شام میں کیا، کیوں اور کیسے ہوا؟
سیاسی استحکام کی راہ میں عالمی دباؤ اور داخلی مشکلات، نئی حکومت کے سامنے سنگین چیلنجز
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان
شام، جسے سیریا یا سوریا بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بازنطینی، اموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی قیادت میں اس علاقے کو سنہ 636ء میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح کیا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد اموی خلافت قائم ہوئی اور 132 سال تک چلی۔ اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ صلیبی جنگوں کے دوران اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی فوجوں کو حطین کے مقام پر 1187ء میں شکست فاش دی۔ سلطان صلاح الدین کا دارالسطنت بھی دمشق تھا۔ عثمانی دور حکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی جو شام سے گزرتی تھی۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ، فرانس اور قیصرِ روس نے مل کر سایکس پیکو (Sykes-Picot) خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت شام کو فرانس کے حوالے کر دیا گیا اور فلسطین کو برطانیہ کے سپرد کیا گیا، جبکہ سنہ 1917 میں روس میں بالشویک انقلاب آنے پر روس نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر اس سامراجی معاہدے پر عمل شروع ہوا اور فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر شام کے عربوں نے امیر فیصل کی سرکردگی میں ایک کانفرنس منعقد کر کے وہاں عرب حکومت قائم کر لی تھی، لیکن فرانس نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور 8 مارچ 1920 کو فوج کشی کر کے شام پر قبضہ کر لیا۔
دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو (Gouraud) شہر میں واقع سلطان صلاح الدین کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر تاریخی کلمہ کہا: ’’صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں‘‘۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین کے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح جب اکتوبر 1918 میں برطانوی قائد جنرل ایلن بی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کیا تو اس نے اعلان کیا: ’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یورپ کو وہ سب یاد ہے، جبکہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دے دی اور 7 اپریل 1946 کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لے لیا جو آج تک شام اور علاقے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی اس نے شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’’جمہوریہ لبنان‘‘ کا نام دے کر عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا۔ یعنی جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ مارونی عیسائی ہوگا۔ لبنانی صدر کے پاس فرانس اور امریکہ کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔
شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (63 فیصد) سنی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروہ یہ ہیں: علوی (10 فیصد) عیسائی (10 فیصد) کرد (9 فیصد) دروز (3 فیصد) اسماعیلی (ایک فیصد) دوسری اقلیتیں (2 فیصد)۔ شام کے 74 فیصد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔
اس علاقے کو بعد میں منگولوں و تاتاریوں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں سنہ 1280ء میں ہرایا۔ پھر تیمور لنگ نے بھی سنہ 1400-1401ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہرا کر اگست 1516ء میں قبضہ کیا جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا، جس کے دوران فرانس اور برطانیہ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرنے کی سازش کی۔
آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دور حکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی جس کی وجہ سے آبادی میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی 1840ء سے لے کر 1914ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے بنائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں ایک تفوق حاصل ہو گیا۔
با قاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے ہاشم الاتاسی کی حکومت (دسمبر 1936) اور شکری القوتلی کی حکومت (1943)۔ سنہ 1946ء میں آزادی کے بعد شام میں یکے بعد دیگرے فوجی انقلاب آئے جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب (مارچ 1949) شامی الحناوی کا انقلاب (1949) شیشکلی کے دو انقلاب (دسمبر 1949/1951) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب (1954)۔ غرض اس عرصے میں شام میں 8 فوجی انقلاب ہوئے جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔
اس دوران مصری صدر جمال عبدالناصر کی عرب قومیت کی جذباتی تحریک کو بہت عوامی تائید ملی جس کے نتیجے میں ۱۹۵۸ء میں مصر اور شام کا سیاسی اتحاد ہو گیا اور ایک نیا ملک ’’الجمہوریۃ العربیۃ المتحدۃ‘‘ (متحد عرب جمہوریہ یا یونائیٹڈ عرب ریپبلک) وجود میں آیا۔ لیکن ۱۹۶۱ء میں ایک اور فوجی انقلاب شام میں آیا اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد الیکشن ہوا اور ناظم القدسی کی صدارت میں نئی حکومت بنی۔ لیکن یہ حکومت لمبے عرصے تک نہیں چلی بلکہ 8 مارچ 1963 کو بعث پارٹی سے متأثر فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ تب سے شام پر کسی نہ کسی شکل میں بعث پارٹی کی حکومت 8؍ دسمبر 2024 تک رہی۔ بعث پارٹی ہی کے کچھ دوسرے فوجی افسر 1966ء میں ایک اور فوجی انقلاب لائے۔ پھر جلد ہی کچھ دوسرے بعث پارٹی کے فوجی افسروں نے 1970 میں ”تحریکِ تصحیح“ کے نام سے ایک اور فوجی انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں اس وقت کا وزیر دفاع اور فضائیہ کا کمانڈر حافظ الاسد صدر بنا جس کے بعد سے موروثی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2000ء میں حافظ الاسد کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا بشار الاسد صدر بنا اور 8؍ دسمبر تک اس عہدے پر قائم رہا۔ اکتوبر 1973ء میں حافظ الاسد نے مصری صدر انوار السادات کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کو امریکہ کی مکمل فوجی تائید حاصل ہونے کی وجہ سے ان کوئی زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ 1975ء میں حافظ الاسد نے لبنان میں امریکہ کے کہنے پر فوجی مداخلت کی اور اپنے پرانے ساتھیوں (فتح اور سنی ملیشیا) کی گردن توڑ کر ہارے ہوئے عیسائی ملیشیا (کتائب وغیرہ) کو دوبارہ لبنان کی سیاست پر حاوی کر دیا۔ اسد کی فوج نے سنی میلشیا (عرب لبنان فوج) کی کمر توڑ دی اور اس کے قائد احمدالخطیب کو گرفتار کر کے شام لے گئی، جس کے بعد سے آج تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ شامی فوج لبنان میں 2005 تک رہی اور بالآخر پورے ملک کی مخالفت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبوری ہوئی۔
شام میں 1979 میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبروں کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا جو بشار الاسد کے سقوط تک جاری رہا۔
حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی بربریت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بے لگام مسلح میلیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے بے انتہا مظالم میں جون 1980 میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے جب جیل میں بند 1200سیاسی قیدیوں کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے اڑا دیا گیا تھا۔ فروری 1972 میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا جس کے دوران بیس سے چالیس ہزار لوگ بمباری اور گولہ باری سے قتل کیے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا کیونکہ وہاں کی عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لیے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیوریٹی سسٹم بنایا تھا جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لیے درجنوں ملیشیائیں بنائی گئی تھیں جن میں سب سے خطرناک ملیشیا ’’شِبّیحہ‘‘ تھی جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھروں کو جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ ان ساری میلیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔
شام کی موجودہ کشمکش 18؍ مارچ 2011ء کو شروع ہوئی جب پورے عالم عربی میں عرب بہاریہ (الربیع العربی) کے نام سے انسانی و سیاسی حقوق کی بازیابی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پہنچے اور تیونس اور مصر میں کچھ عرصے کے لیے نئی حکومتیں بھی بنیں لیکن جلد ہی بعض عرب حکومتوں، اسرائیل اور امریکہ کی کوششوں سے اس کو ناکام بنا دیا گیا۔ شام میں 2011 میں شہر درعا کے واقعات کے بعد یہ تحریک شروع ہوئی جب دیواروں پر نعرے لکھنے والے نوجوانوں کے خلاف اسد حکومت نے سخت کارروائی شروع کی۔ سختی کے ساتھ تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ جلدی ہی مختلف مسلح تحریکوں نے شام کو اپنی جولان گاہ بنا لیا جن میں دولت اسلامیہ (ISIS) بھی شامل تھی۔ کئی نیم آزاد علاقے وجود میں آئے اور بشارالاسد کی حکومت ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئی۔ اس دوران دو لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی ہوئے، 7 ملین شامی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے اور بڑے بڑے شہر، قصبات اور گاؤں بمباری سے کھنڈر بن گئے۔
اس طاقتور عوامی تحریک کے باوجود ایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قازقستان) میں کئی میٹنگیں ہوئیں جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔
اس صورتحال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکہ اور اس کی حلیف کردی اتحاد، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ھیئۃ تحریر الشام (پرانا نام جبہۃ تحریر الشام) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے پاکٹس پر قابض ہو گئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں 2016 سے باغیوں اور اسد حکومت کے درمیان برابری کی صورت حال تھی۔ کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
