سیاست اور کارپوریٹ گٹھ جوڑ، جمہوریت پر منڈلاتا خطرہ

’مودی عہد‘ میں کانگریس کا نیا کردار، انویسٹی گیٹیو صحافت کی جانب پیش رفت

نوراللہ جاوید، کولکاتا

سیبی کی سربراہ مادھوی بچ کے خلاف کانگریس کی تحقیقاتی رپورٹ کا حکومت پر گہرا اثر
کارپوریٹ اور ہندوتو ا ایجنڈا، عوامی مفادات کے خلاف بڑا چیلنج
اس وقت بھارت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس عزم سے عاری ہیں کہ وہ کارپوریٹ مفادات کے خلاف عوامی مفادات کی حفاظت کریں۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے دوران یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ کہیں سیاسی جماعتوں کی آڑ میں کارپوریٹ گھرانے کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے ہیں۔ اڈانی، مادھوی بچ اور دیگر کارپوریٹ گھرانوں کے سیاسی مفادات اپنی جگہ ہیں، مگر اس عوام کا کیا ہوگا جس نے اپنی امیدوں اور قربانیوں کے ذریعے حکومت کو لایا اور تبدیل کیا ہے؟
قومی میڈیا مسلسل یہ تاثر دے رہا ہے کہ ’مودی کے عہد‘ میں جسے ایک دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، پانچ دہائی سے زائد عرصے تک ملک پر حکومت کرنے والی کانگریس پارٹی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس دعوے کے پس پشت مقاصد کے تجزیے و تحلیل کی ضرورت اپنی جگہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس نے حالیہ برسوں میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اب ملک کے سامنے اپنا ایک نیا کردار پیش کرنا شروع کردیا ہے، اور وہ ہے تحقیقی صحافت (انویسٹیگیٹو جرنلزم) میڈیا ترجمان اور اس کی ٹیم کا بنیادی کام پارٹی کے موقف کو پیش کرنا، مخالف جماعت کے الزامات کا جواب دینا اور حکومت پر گہری نظر رکھنا ہے۔ کانگریس کی میڈیا ٹیم نے گزشتہ ہفتے سیبی کی سربراہ مادھوی بچ کے خلاف نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کر دی بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ بھارت کی صحافت نے اپنا بنیادی کردار ادا کرنا ترک کردیا ہے، اس لیے اسے انویسٹیگیٹو جرنلزم کا کردار بھی اپنانا پڑ رہا ہے۔ کل تک میڈیا، کانگریس کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کرتی تھی اور پوچھتی تھی کہ آخر کانگریس کہاں ہے؟ یہ گردش ایام ہی کا نتیجہ ہے کہ اب کانگریس میڈیا کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے علاوہ تحقیقاتی صحافت کا کردار بھی ادا کر رہی ہے، کیونکہ جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس کے لیے صحافت کے غیر جانبدارانہ کردار کے علاوہ انویسٹیگیٹو صحافت کی بھی ضرورت ہے۔
کانگریس کی ’تحقیقی صحافت‘ نے کارپوریٹ اور حکم راں جماعت کے گٹھ جوڑ کو ثابت کرنے کے علاوہ ’موڈانی‘ تعلقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فوائد اور حکومت کی پالیسی سازی پر اس کے اثرات کو ملک کے سامنے پیش کرتے ہوئے سیبی سربراہ مادھوی بچ کے خلاف اڈانی کو بچانے جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ اس کے علاوہ مادھوی بچ کے خلاف عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کرانے سے حکومت کے گریز پر سوال کھڑا کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مادھوی بچ حکومت پر حاوی ہوچکی ہیں۔ کانگریس میڈیا سیل کے سربراہ پون کھیڑا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ کارپوریٹ دنیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ چونکہ مادھوی بچ کے ذریعے اڈانی اور دیگر کارپوریٹ گھرانوں کو اس قدر فائدہ پہنچایا گیا ہے کہ مادھوی بچ اب حکومت کو بلیک میل کر رہی ہیں کہ اگر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ تمام سربستہ راز فاش کردیں گی۔ اس لیے مادھوی بچ کا، بدعنوانی، سیبی سربراہ رہتے ہوئے اسٹارٹ اپ فنڈ کے غلط استعمال، آئی سی آئی آئی بینک سے مالی فوائد حاصل کیے جانے کے باوجود حکومت بچاؤ کر رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کے اس دعوے کی جانچ ضرور ہونی چاہیے۔ مادھوی بچ کے خلاف جو الزامات لگے ہیں اس کی اولین ضرورت اور اخلاقی تقاضا تھا کہ مادھوی بچ رضاکارانہ طور پر خود کو جانچ کے لیے پیش کرتیں اور اپنے عہدے سے الگ ہو جاتیں۔ مگر اب اس ملک میں اخلاقی تقاضے کا سوال ہی غائب ہوگیا ہے۔ ایک طرف مادھوی بچ الزامات کو رد کرتی ہیں اور دوسری طرف جانچ کے سوال سے گریز بھی کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی برتری کا دعویٰ کرنے والے مادھوی بچ کے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے کا دفاع کر رہے ہیں۔ مادھوی بچ کے سوال کو ملک کی سالمیت اور بیرونی سازش سے جوڑ کر ہائپر نیشنلزم کا سوال بنایا جا رہا ہے۔ ان سب سوالوں سے اہم سوال یہ ہے کہ جس طرح حکومت مادھوی بچ کا دفاع کر رہی رہے اس تناظر میں کیا کانگریس کے اس دعوے کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ مادھوی بچ حکومت کو بلیک میل کر رہی ہیں؟ اگر مادھوی بچ حاوی نہیں ہیں تو ان کے خلاف جانچ کمیٹی کیوں نہیں بٹھائی جا رہی ہے؟ کیا بھارت کے کارپوریٹ گھرانے اس قدر مضبوط و مستحکم ہوگئے ہیں کہ وہ حکومت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ کیا کوئی کارپوریٹ گھرانا یا پھر کارپوریٹ دنیا سے وابستہ شخص حکومت کو بلیک میل بھی کر سکتا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو پھر جمہوریت کا کیا ہوگا؟ ایسے میں انتخابی سیاست میں کارپوریٹ گھرانوں کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ اس وقت ہے جب ملک کے میڈیا کو تین یا چار کارپوریٹ گھرانے کنٹرول کرتے ہوں۔ اگر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو پھر انتخابی سروے، ایگزٹ پول پر بھی کھڑے ہوں گے کہ کیا کارپوریٹ کے اشارے پر یہ سب انجام دیے جاتے ہیں؟ کیونکہ یہ سب کارپوریٹ کے چندے سے ہی انجام دیا جا رہا ہے؟
بھارت کی سیاست میں کاروبار اور سیاسی جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر آزادی کی جدوجہد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بھارتی جمہوریت کے آغاز سے یا اس سے بھی پہلے کی بات ہے۔ ہماری جمہوری سیاست کی پہلی دہائی میں ہی بڑے سیاسی اسکینڈلز دیکھنے میں آئے جن میں سیاسی رہنماؤں اور تاجروں کے خفیہ روابط شامل تھے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیرون کے خاتمے اور ناگروالا اسکینڈل سے لے کر بوفورس، 2 جی اور رافیل تک، کاروبار اور سیاسی جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ میں شامل بدعنوانی کے الزامات ہندوستانی سیاست کا مرکز رہے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں ماضی کی تاریخ کے چند اوراق کو پلٹنے کی ضرورت ہے کہ کارپوریٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؟ 1957 میں جینتی لال رنچھوڈ داس کوٹیچا بنام ٹاٹا آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی مقدمہ جس میں ٹاٹا کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کے فیصلے کے خلاف مقدمہ کیا گیا تھا، آزادی کے بعد کے بامبے ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس محمد علی چھاگلہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پہلے تاثر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کارپوریٹ سے ملنے والے چندے سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ حکومتیں اگر اپنے فیصلے اہلیت کے بجائے پیسے کے بل بوتے پر کریں گی تو جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے بعد اگر جمہوریت کی شکل و صورت باقی رہ بھی جاتی ہے تو اس کی روح ختم ہو جائے گی۔ جمہوریت کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کئی ممالک کی جمہوریت کو بڑے بڑے کاروباری اداروں اور پیسوں کے تھیلوں نے تباہ کیا ہے جو جمہوری اداروں کے کام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ نہ صرف سیاست دانوں کا، نہ صرف شہریوں کا بلکہ عدالت کا بھی فرض ہے کہ کارپوریٹ گھرانوں کی ووٹروں پر اثر اندازی کو روکیں۔ جمہوریت کی بنیاد ہی ووٹر ہے اور جب ہم ہندوستان میں بالغ رائے دہی کا معاملہ کر رہے ہیں تو یہ دوسری جگہوں کے مقابلے میں اور بھی زیادہ اہم ہے کہ نہ صرف اس نمائندے کی سالمیت کی حفاظت کی جائے جو پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوتا ہے، بلکہ ووٹر کی سالمیت کی بھی حفاظت کی جائے۔ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں کو فنڈ دیتے ہیں تو اس حقیقت کو قبول کرنا کافی مشکل ہے کہ ووٹروں اور عوامی نمائندوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے‘‘
جسٹس محمد علی چھاگلہ کے اس تبصرے کو اگر 67 سال بعد ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ملنے والی فنڈنگ نے جمہوریت کی روح کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ گھرانوں کے چندے کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس سے بھی بڑھ کر صورت حال بدترین کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسیاں کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر مرتب کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت اور چین نے اپنے سرحدی اختلافات کی وجہ سے پیدا شدہ سرد مہری کو بھی کارپوریٹ مفادات کے لیے ختم کیا ہے۔ اڈانی نے چین میں انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے قدم بڑھایا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔ کیا کینیا کے سابق وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم مودی نے اڈانی کے لیے سفارش کی تھی؟ وزیر اعظم مودی کے بیرون ممالک کے دوروں پر اڈانی کی چھاپ کا اب میڈیا حلقوں میں بھی چرچا ہونے لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ ماڈل کے خلاف اپوزیشن جماعتیں کوئی متبادل ماڈل پیش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ مودی، اڈانی اور امبانی کے گٹھ جوڑ پر تمام سیاسی جماعتیں بات کرتی ہیں مگر راہل گاندھی اور گاندھی خاندان کے سوا تمام سیاسی لیڈر چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، وہ امبانی کی دعوت میں شرکت کو قابل فخر لمحہ تصور کرتے ہیں۔ کیا کوئی بھی سیاسی جماعت کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو رد کر کے عوامی مفادات پر مبنی پالیسی مرتب کرنے یا سیاسی نعرہ دینے اور تحریک چلانے میں کامیاب ہو سکے گی؟ یہ سوال اگر مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو کافی اہم ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران مہاراشٹر کی سیاست میں جو کچھ ہوا ہے، اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ شیو سینا اور این سی پی کے درمیان بغاوت صرف اقتدار کے لیے کرائی گئی یا اس کے پیچھے بھی کارپوریٹ مفادات کارفرما ہیں۔ کیا مہاراشٹر میں کانگریس کی اقتدار میں شراکت داری کی صورت میں اڈانی کو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی والے دھاراوی کو ڈیویلپ کرنے کا کام مل سکتا تھا؟ جھارکھنڈ میں بھی کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات داؤ پر ہیں۔ قبائلیوں کی زمین پر نظریں مرکوز ہیں۔ اس لیے ایک طرف قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف قبائلی زمین سے محروم کیے جا رہے ہیں۔
