شام کی اخوان المسلمون خود کو کب تحلیل کرے گی؟

ترکی، تیونس، اردن اور سوڈان کی مثالیں موجود، جب اخوان نے خود کو بدلا تھا۔۔۔

تحریر : احمد موفق زیدان (مشیر اطلاعات برائے شامی صدر)

کیا اخوان المسلمون کی برقراری نئی شامی ریاست کی تعمیرِ نو میں کسی رکاوٹ کا پیش خیمہ ہے؟
میں بچپن سے ہی اخوان المسلمون کے افکار و خیالات کے ساتھ پلا بڑھا۔ مجھے وہ ایام اچھی طرح یاد ہیں جو ان کے ساتھ جدوجہد، محنت اور ہجرت میں گزارے۔ حافظ الاسد کی حکومت نے میرا پیچھا کیا، یہاں تک کہ مجھے ملک چھوڑنا پڑا لیکن میں نے جدوجہد جاری رکھی۔ آخر کار اللہ نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو 8 دسمبر 2024 کو اسد خاندان کو ختم کرنے میں کامیاب کر دیا جس سے دنیا ان کی شرور و فتن سے محفوظ ہو گئی۔
انہوں نے شامی قوم پر بے شمار مظالم ڈھائے۔ ملک کو صیدنايا اور تدمر جیسی جیلوں میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں کو قتل کیا اور بے گھر کیا، یہ سب کچھ ساٹھ کی دہائی سے ہوتا آ رہا تھا، یہاں تک کہ 2011کی تحریک آزادی برائے عدل و انصاف اور عزت کے وقت ان کا ظلم اور بھی زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اس تباہ حال نظام نے دنیا کے دوسرے ملکوں کو مہاجرین کی بڑی بڑی لہروں میں ڈبو دیا اور کبتاغون (نشہ آور گولیوں) کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ ساتھ ہی اس نے فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کو بلایا تاکہ وہ شامی عوام کا قتل عام کریں اور قریب و دور کے ملکوں کو بھی ڈرائیں۔
میں آج یہ اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں شامی صدر کا مشیر بن گیا ہوں بلکہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میری ایک پختہ رائے بن گئی ہے جو میں نے مطالعے، بحث و مباحثے اور سیاسی تجربات و مثالوں کا جائزہ لینے کے بعد اختیار کی ہے۔ میری نظر میں جس طرح زبان ایک زندہ وجود ہے اسی طرح خیالات، نظریے اور تنظیمیں بھی زندہ وجود رکھتی ہیں، کیونکہ ان کا تعلق براہ راست انسان کی خدمت اور اس کی سوچ اور نظریات پر اثر انداز ہونے سے ہے۔
اسی لیے زمانے کے ساتھ چلنا، اس کی تبدیلیوں اور نئی پیش رفتوں کو سمجھنا ایک سیاست داں کے لیے جو سماج میں کام کرتا ہے، بہت اہم ہے۔ ورنہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ دسترخوان سے باہر ہاتھ ڈالتا ہے اور قافلے سے الگ ہو کر اکیلا رہ جاتا ہے۔
جیسے ہی یہ فتح حاصل ہوئی (ایسی فتح جو شاید شام کی تاریخ میں پہلے کبھی نصیب نہ ہوئیہو) تمام شامی ادارے، چاہے وہ اپوزیشن گروپ شامی قومی اتحاد ہو یا شامی اسلامی کونسل یا فوجی و سیاسی گروہ اور مقامی کونسلیں، سب نے فوری طور پر اپنے آپ کو تحلیل کر کے اپنے وسائل اور اختیارات نئی شامی قیادت کے اختیار میں دے دیے۔
اس طرح سب ایک ہی دھن اور ایک ہی آواز میں نعرے لگانے لگے، وہ یہ کہ اس نومولود ریاست کی بھرپور حمایت کی جائے تاکہ شام کو حقیقی، مکمل اور پائیدار استحکام کی طرف لے جایا جا سکے، خاص طور پر اس لیے کہ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے دشمن اور رکاوٹیں ڈالنے والے بہت زیادہ ہیں۔
میں اپنی زندگی کے ایک دور میں اخوان المسلمون سے وابستہ تھا لیکن میں ہمیشہ اپنے ماضی اور فکری دیانت کا وفادار رہا اور استاد عصام عطارؒ کی جماعت سے جڑا رہا۔ اور آج بھی اخوان المسلمون اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو تھامے ہوئے ہے اور اسے جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
میری عاجزانہ رائے اپنے تنظیمی بھائیوں اور دوستوں کا احترام کرتے ہوئے یہ ہے کہ آج اگر یہ تنظیم بھی تحلیل کر دی جائے جیسا کہ باقی اداروں نے کیا تو یہ ملک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ کیونکہ یہی ملک ہم سب کا اصل سرمایہ اور ہم سب کا مقصد ہے۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ اخوان المسلمون کا سب سے چھوٹا فرد بھی شاید ساٹھ کی دہائی کی عمر میں ہے سوائے ان کی اولاد کے۔ آج جو عمر کا یہ خلا انہیں در پیش ہے وہ یقیناً اس وجہ سے ہے کہ انہیں شام میں اس پورے عرصے کے دوران سیاسی کام کرنے سے محروم رکھا گیا کیونکہ ان پر جبری جلا وطنی اور پابندی مسلط کی گئی تھی۔
