
سہ لسانی پالیسی کا تنازعہ اور پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی
تمل ناڈو سرکار اور مرکزی حکومت رشتوں میں بڑھتی ہوئی دوریاں۔ کئی مسائل زیر بحث
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ مکمل تہذیب وثقافت کی عکاس ہے ،اس سے سمجھوتہ ناقابل قبول
تلنگانہ اور کرناٹکا کے وزرائے اعلیٰ اسٹالن کی حمایت میں۔معاملے کی حتمی سنگینی کا اشاریہ
تمل ناڈو کی ریاستی اور دہلی کی مرکزی حکومتوں کے درمیان ایک عرصے سے جو سرد جنگ کی سی کیفیت تھی آج کل اس میں بڑی تیزی آگئی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل اور رنجشوں سے شروع ہونے والی یہ مخاصمت اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایک طرف جہاں گورنر تمل ناڈو کے روز مرہ کے عوامی معاملات میں آئینی رنگ سے زیادہ سیاسی رنگ جھلکتا ہے وہیں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومت کو گھیرنے اور اس کے پر کترنے کے اقدامات کے لیے بہانے ڈھونڈنے کی حکمت عملی زوروں پر دکھائی دے رہی ہے جبکہ ریاستی حکومت خم ٹھوک کر میدان میں دونوں سے بر سرِ پیکار نظر آرہی ہے۔ مہینوں میں دو ایک بار کی جھڑپ سے بات آگے بڑھ کر اب روزانہ کی لفظی جنگ تک آگئی ہے۔ مسئلے سمٹ کر دو نکات پر آگئے ہیں جس پر دونوں جانب سے شدت برتی جا رہی ہے۔
پہلا مسئلہ جو ریاستِ تمل ناڈو کے لیے ناک کا مسئلہ بھی ہے اور اس کے سیاسی رہنماؤں کے بقول اس کے وجود کا بھی ہے وہ دراصل زبان کا مسئلہ ہے۔ دو لسانی پالیسی پر کاربند ریاستِ تمل ناڈو کی حکومت مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کردہ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت سہ لسانی پالیسی کو اپنی آزادی میں راست مداخلت کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے اپنے اوپر ہندی تھوپنے سے تعبیر کرتی ہے۔ اسی طرح دوسرا مسئلہ جو ملک بھر میں بحث کا موضوع بن چکا ہے وہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کا مسئلہ ہے۔ اس پر ریاستِ تمل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ کا موقف جہاں جنوبی ہند کی ریاستوں میں ایک بیداری کی لہر پیدا کر چکا ہے وہیں مرکزی حکومت کو دفاعی محاذ میں دھکیل دیا ہے۔
جہاں تک زبان کے مسئلے کا تعلق ہے ریاستِ تمل ناڈو میں یہ اس کے قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس مسئلے کی ابتدا بیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی جب موجودہ ریاستِ تمل ناڈو سابقہ مدراس اسٹیٹ اور مدراس پریسیڈنسی کا ایک حصہ تھی۔ اس مسئلے کو لے کر سب سے پہلی تحریک 1937 میں شروع ہوئی جب برطانوی راج کے تحت قائم ہونیوالی پہلی انڈین نیشنل کانگریس حکومت جس کی قیادت سی راجگوپال آچاریہ کر رہے تھے، انہوں نے مدراس پریسیڈنسی کے اسکولوں میں ہندی کی تعلیم کو لازمی حیثیت دی تو ای وی راماسوامی پریار، سوما سندرا بھارتیار اور اس وقت کی حزب اختلاف جسٹس پارٹی نے اس کی شدید مخالفت کی اور حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ یہ احتجاج مسلسل تین سال چلتا رہا جس میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف بھوک ہڑتال، کانفرنسیں، دھرنے، جلوس اور جلسے منعقد ہوتے رہے۔ حکومت نے سختی سے اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں دو مظاہرین کی موت واقع ہوئی اور 1198 افراد گرفتار ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ 1939 میں کانگریسی حکومت نے دوسری جنگِ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت کے سوال پر استعفیٰ دے دیا۔ ای وی راماسوامی پریار نے جو اس تحریک کے روح رواں تھے گورنر سے ہندی کی تعلیم کو لازمی کرنے والا قانون واپس لینے کی درخواست کرتے ہوئے احتجاج کو معطل کردیا، 1940 میں گورنر ایرسکائن نے اس قانون کو واپس لیتے ہوئے ہندی کی تعلیم کو لازمی کی جگہ اختیاری کردیا۔
درحقیقت اس وقت اس مسئلے کا تناظر کچھ یوں تھا کہ برطانوی دورِ حکومت کے ہندوستان میں سرکاری زبان انگریزی تھی مگر پورا ملک کئی علاقائی زبانوں میں بٹا ہوا تھا، جیسے جیسے ہندوستان میں آزدای کی لہر میں تیزی آنے لگی اس بات کی کوشش بھی شروع ہوئی کہ ہندی کو ملک بھر کے لیے ایک عوامی رابطے کی زبان بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے 1918 میں گاندھی جی نے دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا قائم کیا اور انڈین نیشنل کانگریس نے جہاں جہاں اس کی سرکاریں قائم ہوئیں وہاں وہاں سرکاری زبان کو انگریزی سے ہندی میں تبدیل کردیا۔ مگر ریاستِ تمل ناڈو کے سماجی مصلح راما سوامی پریار نے اس کو قابلِ قبول نہیں سمجھا۔ انہوں نے اس بات کو تملوں پر شمالی ہندوستانیوں کی اجارہ داری کے طور لیا۔ پریار کی سماجی اصلاح کے لیے شروع کی گئی عزتِ نفس کی تحریک اور ریاستی سرکار میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے والی جسٹس پارٹی کے علاوہ ریاست بھر کے تمل اسکالروں نے کانگریس کے اس فیصلے کو برہمنوں کی جانب سے تمل زبان پر ہندی اور سنسکرت مسلط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا اور چونکہ ریاست میں پریار کی سماجی عزت نفس کی تحریک کی وجہ سے برہمن مخالف جذبات پہلے ہی سے بھڑکے ہوئے تھے ایسے میں ہندی زبان کے سیکھنے کو لازمی قرار دیے جانے کا ریاستی سرکار کا فیصلہ جلتی میں تیل کا کام کرگیا اور یہ تحریک سیاسی تحریک سے آگے بڑھ کر ایک عوامی تحریک بن گئی اور اس وقت کے گورنر کو اس احتجاج کے سامنے جھکنا پڑا اور ہندی لازمی کیے جانے والے قانون کو واپس لینا پڑا۔
سن 1947ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد مرکز کی کانگریس حکومت نے تمام ریاستوں پر زور دیا کہ وہ اسکولوں میں ہندی کی تعلیم کو لازمی بنائیں۔ مدراس پریسیڈنسی کی کانگریس حکومت نے 49-1948 تعلیمی سال میں اعلیٰ کلاسوں میں ترقی کے لیے طلباء کو ہندی میں کم از کم اہلیت لازمی قرار دیا۔ پریار نے اس زبردستی کے خلاف پھر سے تحریک چھڑ دی۔ اس احتجاج میں پریار کے ساتھ انا دورائی بھی شامل رہے اور گرفتاریاں دیں۔ آخر کار حکومت نے 1950 میں اپنے پہلے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے ہندی پڑھنے کو اختیاری بنا دیا۔
آزادی کے بعد ہندوستان کی آئین کی تشکیل کے دوران بھی زبان کے مسئلے پر کافی بحث و تکرار ہوئی اور انگریزی کے ساتھ ہندی کو بھی طے شدہ مدت کے لیے سرکاری زبان کے طور پر شامل رکھنا طے پایا مگر عوامی محاذ پر اس کی مخالفت جاری رہی، خاص کر ریاست تمل ناڈو میں ای وی راما سوامی پریار کی سماجی اصلاحی تحریک’ ڈراوڑا کژگم‘ کی کوکھ سےجنم لینے والی سیاسی جماعت ’ڈراوڑا منیٹرا کژگم‘ نے ریاست میں ہندی مخالفت کا جھنڈا بلند کیے رکھا۔ 1953 میں ڈی ایم کے نے کللاکدی احتجاج شروع کیا، یہ احتجاج کللاکدی جو ضلع ترچناپلی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اس کی ڈالمیا پورم نام کی تبدیلی کو لے کر تھا، اس احتجاج کے دوران ڈالمیا پورم ریلوے اسٹیشن پر ہندی میں لکھے گئے نام کو ایم کرونا ندھی اور ان کے ساتھیوں نے مٹانے کی کوشش کی اور گرفتاریاں دیں۔ 28 جنوری 1956 کو پریار اور انادورائی نے راجاجی کے ساتھ مل کر انگریزی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر جاری رکھنے کی توثیق کرتے ہوئے اکیڈمی آف تمل کلچر کی طرف سے منظور کردہ ایک قرار داد پر دستخط کیے۔ ڈی ایم کے نے 13 اکتوبر 1957 کو ہندی مخالف دن کے طور پر منایا اور 31 جولائی کو چنئی میں ایک اور ہندی مخالف کانفرنس منعقد کی، 1963 میں سرکاری زبانوں کے ایکٹ کے منظوری پر اپنا موقف پہلے سے سخت کرتے ہوئے بطور سرکاری زبان ہندی کی اہلیت پر ہندی کی عددی برتری کے جواب میں انا دورائی کا جواب ’ اگر ہمیں اپنے قومی پرندے کا انتخاب کرتے وقت عددی برتری کے اصول کو قبول کرنا ہوتا تو انتخاب مور پر نہیں بلکہ عام کوے پر پڑتا‘، ڈی ایم کے کی ہندی مخالفت کی شدت کا ایک برملا اظہار تھا۔
جنوبی ہندوستان کے کئی ریاستوں سے مخالفت کے باوجود ہندی کو واحد سرکاری زبان بنانے کی مرکزی حکومت کی کوششیں جاری رہیں۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں ریاستیں اکثر علاقائی زبانوں کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری زبانوں کا قانون 21 جنوری 1963 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، جس کی ’ڈی ایم کے‘ کی جانب سے شدید مخالفت ہوئی۔ لیکن 27 اپریل کو یہ بل بغیر کسی تبدیلی کے منظور کر لیا گیا۔ ڈی ایم کے رہنما انادورائی نے جیسا کہ انتباہ کیا تھا اس پر عمل کرتے ہوئے ریاست گیر احتجاج شروع کیا۔ نومبر 1963 میں انادورائی اور ان کے پانچ سو ساتھیوں کو ہندی مخالف کانفرنس میں آئین کے حصہ 17 کو جلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ 25 جنوری 1964 کو ڈی ایم کے کے ایک رکن چنا سوامی نے ہندی نفاذ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کرلی۔ 7 مارچ 1964 کو مدراس ریاست کے وزیرِ اعلیٰ ایم بھکتا وتسلم نے مدراس قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں ریاست میں سہ لسانی پالیسی متعارف کرانے کی سفارش کی، اس بات کو لے کر تشویش شروع ہوئی اور طلبہ کے درمیان ہندی مخالفت میں بے حد اضافہ ہوا۔ ڈی ایم کے رہنماؤں نے 1965 کے آتے آتے اس تحریک کو طلبہ کی تحریک میں تبدیل کر دیا اور کالج کے طلبہ کو ساتھ لے کر ایک شدید احتجاج شروع کردیا۔ 25 جنوری 1965 کو مدورائی میں مشتعل طلبہ اور ریاستی سرکاری پارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم بے قابو ہو کر فساد کی شکل اختیار کرگیا اور مختصر مدت میں ریاست کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا۔ پولیس نے طلبہ کے جلوسوں کو لاٹھی چارج اور فائرنگ سے جواب دیا۔ آتش زنی، لوٹ مار اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات عام ہو گئے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ہندی نام کے بورڈ جلا دیے گئے۔ ٹیلی فون کے کھمبے توڑ دیے گئے اور ریل کی پٹریاں اکھاڑ دی گئیں۔ حکومت نے صورتحال کو امن و امان کا مسئلہ سمجھا اور احتجاج کو روکنے کے لیے نیم فوجی دستوں کو بلا لیا۔ پولیس کی کارروائی سے مشتعل ہجوم نے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ کئی مشتعل افراد نے خود سوزی کرلی یا زہر کھا کر خودکشی کر لی۔ دو ہفتوں کے فسادات میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 70 لوگ مارے گئے۔ بڑی تعداد میں طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ املاک کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ ایک کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔ اس دوران زبان کے مسئلے پر حکومت کے اندر رائے منقسم ہوگئی، ایک گروپ تملوں پر ہندی مسلط کرنے کے خلاف تھا تو ایک دوسرا گروپ ہر حال میں ہندی کا نفاذ چاہتا تھا۔ شدید احتجاج کے دوران وزیرِ اعظم شاستری نے آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نہرو کی یقین دہانیوں کا احترام کرنے کا وعدہ کیا، انہوں نے تملوں کو یہ بھی یقین دلایا کہ مرکزی حکومت ریاست کے ساتھ مواصلات میں انگریزی کا استعمال جاری رکھے گی۔ شاستری کی یقین دہانی کے بعد طلبہ کونسل نے احتجاج غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ ریاست میں ہندی مخالفت کی یہ تحریک آہستہ آہستہ کانگریس مخالف تحریک میں تبدیل ہوگئی اور 1967 کے ریاستی انتخابات میں کانگریس پارٹی ایک ایسی کراری شکست سے دوچار ہوئی جس کے بعد سے آج تک وہ تمل ناڈو میں کبھی اپنے بل پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکی۔
انادورائی کے حکومت سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ریاست میں پھر سے ہندی مخالف احتجاج شروع ہوگیا جس کو قابو میں کرنے کے لیے 23 جنوری 1968 کو قانون ساز اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس کے تحت ریاست میں سہ لسانی پالیسی کو ختم کر کے ہندی کو نصاب سے نکال دیا گیا۔ اسکولوں میں صرف انگریزی اور تمل کو لازمی مضامین کے طور پر پڑھائے جانے کے علاوہ این سی سی کے طلبہ کو ہدایات ہندی میں دیے جانے کے رواج کو بھی ختم کردیا گیا۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ آئین میں ہندی کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرے اور تمام زبانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے، اور اس پر بھی زور دیا گیا کہ وہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں مذکورہ تمام زبانوں کی ترقی کے لیے مالی مدد فراہم کرے۔ ان اقدامات نے مشتعل افراد کو مطمئن کیا اور فروری 1968 تک حالات معمول پر لوٹ آئے۔
جب 1986 میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے قومی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی اور تمام ریاستوں میں جواہر نوودیا ودیالیہ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تو تمل ناڈو کے سیاسی رہنماؤں نے اسے پھر سے ہندی مسلط کیے جانے کے طور پر دیکھا اور اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما ایم کروناندھی نے سخت احتجاج کا راستہ اپنایا۔اس وقت ریاست میں ڈی ایم کے سے سیاسی اختلافات کے بنا پر علیحدہ ہونے والی اے ڈی ایم کے کی حکومت تھی جس کی قیادت ایم جی رام چندرن کر رہے تھے۔ 13 نومبر 1986 کو تامل ناڈو کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کیا جس میں آئین کے حصہ 17 کو منسوخ کرنے اور انگریزی کو یونین کی واحد سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈی ایم کے ارکان نے آئین کے 17 حصہ کو جلا کر نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف احتجاج کیا، کروناندھی سمیت ڈی ایم کے کے لگ بھگ بیس ہزار ارکان کو گرفتار کیا گیا۔ کئی افراد نے احتجاج میں خود سوزی کر لی۔ راجیو گاندھی نے تمل ناڈو کے ممبران پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ ریاست میں ہندی کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ سمجھوتے کے ایک حصے کے طور پر، تمل ناڈو میں نوودھیا اسکول شروع نہیں کیے گئے۔ فی الحال، تمل ناڈو ہندوستان کی واحد ریاست ہے جس میں نوودیا اسکول نہیں ہیں۔
اسی طرح 2014 میں وزارتِ داخلہ کے اس حکم پر کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ہندی اور انگریزی کے استعمال میں ہندی کو ترجیح دیں، اس اقدام کی تمل ناڈو کی تمام سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر مخالفت کی، اس وقت کی تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا نے خبردار کیا کہ یہ ہدایت تمل ناڈو کے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جنہیں اپنی لسانی وراثت پر بہت فخر ہے اور یہ ان کے جذبات سے منسلک ہے۔ ان مظاہروں نے انگریزی کے مسلسل سرکاری استعمال کو یقینی بنایا۔