موجودہ تحریک 27؍ نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی جہاں ایک بڑے علاقے پر ہیئۃ تحریر الشام کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے 21 دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا، ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انہوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے 8؍ دسمبر کی صبح کو دمشق پر قبضے کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔
حالات میں تبدیلی مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظر نامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا، ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا اور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں 28؍ نومبر 2024 کو بشارالاسد روسی صدر پوتن سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے گیا لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا کہ ہم شامی فوج کے بدلے جنگ نہیں لڑ سکتے ہیں۔ بالآخر بشارالاسد 8؍ دسمبر کی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے کہتا رہا کہ روس کی فوجی مدد آ رہی ہے۔
موجودہ تحریک کی شروعات ایک سال قبل شروع ہوئی جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور اس کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او آئی سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکم راں اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ھیئۃ تحریر الشام نے تقریباً 22 چھوٹے چھوٹے مسلح گروہوں سے بات چیت شروع کی جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ھیئۃ تحریر الشام اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ ہتھیار ڈال دیے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔
ہم نے تحریک کے فوجی قائد ابومحمد الجولانی (احمد الشرع) کے شروع کے تین ویڈیو دیکھے ہیں۔ پہلے میں وہ دمشق میں داخل ہونے کے بعد ایک میدان میں سجدہ کر رہے ہیں، دوسرے میں دمشق بلکہ شام کی سب سے اہم عبادت گاہ مسجد اموی میں جا کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں اور تیسرے میں ایک بڑے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں جبکہ وہاں صوفے موجود ہیں۔ ہر جگہ وہ ایک ہی لباس پہنے ہوئے تھے۔ شہروں میں داخل ہونے والی فوج کو حکم تھا کہ گولیاں نہ چلائیں، سرکاری دفتروں کے اندر نہ جائیں، دوسری طرف تمام سرکاری عملہ کو اسد کے وزیر اعظم جلالی سمیت یہ حکم تھا کہ وہ حسب سابق کام کرتے رہیں۔ چند دن بعد ادلب کے علاقے میں ھیئۃ تحریر الشام کی برسوں سے چلنے والی حکومت کے وزیر اعظم محمد البشیر اور ان کے ساتھیوں نے گورنمنٹ کا کام یکم مارچ تک کے لیے سنبھال لیا۔ اس عرصے میں نیا آئین بنایا جائے گا، الیکشن ہو گا اور باقاعدہ حکومت بنے گی۔
اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے مقبوضہ جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا نیز، شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز اور بحری بیڑے پر حملہ کر کے تقریباً 80 فیصد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گی بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّ عمل دینے کے قابل نہیں رہے گی۔ اسی کے ساتھ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں رہے گی اور اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں رہے گی۔
نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تناقضات دوبارہ ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھی اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک ٹوٹے ہوئے اور غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس پیسوں اور اسلحے کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کروا سکتے ہیں۔امریکہ اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں، بشمول بعث پارٹی، بشار الاسد کے لوگوں اور علوی سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی ہیئۃ تحریر الشام کو ’’دہشت گرد تنظیموں‘‘ کی لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت کمزور ہو جائے گی۔
ساری عرب حکومتوں کو اسلامی حکومتوں سے بڑا خوف آتا ہے۔ اسی لیے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی جیسا کہ وہ پہلے تیونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔
***
***
نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک طرف دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تناقضات دوبارہ ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، تو دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھی اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک ٹوٹے ہوئے اور غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024