وہ جماعت کو تحلیل نہ کرنے کے فیصلے پر اصرار کر رہے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو ریاست کی تعمیر میں شریک ہونے سے محروم کر رہے ہیں۔ قریب اور دور کے تمام حلقے ان سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں محتاط یا بدگمان ہیں، چہ جائیکہ ان کے قریب آئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نئی شامی ریاست ان کی مہارتوں اور تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہے۔
اخوان المسلمون کا طویل عرصے تک شام سے غیر حاضر رہنا (جو تقریباً آدھی صدی پر محیط ہے) تنظیم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ نقصان اس پہلو سے نہیں تھا کہ تنظیمی کام کو بڑھایا اور پھیلایا نہیں گیا بلکہ اس لیے کہ ان کی غیر حاضری نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا، خاص طور پر اس وقت جب بعث پارٹی کا وائرس شامی طبقات میں پھیل رہا تھا اور اخوان کو شیطانی رنگ میں پیش کر رہا تھا۔ اسی پروپیگنڈے کے تحت اس نے اخوان کو ’’اخوانجی‘‘ کا نام دیا تاکہ اخوان اور ان کے حامیوں کے بارے میں ہر منفی چیز پھیلائی جا سکے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اخوان اپنے افکار پیش نہ کر سکے اور صرف نظام کےخیالات ہی لوگوں کے سامنے رہے۔
اخوان کا اصرار کہ وہ الگ تھلگ رہیں اور قافلے سے باہر اپنی ہی دھن گاتے رہیں، ساتھ ہی کبھی ادھر کبھی ادھر کی باتیں کرنا جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے اور حکومت کے حامی عوام کے درمیان فاصلے اور خلیج کو مزید بڑھا رہا ہے۔ حالانکہ یہی حکومت ہے جس نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے، ساٹھ سال پرانے اس ٹولے کو اکھاڑ پھینکا ہے جو علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے قائم تھا۔
اس سے پہلے بھی شام میں اخوان المسلمون کی جماعت نے اپنے آپ کو تحلیل کر دیا تھا جب مصری صدر جمال عبدالناصر نے شام کے ساتھ اتحاد کے لیے چند شرائط رکھیں، جن میں ایک شرط سیاسی جماعتوں کا خاتمہ بھی تھی۔ شامی اخوان نے اس شرط کو اتحاد کی محبت اور اس کی آرزو میں قبول کر لیا تھا۔ حالانکہ اسی وقت عبدالناصر مصر کے اخوان کو کچل رہا تھا اور اپنے پھانسی گھاٹوں پر اس عالمی تنظیم کے بانیوں کو لٹکا رہا تھا جو اخوان کی شامی شاخ کی قیادت کر رہی تھی۔
جب میں نے شامی اخوان کے سابق مرشد عام، استاذ عصام عطارؒ سے اس دور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے کہا "ہم نے اتحاد کی پکار پر لبیک کہا جو اخوان اور عوام کی امید تھی۔ ہم نے اپنے مصری بھائیوں کی سزائے موت کے زخموں سے بھی بلند ہو کر صرف اتحاد کی خاطر یہ فیصلہ کیا تھا”
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ تاریخی مرحلہ زیادہ اہم تھا یا آج کا یہ دور جس سے شام گزر رہا ہے؟ کیا عبدالناصر کی پکار زیادہ لائق جواب، اطاعت اور لبیک کہنے کے قابل تھی یا پھر شامی صدر احمد الشرع کی پکار زیادہ اہم ہے؟ وہ صدر جس نے اپنی حکومت کو ایک ملین شہداء اور ایک کروڑ 40 لاکھ بے گھر افراد کی قربانیوں کی قیمت پر قائم کیا ہے اور جو اندرونی، علاقائی اور عالمی سطح پر غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے؟ اور یہ بھی کہ حکومت کو مضبوط کرنے کا زیادہ حق دار کون ہے؟ شام کے اپنے بیٹے اور اس کی تنظیمیں یا وہ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں جو اس نومولود ریاست کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں؟
اخوان المسلمون کی بین الاقوامی تنظیم سے سب سے پہلے الگ ہونے والے ڈاکٹر حسن ترابیؒ تھے جنہوں نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں سوڈان میں اسلامی قومی محاذ (الجبهة الإسلامية القومية) قائم کیا تھا۔ اس سے وہ اور ان کے ساتھی سیاست کے میدان میں اڑان بھرنے لگے۔ ان کے بعد ان کے مداح، شیخ راشد الغنوشی( اللہ ان کی مشکل آسان کرے اور ان کی رہائی کی سبیل پیدا فرمائے ) بھی ان کے نقش قدم پر چلے اور اخوان المسلمون سے تنظیمی طور پر الگ ہو کر تیونس میں جبہۃ النهضة قائم کیا۔ یہی حال اردن میں بھی اخوان المسلمون کے ساتھ ہوا، جہاں انہوں نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا اور سیاست و انتخابات میں شرکت کے لیے اسلامی محاذ عمل (جبهة العمل الإسلامي) قائم کیا۔
