شاہین باغ: خواتین مظاہرین نے کیا سڑک خالی کرنے سے انکار، کہا کہ آئین کا تحفظ تمام دوسری چیزوں سے اہم
نئی دہلی، جنوری 15— دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے نوئیڈا اور دہلی کے درمیان آسانی سے ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لے شاہین باغ-کالندی کنج روڈ کھلوانے کی ہدایت کے بعد شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک سڑک کو خالی نہیں کریں گی جب تک حکومت شہریت ترمیمی قانون سے متعلق ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی۔ شاہین باغ کے مظاہرین نے بین الاقوامی شہ سرخیوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے جن میں تقریبا ہر بین الاقوامی میڈیا پرنٹ، الیکٹرانک، ریڈیو اور ٹی وی چینلز نے اس کو وسیع کوریج دیا ہے۔
شاہین باغ سے تعلق رکھنے والی خواتین جنھوں نے ان کے مطابق "کالا قانون” کو منسوخ کرنے کے مطالبے پر حکام کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے 15 دسمبر سے سڑک پر دھرنا کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے اس اقدام سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے جس کا استعمال کرنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے لیکن "ہم یہ کام اس آئین کے تحفظ کے لیے کررہے ہیں جسے مرکز میں موجودہ حکومت قتل کررہی ہے”۔
شاہین باغ۔کالندی کنج روڈ کے مسافروں کے استعمال کے لیے ہمیشہ سڑک کا متبادل موجود ہے لیکن ہندوستان جیسے اتنے بڑے ملک کو چلانے کے لیے آئین کا کوئی متبادل نہیں ہے جس میں مختلف مذہب، ثقافت، زبان اور 130 کروڑ سے زیادہ آبادی والے متنوع ہندوستانی ہیں۔ خواتین مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئین جاتا ہے تو سب کچھ جاتا ہے کیونکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا اور اس وقت کے حکمران خود مختار ہوجائیں گے اور اپنی خواہشات اور مذہب سے ملک پر حکمرانی کریں گے کیونکہ وہ آئین کے وجود کے باوجود اب بھی ایسی کوشش کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ اگر حکمران جماعت کی خواہش کے مطابق قانون اور آئین میں ترمیم کی جائے گی تو عام عوام کا کیا ہو گا؟ اس کا تصور بھی خوفناک ہے۔
مظاہرین میں سے ایک ڈاکٹر فاطمہ تنویر جو شاہین باغ سے متصل ابوالفضل انکلیو کی رہائشی ہیں اور رات کے وقت احتجاجی مقام پر دھرنے پر بیٹھنے کے لیے اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکالتی ہیں، انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آدھا درجن خواتین کے اصرار پر تین طلاق بل کو پاس کر دیا اور یہ کہا کہ میں نے "میری مسلمان بہنوں” کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسا کیا ہے۔ لیکن اب وہ اور ان کی جماعت خاموش کیوں ہے جب لاکھوں خواتین جن میں اکثریت مسلم خواتین، شاہین باغ اور قومی دارالحکومت میں دیگر مقامات سمیت، سی اے اے کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہی ہے؟ اس معاملے پر وزیر اعظم کی خاموشی نہ صرف مسلمانوں اور ان کی خواتین کے حوالے سے ان کے دوہرے معیار کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس سے مودی اور ان کی پارٹی کا مسلمانوں کے خلاف ایک مذموم منصوبہ بھی ظاہر ہوتا ہے”۔
انھوں نے کہا کہ "جب تک مودی سرکار کے ذریعہ CAA واپس نہیں لیا جاتا ہے، خواتین اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے اپنی قربانی دیتی رہیں گی۔”
شاہین باغ کی رہائشی 82 سالہ بلقیس، جو سی اے اے کے خلاف گذشتہ 32 دن سے احتجاج پر بیٹھی ہیں، نے کہا "ہم ملک کے آئین کے تحفظ کے لیے پرامن ’ستیہ گرہ‘ پر بیٹھے ہیں۔ ہم ہر ایک ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، پارسی، جین اور بدھ مذہب کے لیے لڑ رہے ہیں کیونکہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ مسلمانوں کے بعد اگلا نشانہ کون ہوگا۔
انھوں نے کہا "اگر میں آج اس کے لیے جنگ نہیں لڑتی تو ہماری اگلی نسل ہم پر لعنت بھیجے گی کہ ہم نے اس خوفناک قانون کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا”۔ بلقیس، جو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والی کئی بوڑھی خواتین میں شامل ہیں، نے کہا "یہ کیسی حکومت ہے جو ہماری شہریت چھین رہی ہے؟”
کورٹ کے راستہ خالی کرنے کی ہدایت پر انھوں نے کہا "عدالت کو سرکار سے بھی یہ کہنا چاہیےکہ کالا قانون واپس لو۔ عوام کو سرکار کیوں پریشان کر رہی ہے؟‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ مجھے اس سخت سردی میں راستے پر بیٹھنے کا شوق نہیں ہے۔ میں تو جبھی اٹھوں گی جب یہ کالا قانون واپس ہو جائے گا۔
اس دوران شاہین باغ احتجاج آج 32ویں دن بھی جاری ہے۔