سی اے اے انصاف ومساوات کے خلاف ایک انتخابی ہتھکنڈہ

 شہری ترمیمی قانون کا مرکز کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد مسلم  رہنماؤں نے مشترکہ  طور پر فیصلے کی مذمت کی

نئی دہلی،13 مارچ :۔

مرکزی حکومت کے ذریعہ سی اے اے قانون کے نفاذ کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ملک کے انصاف پسند طبقے نے اس قانون کو مساوات اور انصاف کے خلاف  بی جے پی کا انتخابی ایجنڈہ  قرار دیا ہے۔طلبہ تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے وہیں ملک کی متعدد مسلم تنظیموں اور سرکردہ لیڈروں ودانشوروں نے سی اے اے  کی مذمت کرتے ہوئے مساوات و انصاف کے اصولوں کو مجروح کرنے والا قانون بتایاہے۔

مسلم رہنماؤ  ں نے   ’سی اے اے‘ (شہریت ترمیمی قانون ) کے خلاف ایک مشترکہ پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات سے عین قبل اس قانون کے نفاذ کا اعلان کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب انتخابی فائدے حاصل کرنے کے لئے  کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل اور قابل مذمت فیصلہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی  شقیں متعارف کرائی گئی ہیں جو ہندوستانی آئین میں درج مساوات اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں میں مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر افراد کے درمیان امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔

شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 2 میں (b) شق کا اندراج کرکے تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی یا عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذکر  کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان میں سے جو دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوچکے ہیں ، ان کے ساتھ تارکین وطن جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ  مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر اس ایکٹ میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے جس سے شہریوں میں مساوی حقوق کے اصول کو شدید دھچکا لگا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔

پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری سے ہونے والے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے ملک کے  مسلمانوں اور معاشرے کے دیگر طبقات  نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئے تھے ۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں تو اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے، یہ قابل اعتراض ہے ۔ یہ تنگ نظر سیاسی مفادات حاصل کرنے والا رویہ ہے  جو معاشرے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکےسیاسی مقاصد حاصل کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔

مسلم رہنماؤں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ شہریت ، مساوات اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ اس میں ذات پات، مذہب و ملت یا نسل و برادری کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے۔ عدم مساوات اور ذات پات کا تعصب  ہمارے قومی سیکولرزم کے تانے بانے کو بکھیر دے گا۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری ترمیمی ایکٹ 2019 کو منسوخ کرے اور ہمارے آئین میں شمولیت اور مساوات کی اقدار کو برقرار رکھے۔

مشترکہ بیان جاری کرنے والے مسلم رہنماؤں میں مولانا محمود اسعد مدنی  صدرجمعیت علماء ہند،،سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند،،مولانا اصغر امام مہدی سلفی:امیر،جمعیت اہل حدیث ہند،مولانا فیصل ولی رحمانی امیرامارت شریعہ،،مولانا انیس الرحمن قاسمی نائب صدر، آل انڈیا ملی کونسل،مولانا یاسین عثمانی بدایونی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل،ملک معتصم خاں نائب امیرجماعت اسلامی ہند،پروفیسر سلیم انجینئرنائب امیر، جماعت اسلامی ہند،مولانا حکیم الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند،ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس،مولانا نیاز فاروقی،شیخ مجتبیٰ فاروقی ،اورڈاکٹر ظفرالاسلام خاں سابق چیئرمین، دہلی مائنارٹی کمیشن کے نام شامل ہیں۔