فلسطین میں حماس نے اخوان المسلمون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا راستہ خود بنانے لگی۔ حتیٰ کہ شام میں بھی اخوان المسلمون نے چند سال پہلے "وعد” نامی ایک سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی لیکن وہ پیدا ہوتے ہی مر گئی، کیونکہ وہ لوگ حال اور مستقبل سے جڑنے کے بجائے ماضی اور تاریخ سے زیادہ جُڑے رہے۔
یہ ساری باتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ پرانا انداز فکر رکھنے والی کوئی بھی تنظیم سیاست اور دعوت کی دنیا میں اپنا راستہ نہیں بنا سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ وہ ایک ایسے علاقائی اور عالمی ماحول میں تیر رہی ہے جو طوفانوں اور جھکڑوں سے بھرا ہوا ہے اور جو اسے جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے۔
اس سے پہلے عراق میں بھی اخوان المسلمون نے اپنے آپ کو تحلیل کر دیا تھا، جب فاضل عالم شیخ محمد محمود صوافؒ ان کے رہنما تھے۔ پھر وہ سعودی عرب ہجرت کر گئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ ہمیں اس زمانے کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اسی طرح مختلف حالات میں قطر میں بھی اخوان المسلمون نے اپنے آپ کو ختم کر دیا۔ اور مغرب عربی (شمالی افریقہ) میں ہم نے دیکھا کہ اخوان المسلمون نے کئی بار اپنا نام بدلا، یہاں تک کہ ان کی نئی جماعت ملک کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچ گئی۔
ترکی میں اسلامی تحریک، مرحوم نجم الدین اربکان کی قیادت میں کوئی بڑی اور مستقل سیاسی کامیابی حاصل نہ کر سکی، مگر جب عبداللہ گل، رجب طیب اردغان اور ان کے ساتھی الگ ہو کر انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پارٹی) قائم کی تو وہ چند ہی برسوں میں اقتدار تک پہنچ گئے اور 2002 سے آج تک عوامی ووٹوں کے ذریعے حکومت میں ہیں۔
ہمیں یہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ جن ممالک میں اخوان نے خود کو ختم کر کے نئی جماعتوں اور نئے ناموں کے ساتھ سیاسی و دعوتی عمل جاری رکھا، ان کا حال ان سے بہتر رہا، اور جنہوں نے ضد کر کے پرانی ڈائناسوری پالیسیوں کو پکڑے رکھا۔ کیونکہ جیسا کہ ماہرین ارضیات کہتے ہیں، ڈائناسور اس لیے ختم ہوئے کیونکہ وہ نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھال نہ سکے۔ بالکل یہی حال اس تنظیم کا ہے جو اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار کرتی ہے، جبکہ زمانہ اسے پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
آج میں جو بات کھل کر کہہ رہا ہوں، وہی بات اخوان المسلمون کے بہت سے نوجوان نجی محفلوں میں آہستہ سے کہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مجھ میں ہمت ہے کہ اسے کھل کر بیان کروں جیسا کہ میں نے 2015 میں کہا تھا کہ جبهة النصرة کو القاعدہ کے عالمی تنظیم سے الگ ہونا چاہیے۔ میں نے اس وقت ایک عربی اخبار میں اس پر مضمون بھی لکھا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر وہ ایک مقامی شامی تنظیم میں نہ بدلے جس کی ساری توجہ اور مقصد صرف ایک مجرمانہ نظام کا مقابلہ ہو جو علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مدد سے کھڑا ہے تو بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اس کے بعد ہی وہ ہمارے اس عوام کو اوپر اٹھا سکتی تھی جو دہائیوں سے مصائب سہتے آ رہے ہیں۔
بڑے بڑے نعرے لگانا، جن کی قیمت اور تاوان ان کی طاقت، وسائل اور بساط سے کہیں زیادہ ہو، بالکل غیر منطقی بات ہے۔ یہی کچھ اخوان کر رہے ہیں۔ دنیا ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتی ہے جیسے وہ کوئی آکٹوپس ہوں، ایک عالمی سلطنت ہوں یا چھ بر اعظموں پر پھیلی ہوئی خلافت اسلامی ہوں، حالانکہ حقیقت اور ان کا موجودہ حال قابل افسوس ہے۔ یہ بے چارے محض خیالی اور سرابی محلوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔
بشکریہ :الجزیرہ ڈاٹ نیٹ
مترجم : محمد اکمل علیگ

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |