شجاعت کے پیکر – ام بکر اور ابو عمر

طوفان الاقصیٰ میں شہید ہونے والے بہادر ماں بیٹے کی بصیرت افروز داستان

0

(ڈاکٹر اسامہ جمعہ اشقر کی کتاب’ ارواح الطوفان ‘ ایک ایسی تصنیف ہے جس میں مصنف نے طوفان اقصیٰ میں شہید ہونے والے حماس اور دیگر تنظیموں کے قائدین کے بجائے ان شہداء کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے مختلف کارناموں کی وجہ سے اس جنگ میں مشہور ہوئے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اسی کتاب سے ماخوذ ایک واقعہ قارئین کی نذر ہے )
مقادمہ خاندان کا تعلق مقبوضہ فلسطین کے ’ بیت دراس‘ نامی قصبے سے ہے ۔ یہ قصبہ سخاوت ، بہادری ، جنگ اور عظیم شخصیات کے لیے مشہور و معروف ہے ۔اور اسی سے تعلق رکھنے والی یسریٰ عبدالعزیز مقادمہ اور ان کے بیٹے اکٹر ابو عمر احمدسعید مقادمہ ہیں ۔ ڈاکٹر احمد پلاسٹک سرجن تھے اور شفا ہاسپٹل کے burns department میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے انگلینڈ کے رائل کالج آف سرجن سے Humanitarian Innovation Fellowship حاصل کی تھی ۔ ڈاکٹر احمد زخمیوں اور بیماروں کے علاج کو جہاد سمجھ کر پورے ذوق و شوق اور ہمت و حوصلے کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ وہ پہلے بھی ” واپسی کی تحریک” میں طبی گروپ کے ساتھ کام کر چکے تھے ۔ یہ تحریک غزہ پٹی اور مقبوضہ فلسطین کے طویل حدود پر (19-2018) میں مسلسل دو سال تک چلی تھی ۔ اسی طرح 2021 کی اسرائیل غزہ جنگ ( سیف القدس) میں بھی ہاسپٹل میں کام کیا تھا ۔ وہ آرام کیے بغیر مسکراتے چہرے ، شفقت و محبت اور نرمی و لطافت کے ساتھ مسلسل اپنے کام میں لگے رہتے جس سے دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ۔
طوفان اقصیٰ کے آغاز ہی سے ڈاکٹر احمد میڈیکل ٹیم میں شامل تھے اور مسلسل کبھی شفاء ہاسپٹل ، کبھی قدس ہاسپٹل اور پھر کبھی اہلی ہاسپٹل آتے جاتے رہتے تھے ۔ انہوں نے اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کو جنوبی غزہ میں چھوڑ رکھا تھا ، تاکہ جنگی علاقے سے دور رہیں کیونکہ جنگ کا آغاز شمالی اور وسطی غزہ سےہی ہوا تھا۔ اپنی بیوی اور بچے کو جنگ کے آغاز کے وقت سے مسلسل چھ مہینے سے زیادہ تک انہوں نےنہیں دیکھا تھا ۔
باوجود اس کے کہ شدید ترین فوجی دباؤ تھا ، لاکھوں لوگ شمالی غزہ سے ہجرت کر چکے تھے ، ان کے گھر کو بھی بمباری کرکے ڈھا دیا گیا تھا ، اس فلیٹ پر بھی بمباری کر دی گئی تھی جو انہوں نے کرائے پر لیا تھا اور مسلسل کام ، محاصرے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے ان کے جسم کا وزن کافی کم ہو گیا تھا ، لیکن پھر بھی وہ شمالی غزہ میں ہی رہے اور وہاں سے نہ نکلے ۔ 10 اکتوبر 2023 کو انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا : ” خوش حالی اور مصائب دونوں حالتوں میں تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، قابض اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس نے ہمارے پڑوسی کے گھر پر بمباری کی دھمکی دی اور پھر میرے گھر پر بمباری کر دی ، جہاں میں رہتا تھا”۔
ڈاکٹر احمد اپنے طبی کاموں میں کافی سنجیدہ تھے ، سرجری کے عمل کی توثیق کے لیے اکثر اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھیجتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے ، کیونکہ تاکہ ان کے نالج اور مہارت میں اضافہ ہو۔ شفاء ہاسپٹل پر دھاوا بولنے کے بعد قابض اسرائیلی فوج نے ” انصار” نامی علاقے پر حملہ کر دیا ، جہاں ڈاکٹر احمد اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے ۔
وہ اپنی والدہ کے ساتھ ایک طویل مدت تک اسرائیلی حملے میں پھنسے رہے ، ایک بار وہ دونوں موت کے منہ سے بچ گئے تھے لیکن پھر موت کے منہ میں آگئے ، مگر ثابت قدم رہے ، یہاں تک اللہ تعالیٰ سے اس حال میں جا ملے کہ وہ دونوں روزے سے تھے ، مہاجر تھے ، ثابت قدم تھے ۔ بھوک نے انہیں نڈھال کر دیا تھا ، قتل و غارت گری ، بے جا گرفتاریاں اور ذلت آمیز ہجرت نے ان کی تکالیف میں مزید اِضافہ کر دیا تھا ۔
ڈاکٹر احمد اور ان کی والدہ کی دو ہفتے تک کوئی خبر ملی اور نہ انہیں کسی نے دیکھا ۔ شفاء ہاسپٹل پر اسرائیلی حملے اور قتل و غارت گری کے بعد وہاں کے سیکڑوں لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ، ڈاکٹر احمد اور ان کی والدہ بھی انہیں لوگوں میں تھے ۔ لیکن دھوکے باز فوج نے راستے میں ہی انہیں ایک ایک کرکے گولیوں کا نشانہ بنا کر ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کی لایشوں کو غزہ شہر کے ” مول کیرفور” کے پاس چھوڑ دیا ۔
زخم سے چور ڈاکٹر احمد کی بیوی ڈاکٹر اسراء محمد نے اپنے شوہر اور ان کے ساتھ موجود لوگوں کے محاصرے کے دوران درد بھرے انداز میں ایک پوسٹ لکھا : ” ان کے شوہر شفاء ہاسپٹل میں Burns Department میں ڈاکٹر ہیں ۔ مسلسل کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے مجھ سے اور اپنے بیٹے عمر سے 38 دنوں سے نہیں ملے ۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد سے اکثر اس سے دور ہی رہے ہیں ۔ جبکہ اس کی عمر چند مہینے سے زیادہ نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ چند دنوں سے ہاسپٹل سخت محاصرے میں ہے اور مریض قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے ، ہاسپٹل میں پناہ لینے والے لوگ اور میڈیکل اسٹاف سب محاصرے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہاسپٹل کے اندرونی عمارتوں اور ڈپارٹمنٹ میں بھی نقل و حرکت نہیں کر پا رہے ہیں ، کیونکہ بغیر کسی تمیز کے اسرائیلی فوج ہر اس شخص پر گولی چلا رہی ہے جو نقل و حرکت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
مزید یہ بھی لکھا کہ محصورین کے پاس نہ تو کھانے کی اشیاء ہیں اور نہ ایندھن کہ ہاسپٹل کے کام کو جاری رکھ سکیں اور تمام طبی ضروریات کی چیزیں ختم ہو چکی ہیں ۔ ان کی یہ پکار تکلیف دہ مایوسی کی ساتھ ختم ہو گئی ، کیونکہ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ اس پکار پر عالمی ضمیر بیدار ہو جائے یا عرب بھائی حرکت میں آجائیں ، یا انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صلیب احمر محاصرین کے لیے پر امن گزر گاہ کھلوانے میں جلدی کرنے لگیں ۔ انہوں نے یہ پکار صرف اس لیے لگائی تھی تاکہ لوگ انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ان پر رحم کر سکے ۔
اس کے بعد پھر کئی مرتبہ انہوں نے پوسٹ کیا اور لکھا کہ ان کے شوہر اور ان کی والدہ ڈاکٹر یسریٰ سے اب رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے ، کیونکہ انہیں اسرائیلی فوج نے شفاء ہاسپٹل سے گرفتار کر لیا تھا اور جبراً غزہ شہر کے انصار نامی علاقے سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ مزید لکھا کہ آخری رابطہ 22 مارچ 2024 کو ” مول کیرفور” نامی علاقے میں بعض لوگوں کے توسط سے ہوا تھا ۔ ان کے متعلق جو بھی معلومات تھیں ، وہ لگاتار انہیں پوسٹ کرتی رہیں ۔ ڈاکٹر احمد کے دوست اور ان کی والدہ کے جاننے والے لوگ بھی مسلسل ان کی پوسٹ کو عربی اور انگریزی میں شیئر کرتے رہے تاکہ ان کے متعلق کچھ بھی معلوم ہو سکے کیونکہ ڈاکٹر یسریٰ بین الاقوامی ادارے میں ملازم تھیں اور ان کے بیٹے احمد ڈاکٹروں کی ٹیم میں شامل تھے اور ایسے لوگوں کو عالمی برادری میں خاص احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر یسریٰ مقادمہ اقوام متحدہ کے ادارے (UNRWA)
