
عتیق احمد شفیق اصلاحی
موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ موسمیاتی اور ماحولیاتی آب و ہوا کی تبدیلی (Climate Change) کا ہے۔ اس کو عالمی حرارت، جدت، تپش و تمازت (Global Warming) کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر آب و ہوا پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی حرارت کے اضافہ کی وجہ درختوں اور جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی ہے۔ ایسے کارخانوں کا اضافہ جو دھواں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (CO2) چھوڑتے ہیں، سمندروں کی تہوں میں کھدائی، گاڑیوں اور ٹرانسپورٹ میں زیادتی اور ایسی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے جو فضلہ و گندگی زیادہ خارج کرتی ہیں۔ ان تمام اشیاء کے اثرات کی وجہ سے عالمی سطح پر موسمیات میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ جو علاقے بارش والے ہیں وہاں کم بارش، خشک سالی، قحط آنے اور خشک و ریگستانی علاقوں میں بارشیں ہونے اور سیلاب آنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں، بلکہ عملاً ایسا ہو رہا ہے۔ ماحولیات میں مسلسل گرمی کا اضافہ ہو رہا ہے۔
اسلام اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دین ہے، یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ اس کی تعلیمات فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں۔ اس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اسلام نے جو ہدایات و احکامات دیے ہیں وہ انسانیت کے لیے نفع بخش و رحمت ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہیں۔
اسلام نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی بہت واضح ہدایات دی ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں سے ایک شجر کاری ہے۔ اسی میں انسانیت کی فلاح و بہبود ہے اور اسی سے زمین کی رونق و حسن و جمال ہے۔ اسلام نے شجر کاری کی اہمیت و ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد سائنسی ایجادات نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ شجر کاری کی اہمیت و ضرورت کل بھی مسلمہ تھی اور آج بھی ہے، بلکہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگیوں سے اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ شجر کاری بظاہر ایک معمولی عمل ہے مگر اپنے اثرات و نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا عمل ہے۔ تمام جانداروں کی زندگی کی بقاء، دار و مدار خوشگوار ماحول، صاف ستھری فضا، صحت بخش آب و ہوا کی متوازن حد تک موجودگی پر منحصر ہے۔ ضروری تعداد میں صحت بخش فضا کے لیے پیڑ پودے ناگزیر ہیں۔
شجر کے معنی درخت کے ہیں۔ ’’شجر‘‘ عربی لفظ ہے۔ یہ لفظ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ کئی معنوں میں آیا ہے مگر زیادہ تر مقامات پر درخت کے معنی میں آیا ہے۔ کاری کے معنی لگانا، یعنی درخت لگانا۔ قرآن مجید میں درختوں کا ذکر کئی پہلوؤں سے کیا گیا ہے۔ قرآن میں شجر (شجر/شجرہ، اشجار) کا لفظ مختلف صیغوں میں تقریباً 26بار آیا ہے۔ جنت کا لفظ، جس کے معنی باغ کے ہیں، قرآن مجید میں 66 مرتبہ مختلف صورتوں میں آیا ہے۔ اگر تمام الفاظ کو جوڑ دیا جائے تو جنت کا لفظ 147 بار آیا ہے۔ دنیوی باغات کے لیے پانچ بار آیا ہے، باقی آخرت کے لیے ہے۔ میوے جو درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، 11 بار ان کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے۔ ’’ثمر‘‘، ’’پھل‘‘،’’ثمرات‘‘ قرآن مجید میں سات بار آیا ہے۔ ان الفاظ کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درختوں کی کتنی اہمیت ہے۔
حضرت موسیٰؑ کو جب وحی سے نوازا گیا تو وہ ایک درخت کے پاس ہی نوازا گیا۔ حضرت یونسؑ کا سائبان ایک درخت ہی بنا۔ نبیؐ جس درخت کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، وہ کھجور کا درخت تھا۔ نبیؐ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعتِ رضوان کی تو وہ بھی درخت کے پاس کی گئی، اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے۔
نبی اکرمؐ کی تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے شجر کاری پر بہت زور دیا ہے۔ آپؐ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں کھجوروں کے باغات لگانے کی ترغیب دی۔ خالی پڑی ہوئی زمین کو آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کی وجہ سے مدینہ میں شجر کاری، باغبانی، زراعت و کھیتی باڑی کو خوب ترقی ملی۔
’’کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرندہ یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘ (ترمذی)
’’کوئی بھی مسلمان جو درخت لگاتا ہے، اس میں سے جو کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور اس میں سے جو چوری کیا جائے وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی اس میں کمی نہیں کرتا مگر وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