حال ہی میں نئی تعلیمی پالیسی 2020 کو تمل ناڈو کے وزیرِ اعلی ایم کے اسٹالین نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ یہ پالیسی چونکہ سہ لسانی فارمولے کی تائید کرتی ہے جو کہ تمل ناڈو کے دو لسانی پالیسی کے خلاف ہے۔ اس بات پر مرکزی حکومت نے تمل ناڈو کو سماگرا شکشا فنڈز کے تحت الاٹ کیے گئے 2152 کروڑ روپیے روک لیے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 پانچ سال قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے متعارف کرائی تھی اور وہ اسے مرحلہ وار نافذ کرتی آرہی ہے۔ یہ پالیسی واضح طور پر سہ لسانی فارمولے کی تائید کرتی ہے جس میں طلبہ کو تین زبانیں سیکھنے کے لیے کہا گیا ہے اور مزید اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کم از کم دو زبانیں ہندوستان کی مقامی ہونی چاہئیں۔ اسٹالن اس نئی پالیسی پر عمل نہ کرنے کی جہاں کئی وجوہات گناتے ہیں وہیں ان کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ سہ لسانی پالیسی ریاست میں ہندی مسلط کرنے کا باعث بنے گی۔
مرکزی حکومت کی جانب سے ہندی کے فروغ کے لیے غیر ہندی بولنے والی ریاستوں میں ہندی اساتذہ کی تقرری کے لیے 2019 میں 50 کروڑ روپے مختص کرنے سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی، اس کے علاوہ ناقدین شمالی اسکولوں یا کیندریہ ودیالیوں میں جنوبی ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے اسی طرح کی کوششوں کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ریاستِ تمل ناڈو میں زبان کا مسئلہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے ’’وہ ریاست پر ہندی مسلط کرنے کی مرکزی سرکار کی کوششوں کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دیں گے اور تمل ناڈو کو بلیک میل کر کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے لکھا کہ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی جو اہداف 2030 میں حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ریاست تمل ناڈو کبھی کے حاصل کر چکی ہے، گویا یہ ایسا ہے جیسے پی ایچ ڈی اسکالر کو کوئی ایل کے جی کا طالبِ علم لیکچر دے رہا ہو۔ دراوڑین دہلی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے بلکہ وہ خود قوم کے لیے راستہ طے کرتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کی سہ لسانی پالیسی کی تائید میں دستخطی مہم کا تمسخر اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ 2026 کے اسمبلی انتخابات میں اسے اپنا بنیادی ایجنڈا بنائیں اور اسے ریاست میں ہندی کے نفاذ پر ریفرینڈم کے طور پر ہونے دیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تمل ناڈو میں ہندی مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ تمل ناڈو برطانوی استعمار کی جگہ ہندی استعمار کو برداشت نہیں کرے گی۔ مرکزی حکومت کے اسکیموں کے ناموں سے لے کر اداروں کے ایوارڈ دینے تک ہندی کو بری طرح مسلط کر دیا گیا ہے جس سے غیر ہندی بولنے والوں کا دم گھٹ رہا ہے جو ہندوستان میں اکثریت میں ہیں۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہیں گی مگر ہندوستان میں ہندی کے تسلط کے ٹوٹنے کے بعد بھی، تاریخ یاد رکھے گی کہ یہ ڈی ایم کے ہی تھی جو اس لڑائی میں سب سے آگے تھی۔
اس لسانی مسئلے پر پورے ملک میں ماحول گرم ہونے لگا ہے، سیاسی لیڈر اپنے اپنے مفاد کو ذہن میں رکھ کر اس پر بیان بازی کر رہے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ یہ حساس مسئلہ کہاں تک جاسکتا ہے۔ دانشور حضرات جہاں سہ لسانی پالیسی کو تعلیمی اعتبار سے بہتر مانتے ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ ریاست تمل ناڈو کی دو زبانوں کی پالیسی بہت کامیاب رہی ہے اور اس سے تعلیمی معیار بلند ہوا ہے۔ کئی دانشوروں نے مشورہ دیا ہے کہ مرکز اور تمل ناڈو کے درمیان اس مسئلہ پر تعمیری بات چیت ہونی چاہیے اور اس کے نتیجے میں ایک عملی سمجھوتہ ضروری ہے۔ مرکز کی جانب سے فنڈز روکے جانے کو ایک بری مثال قرار دیتے ہوئے بہت سوں نے اس پر سخت تنقید بھی کی ہے اور مسئلے کے حل کے لیے اس حرکت کو نا موزوں قرار دیا ہے۔
ریاستِ تمل ناڈو میں زبان کے مسئلے پر ماضی میں جس طرح کی تحریکیں اٹھی ہیں اور جس شدت کے احتجاجات ہوئے ہیں ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ اس مسئلے پر دونوں حکومتیں سیاست کرنے کے بجائے اگر مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ڈھونڈ نکالیں تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے بہت بہتر ہوگا۔
اسی ضمن میں ایک دوسرا مسئلہ پارلیمانی حد بندی کا بھی ہے۔ یاد رہے کہ آزاد ہندوستان میں سب سے پہلے حد بندی 1952 میں حد بندی کمیشن ایکٹ 1952 کے تحت ہوئی تھی۔ حد بندی کا مطلب ہر ریاست میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے لیے نشستوں کی تعداد اور نشستوں کی حدود طے کرنے کا عمل ہے۔ اس کے علاوہ درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائلوں (ایس ٹی) کے لیے مخصوص نشستوں کا تعین بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے۔ حد بندی آبادی کی بنیاد پر طے پاتی ہے تاکہ ہر فرد کے ووٹ کی طاقت چاہے اس کا تعلق کسی بھی ریاست سے ہو سب کے برابر رہے۔
پہلی حد بندی کے بعد دوسری حد بندی 1963 میں حد بندی کمیشن ایکٹ 1962 کے تحت اور 1973 میں حد بندی کمیشن ایکٹ 1972 کے تحت طے پائی تھی۔ حد بندی کا یہ عمل صدر جمہوریہ کی جانب سے نامزد ایک سہ رکنی کمیشن کی ذمہ داری میں ہوتا ہے، اس کمیشن میں عدالت عالیہ کے سبکدوش جج، سابق الیکشن کمشنر اور سابق ریاستی الیکشن کمشنر نامزد کیے جاتے ہیں۔ کمیشن کی اولین ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام حلقوں کی آبادی کو تقریباً مساوی انداز میں تقسیم کرکے حلقوں کی تعداد اور حدود کا تعین کرے اور جہاں جہاں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبیلوں کی تعداد زیادہ ہو وہاں ان کے لیے مخصوص نشستوں کی نشاندہی کرے۔ اگر کمیشن کے اراکین میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ ہندوستان میں حد بندی کمیشن ایک اعلیٰ طاقتور ادارہ ہے، جس کے احکامات میں قانون کی طاقت ہوتی ہے، اسے کسی بھی عدالت کے سامنے کھڑا نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے کسی فیصلے کو چلینج کیا جاسکتا ہے۔
چونکہ حد بندی کے تعین میں آبادی کا کردار ہی اصل ہوتا ہے اس لیے ہر مردم شماری کے بعد اس میں تبدیلی کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ 1972 تک اس اصول کی بنا پر حد بندی کا معاملہ سلجھتا رہا لیکن اس کے بعد جب یہ دیکھا گیا کہ کچھ ریاستوں نے آبادی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور اس کی وجہ سے آبادی کا تناسب ریاستوں کے درمیان بگڑنے لگا ہے اور ایسے میں حد بندی نئے مردم شماری کے تحت مسئلہ بن سکتی ہے تو آئین میں ترمیم کر کے 42 ویں ترمیمی ایکٹ 1976 کے ذریعے لوک سبھا میں ریاستوں کے لیے نشستوں کی تقسیم کو 1971 کی سطح سال 2000 تک لیے منجمد کر دیا گیا۔