United Nations Relief and Works Agency fo Palestine Refugees in the Near East
کے اسکول میں ریاضی کی ایک کامیاب استاد تھیں ۔ ان کی وین اکثر ایک اسکول سے دوسرے اسکول آتی جاتی رہتی تھی لیکن یہ اسکول اب تعلیم گاہ سے پناہ گاہ ہو گئے تھے اور پھر اس پر بھی حملے کے بعد قبرستان ہو گئے تھے ۔ اس کے متعلق نالج اور مہارت ہونے کی وجہ سے وہ پناہ گاہوں میں کام کر رہی تھیں اور ہزاروں پناہ لینے والے مظلوم خاندانوں کی دیکھ بھال ، رہنمائی ، قیادت اور تربیت کر رہی تھیں ، ان پناہ گزینوں کی اکثریت بچوں اور عورتوں پر مشتمل تھی جنہیں بہت زیادہ مادی اور نفسیاتی مدد کی ضرورت تھی ۔ وہ شمالی غزہ کے محاصرے کے دوران اکثر روزے سے رہتی تھیں ۔
ڈاکٹر یسریٰ پناہ گزینوں کی خدمت چھوڑ کر جانے سے انکار کرتی تھیں ، جب تک انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا گیا وہ ان کی خدمت کرتی رہیں ۔ جب کوئی مشورہ دیتا کہ آپ ہجرت کر جائیں تو وہ انکار کر دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ہر کوئی چلا جائے لیکن میں اپنے گھر کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتی ۔
وہ اس عمل کو جہاد سمجھتی تھیں اور اکثر یہ جملہ دہراتی رہتی تھیں "یہ ایک جہاد ہے یا تو فتح ہوگی یا شہادت” ۔ وہ اپنے دل میں رباط کی نیت کر کے راتیں گزارتی تھیں ۔ وہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں شہید ہوئیں اور جب ان کی لاش ملی تو قرآن مجید کو اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئی تھیں ۔
وہ یتیموں سے محبت کرتی تھیں ، پناہ گزیں کیمپ میں ان کا خوب خیال رکھتی تھیں اور خود کو ان کی ماں سمجھتی تھیں ۔ ان سے محبت کرنے اور ان کا خیال رکھنے کی خاطر ان سے ملنے کو پسند کرتی تھیں۔ ان کے فیس بک پیج پر آخری پوسٹ ایسا تھا جو فخر و بہادری کے ساتھ ساتھ احساس و شعور میں ذلت ورسوائی کا احساس دلاتا ہے:
” اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر لمحے ہماری یہی حالت ہے ، عربی اور اسلامی ممالک کے ایندھن امریکی اور صہیونی تباہی کو نہیں روک سکتے”
نہ اخلاقیات ہیں اور نہ قدریں۔۔ معمدانی ہاسپٹل کے قتل عام میں آٹھ سو سے زیادہ لوگ شہید ہوئے جن میں اکثر عورتیں اور بچے تھے "۔
” عام طور پر عالمی امدادی تنظیمیں جنگ زدہ علاقے میں آتی ہیں، سواے غزہ کے ۔ یہاں غزہ سے نکل کر رفح کی طرف مصری بارڈر پر جا رہی ہیں "۔
"اے اللہ مجاہدین کو ثابت قدم رکھ ، ان کی مدد فرما ، ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما اور انہیں فتح نصیب فرما”۔
” درحقیقت آپ لوگ اپنے وعدے میں سچے اور امانت کی حفاظت میں انتہائی وفادار ہیں ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، ہم مسلسل گہرائیوں میں مقابلہ کر رہے ہیں ” ۔
ڈاکٹر یسریٰ ، ان کے بیٹے ڈاکٹر احمد اور دوسرے لوگوں کو اسرائیلی فوج نے دھوکہ دے کر گولی مار دی اور قتل کر دیا جبکہ انہیں کسی دوسرے علاقے میں منتقل کیا جا رہا تھا ، ان کی لاشیں بہت تلاش کرنے کے بعد دو ہفتے بعد غزہ شہر کے مول کیرفور علاقے سے ملیں۔
عربی سے ترجمہ : محمد اکمل علیگ

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024