درخت لگانے کو اللہ کے رسول نے صدقہ و نیکی قرار دیا ہے۔ درخت کے پھل میں سے کوئی انسان یا پرندہ کچھ کھائے تو یہ بھی درخت لگانے والے کے لیے صدقہ و نیکی لکھی جائے گی۔ یہ تصور و نقطہ نظر انسان کے اندر شجر کاری کی رغبت و شوق پیدا کرنے کا سامان رکھتا ہے۔
ایک اور حدیث جس میں اللہ کے رسول نے شجر کاری پر ابھارتے ہوئے فرمایا کہ اگر قیامت آ جائے اور اس کی علامات و نشانیاں نظر آ جائیں تب بھی پودا لگا دیا جائے۔ آپؐ نے اس طرح اپنے فرمان سے شجر کاری کے جذبہ کو ابھارا ہے۔ انسان ایسے کام کرے جس سے دوسروں کو نفع پہنچ سکے۔ درخت لگانا ایسا ہی عمل ہے جس سے نسلیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔
حدیث کے الفاظ ہیں: (مسند احمد)
’’اگر قیامت بالکل قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہو تو اسے لگا دینا چاہیے۔‘‘
’’اگر تم سنو کہ دجال آ گیا ہے اور تم زمین میں کچھ لگا رہے ہو تو جلدی نہ کرو، بلکہ اسے اچھی طرح لگا دو کیونکہ لوگ اس کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔‘‘
یہ حدیثیں ہمیں مایوسی سے بچا کر خیر کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں نیکی کرتے رہنا چاہیے، چاہے قیامت کو آتا ہوا دیکھ لے اس وقت بھی خیر کا بیج بو دینا مستحسن و پسندیدہ عمل ہے۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ قیامت کے دن کامیاب ہو جائے، اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور بہت سے نیکی کے کام کرتا ہے۔ نیکی دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک نیکی وہ ہے جس کا اجر کرنے والے کو فوراً ملتا ہے، جیسے کسی نے نفل نماز پڑھی یا کسی کی مالی مدد کی۔ لیکن نیکی کی ایک اور قسم ہے، وہ جو مرنے کے بعد بھی انسان کو فائدہ دیتی ہے۔ ایسی نیکیوں کو صدقہ جاریہ کہتے ہیں، جس کی بہت فضیلت آئی ہے۔ پیڑ پودے لگانا اسی طرح کی نیکیوں میں سے ہے۔ یعنی درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ آدمی کے مرنے کے بعد جب تک دوسرے انسان فائدہ اٹھاتے رہیں گے، اس کو ثواب ملتا رہے گا۔
جو کوئی پودا لگائے اور کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے، اسے صدقہ جاریہ کا ثواب اس وقت تک ملتا رہے گا جب تک خلقِ خدا کو اس سے فائدہ ہوتا رہے گا۔
’’جو بھی مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اس میں سے کوئی انسان، چوپایہ اور پرندہ نہیں کھاتا مگر اس کے لیے قیامت کے دن تک صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم)
’’مومن کے ان اعمال میں سے جو اس کی وفات کے بعد بھی اس کو فائدہ پہنچاتے ہیں، یہ ہیں: وہ علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اولاد جو اس نے چھوڑی، قرآن کا نسخہ جو اس نے چھوڑا، مسجد جو اس نے بنائی، مسافر کے لیے گھر جو اس نے تعمیر کیا، نہر جو اس نے جاری کی یا درخت جو اس نے لگایا یا صدقہ جو اس نے اپنی زندگی اور صحت میں دیا۔ یہ سب اس کو مرنے کے بعد بھی پہنچتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
ان احادیث سے درج ذیل رہنمائی ملتی ہے:
پیڑ پودے لگانا ایک غیر ضروری عمل نہیں ہے بلکہ ایک اہم اور نیکی کا کام ہے۔
ان احادیث سے پیڑ پودے لگانے کی تعلیم و ترغیب ملتی ہے۔
پیڑ پودے لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ شجر کاری کا ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہے گا۔ خواہ وقت کتنا ہی کم ہو، پیڑ لگا دینا چاہیے۔ قیامت آنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس مہلتِ عمل کم رہ گئی ہے، تب بھی مایوس نہ ہو۔
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اب میں تو اس درخت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو کیوں لگاؤں؟ یہ غلط سوچ ہے۔ عمر ختم ہونے سے قبل ہمیں عمل صالحہ کر لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شجر کاری ایسا عمل ہے جس میں دنیاوی و دینی دونوں طرح کا نفع ہے۔ پودا لگانے والے کی محنت ضائع نہیں جاتی۔ خواہ ذاتی طور پر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، تب بھی اس کو اجر ملے گا۔ پیڑوں سے فضا خوشگوار ہوتی ہے، انسانوں کی صحت کے لیے ناگزیر ہیں۔ پیڑ پودے خدمت خلق کی ایک شکل ہیں جس سے انسانوں کی نسلوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس لیے پودے لگانے کا اہتمام کریں۔ صاف ہوا انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اور یہ درختوں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس نیت سے پودے لگائے جائیں کہ لوگوں کو صاف ستھری ہوا مل سکے، تو یہ کارِ ثواب ہے۔
درخت انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ بعض درختوں کے قریب بیٹھنے سے ہی بعض امراض کا علاج ہو جاتا ہے۔ بعض درختوں سے دوا بنتی ہے۔ گویا بیماروں کی صحت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بیماروں کی عیادت اور ان کی خدمت کارِ عبادت ہے۔ پودے لگا کر انسان اس سلسلے میں ایسا قدم اٹھاتا ہے جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ شجر کاری ہر لحاظ سے مفید تر عمل ہے۔ لہٰذا ہر فرد کو انفرادی طور پر اور سماج، انجمنوں کو اجتماعی طور پر اس پر توجہ دینی چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025