چونکہ بات ماضی کے اوراق کی ہو رہی ہے تو کارپوریٹ گھرانے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کے لیے ٹاٹا گروپ کے چیئرمین جے ڈی ٹاٹا کے ذریعہ پنڈت نہرو کے نام لکھے گئے ایک خط کو بھی پڑھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل، سوانتر پارٹی کے صدر راج گوپال اچاریہ نے 1961 میں ٹاٹا گروپ سے چندہ کی اپیل کی تھی۔ اس پر ٹاٹا گروپ نے وزیر اعظم نہرو کے نام ایک خط لکھ کر بتایا کہ کمپنی نے سوتنتر پارٹی کو چندہ دینے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔
"میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ہم جس واحد جماعتی حکومت کے تحت رہے ہیں، وہ ملک کے لیے اب تک اچھی حکم رانی کی ہے، کیونکہ اس نے استحکام اور قومی توانائیوں اور وسائل کو منظم ترقی پر مرکوز کرنے کے ذرائع فراہم کیے ہیں جو کہ ایک مضبوط اور بہتر انتظامیہ کے بغیر ناممکن تھا۔ تاہم، اگر ایک پارٹی کا غلبہ غیر معینہ مدت تک جاری رہتا ہے تو اس صورتحال میں مستقبل میں پریشانی اور خطرے کے امکانات موجود ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اور اس کی انتظامیہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، یہ ناگزیر ہے کہ لوگ بالآخر تبدیلی چاہیں گے اور ملک کی سیاسی زندگی میں کچھ عناصر کانگریس پارٹی کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کریں گے اور متبادل پالیسی پیش کرنے کی کوشش کے ذرائع تلاش کریں گے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کانگریس کے انتخابی فنڈز کی مسلسل حمایت کے علاوہ ہمیں سوتنتر پارٹی کے فنڈز میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے، اگرچہ چھوٹے پیمانے پر۔
"ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کے اس خط کے جواب میں نہرو کا خط بھی کوئی کم دلچسپ نہیں ہے۔ نہرو نے لکھا ہے کہ یقیناً، آپ کسی بھی طرح کی مدد کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں جو آپ کو سوتنتر پارٹی پسند ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ آپ کی امید کے مطابق سوتنتر پارٹی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھرے گی۔ بلکہ مجھے لگتا ہے کہ اگلے عام انتخابات کے موقع پر اسے مایوسی ہی ہوگی۔ اس پارٹی کی جڑیں نہ تو ہندوستان کے عوام کی سوچ میں ہیں اور نہ ہی دانشوروں کے بڑے طبقے میں۔ آج ہم جس بھارت میں ہیں، اس میں اس طرح کے خط و کتابت کی امید نہیں کر سکتے ہیں۔ آج اگر کوئی کارپوریٹ سیکٹر سیاسی چندے میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرے تو ایجنسیاں حرکت میں آجائیں گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکٹورل بانڈ پر پابندی کر دی گئی ہے۔ تاہم، گزشتہ سالوں میں الیکٹورل بانڈ کے نام پر کارپوریٹ کمپنیوں سے کس طرح وصولی کی گئی ہے اور لیت و لعل کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، اس کے بعد کس طرح کمپنیوں نے حکم راں جماعت کو چندہ دیا ہے، اس کے عدم توازن کو نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
"اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ اڈانی، مادھوی بچ اور کارپوریٹ گھرانوں کے سیاسی مفادات کے سوالات اپنی جگہ مگر عوام کا کیا ہوگا جس کی امیدوں اور قربانی کے ذریعے حکومت لاتی اور تبدیل کرتی ہیں۔ بلاشبہ صنعت کاری اس ملک کی ضرورت ہے؛ اس کے بغیر ملک کی معیشت مضبوط نہیں ہو سکتی ہے۔ صنعت کاروں کے ساتھ تعلقات کے دفاع میں عمومی طور پر گاندھی جی اور برلا گروپ کے درمیان تعلقات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ لیکن گاندھی اور برلا گروپ کے درمیان تعلقات کا حوالہ دینے والے اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ کارپوریٹ گروپ کے مفادات کو درکنار کرتے ہوئے گاندھی جی کی قیادت میں ستیہ گرہ اور عدم تعاون تحریک چلائی گئی۔ اس وقت بھارتی کمپنیاں انگریزوں کے خلاف اس جارحانہ تحریک کے خلاف تھیں۔ دراصل گزشتہ پچھتر برسوں میں کارپوریٹ اور سیاست دانوں کے درمیان تعلقات کئی مرحلوں میں تبدیل ہوئے ہیں۔ کرسٹوف جیفریلوٹ، انل کوہلی اور کانتا مرلی کی مشترکہ مرتب کردہ کتاب Business and Politics in India میں بھارت میں کارپوریٹ اور سیاسی جماعتوں کے تعلقات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1990 کی دہائی تک کاروباری اداروں نے سیاسی فیصلہ سازی پر براہ راست اپنے تجارتی مفادات سے متعلق معاملات میں منتخب ویٹو کا استعمال کیا۔ 1991 میں لبرلائزیشن کے بعد کاروباری ادارے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئے، جہاں کاروبار کا اثر ملک کی پالیسی سازی پر ہونے لگا۔ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ کاروبار اور سیاست کے درمیان تعلقات مزید گہرے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں کارپوریٹ گھرانے فیصلہ سازی اور پارٹی کے ایجنڈے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
"تاہم کارپوریٹ اور مودی کے درمیان تعلقات نے ایک اور چیز کو تبدیل کر دیا ہے؛ وہ ہے کارپوریٹ گھرانوں کا ہندونائزیشن۔ اب کارپوریٹ گھرانے کھل کر ہندتوا کے ایجنڈے کی حمایت کر رہے ہیں۔ چنانچہ کارپوریٹ گھرانوں کے میڈیا ہاؤسز فرقہ پرستی اور عدم مساوات کے سب سے بڑے پیامبر بن چکے ہیں۔ ایسے میں وہ طاقتیں جو عوام، ملک کے مفادات اور غریب و پسماندہ افراد کے مفادات کے محافظ ہیں ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ سیاست اور کارپوریٹ کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ کیونکہ سِول سوسائٹی عدم مساوات، ہم آہنگی اور حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرتی ہے جبکہ کارپوریٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی ایک پالیسی ہے، جو عدم مساوات پر یقین رکھتی ہے۔ دولت کا ارتکاز ان کے دھرم میں شامل ہے۔ ایسے میں اس ناپاک گٹھ جوڑ کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت بھارت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس عزم سے عاری ہیں۔ مودی اور بی جے پی کی تنقید کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی کارپوریٹ گھرانے کے مفادات کے خلاف جا کر عوام دوست پالیسی نہیں بنا سکتیں۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں ہمیں سخت نگرانی کرنی ہوگی کہ کہیں سیاسی جماعتوں کی آڑ میں کارپوریٹ گھرانے کوئی کھیل نہ کھیل رہے ہوں۔

 

***

 بھارت میں سیاست اور کارپوریٹ اداروں کے درمیان تعلقات نے جمہوری نظام کی روح کو متاثر کیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کارپوریٹ چندے کے بغیر خود کو برقرار نہیں رکھ سکتیں اور ان کے فیصلے کارپوریٹ مفادات کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔ ماضی میں گاندھی اور برلا جیسے تعلقات مثال کے طور پر دیے جاتے ہیں، مگر موجودہ دور میں یہ تعلقات ایک ناپاک گٹھ جوڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جس سے عام آدمی کے مفادات پس پشت چلے گئے ہیں۔ کارپوریٹ ادارے کھلے عام ہندوتوا کے ایجنڈے کی حمایت کر رہے ہیں، اور ان کے میڈیا ہاؤسز فرقہ پرستی اور عدم مساوات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایسے میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عوام دوست پالیسیاں کیسے تشکیل دی جائیں، جبکہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اس کارپوریٹ تسلط کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024