظلم کا عالم ہے کہ اس دور میں دیکھو
حیوان بھی خموش ہے کہ وہ انسان نہیں ہے
خاموش سہے ظلم، نہ آواز اٹھائے
یہ مرد مسلماں کی تو پہچان نہیں ہے
مطیع اللہ سعید عمری مطیع
خلافِ ظلم صدائے ضمیر بھی سن لو
ضمیر راہ دکھائے گا حق و باطل کی
کرو ہمیشہ ہی مظلوم کی طرف داری
کبھی کرو نہ حمایت جنونِ قاتل کی
ڈاکٹر مجیب شیذر
منظور نہیں آنکھ کو اب ظلم کے منظر
اعلان کرو جنگ کا گھر کاٹ رہے ہیں
یاسر خان قاسم گنجوی
ہماری شاہِ تحمل کو بزدلی نہ کہو
ہمیں نے قیصر و کسریٰ کو روند ڈالا ہے
تم ان کے سامنے پل بھر ٹھہر نہیں سکتے
جن آندھیوں نے ہمیں گودیوں میں پالا ہے
ڈاکٹر اویس جمال شمسی
پہلے جنگیں کرواتے ہیں ہتھیاروں کے سودا گر
کرتے ہیں پھر امن کا جھنڈا امن کے ٹھیکیدار بلند
جناب مجاھد لکھیم پوری
غرور مسند شاہی سے کیوں ڈراتا ہے
مجھے کفروں کی تباہی سے کیوں ڈراتا ہے
چڑھاہوا ہے جو سورج غروب بھی ہوگا
جلال ظل الہٰی سے کیوں ڈراتا ہے
***
جب بھی نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں
ظلم کے آفتاب ڈھلتے ہیں
آندھیو! ہم سے دوستی نہ کرو،
ہم ہوا کے خلاف چلتے ہیں
***
باضمیر قوموں کا آسرا ہے قربانی
جبر کے اندھیروں میں اک دیا ہے قربانی
سال کے مہینوں کا یوں شمار کرتا ہوں
ابتدا شہادت ہے، انتہا ہے قربانی
سرفراز بزمی
یہ کسی ظلم کے مارے کا لہو ہے شاید
ایک قطرہ ہے وہ طوفان ہوا جاتا ہے
یاسر رامپوری
اس مشاعرے میں جناب نبیل (فرزند مولانا اشہد جمال ندوی) کا 1200 انگریزی اشعار پر مشتمل مسودہ منظر عام پر لا یا گیا جو فلسطینی مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کے داستان اور مجاہدین کی استقامت اور ثبات قدمی کی داستان ہے۔جس سامعین نے بہت سراہا اور ظلم وجبر کے خلاف مضبوط احتجاج قرار دیا ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025