تاہم 84 ویں ترمیمی ایکٹ کے تحت 1991 کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر ریاستوں کی سطح پر علاقائی حد بندیوں کی اصلاح کی اجازت دی گئی اور اسی طرح 87 ترمیمی ایکٹ کے تحت 2001 کی مردم شماری کی بنیاد پر ریاستوں کے سطح پر علاقائی حد بندیوں کی اجازت دی گئی اس شرط کے ساتھ کہ یہ عمل ریاستوں کو الاٹ کیے گئے لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد میں کمی بیشی اور رد وبدل کیے بغیر ہوگا۔
ابھی تک 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی حد بندی ہی وطن عزیز میں رائج ہے۔ موجودہ حکومت نے جب سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت بنائی تبھی سے یہ بات طے سمجھی جانے لگی کہ بہت جلد سرکار نئی حد بندی کے ذریعے لوک سبھا میں اراکین کی تعداد میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے جو یقینی طور پر نئے مردم شماری کے تحت ہوگا۔ چونکہ 2021 کی مردم شماری کا عمل کووڈ-19 وبائی بیماری کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا تو پھر اسے 2026 سے پہلے مکمل کرکے اس کے تحت لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کی نئی حد بندی کی جانی ہے۔
اگر نئے مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کا عمل شروع ہوگا تو اس کا راست اثر جنوبی ہند کی ریاستوں پر پڑے گا اور چونکہ ان ریاستوں نے آبادی پر قابو پانے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے دیے گئے احکامات کو نافذ کیا جس کے نتیجے میں ان کی آبادی کی شرح میں بہت کمی آئی ہے بہ نسبت شمالی ہند کے، جہاں کی اکثر ریاستوں نے آبادی پر قابو پانے میں کوئی قابلِ ذکر سنجیدگی نہیں دکھائی اس وجہ سے وہاں آبادی کی شرح میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بنیاد پر جنوبی ہند کی ریاستیں نئی حد بندی میں خسارے میں رہیں گی۔ جہاں اس کے اراکین کی تعداد بڑی حد تک گھٹ کر قابل توجہ نہیں رہے گی وہیں شمالی ہند کی اکثر ریاستیں فائدے میں رہیں گی اور مرکزی حکومتوں میں ان کی سیاسی طاقت میں زبردست اضافہ ہوگا۔ یہ اس کے باوجود ہوگا کہ جنوبی ہند کی ریاستیں آبادی کے لحاظ سے ملک کا 18 فیصد ہیں لیکن جی ڈی پی میں ان کا حصہ 35 فیصد ہے۔
نئے مردم شماری کے تحت اگر لوک سبھا میں فی الوقت موجودہ تعداد 543 نشستوں کی بنیاد پرحد بندی کی جاتی ہے تو جنوبی ہند کی ریاستوں میں تمل ناڈو کو آٹھ نشستوں کا خسارہ ہوگا اس طرح کرناٹکا کو دو، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کو آٹھ اور کیرالا کو آٹھ نشستوں کا خسارہ ہوگا۔ وہیں شمالی ہند کی ریاستوں میں یو پی کو گیارہ، بہار کو دس، راجستھان کو چھ اور مدھیہ پردیش کو چار نشستوں کا فائدہ ہوگا۔ اگر لوک سبھا کی نشستوں میں اضافہ کر کے 848 کر دیا جائے تو اس سے جنوبی ہند کی ریاستوں کو کوئی خسارہ تو نہیں مگر شمالی ہند کی بہ نسبت ان کی نمائندگی پارلیمنٹ میں کم ہو جائے گی۔ یعنی اس حساب سے ریاست تمل ناڈو کو دس، آندھرا اور تلنگانہ کو بارہ، کیرالا کو صفر اور کرناٹکا کو تیرہ کا فائدہ ہوگا جبکہ شمالی ہند کی ریاستوں میں یو پی کو 63، بہار کو 39، راجستھان کو 25،ل اور مدھیہ پردیش کو 23 نشستوں کا فائدہ ہوگا۔
ریاستِ تمل ناڈو کی نمائندگی کی شرح موجودہ پارلیمنٹ میں 7 فیصد ہے۔ اگر نئے مردم شماری کے تحت حد بندی کی گئی تو اس کی نمائندگی گھٹ کر 5 فیصدی پر آجائے گی۔ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں ریاستِ تمل ناڈو کی موجودہ حکومت سیاسی طور پر بڑی حد تک مضبوط ہے، اور لگتا ہے اس نے اس مسئلے پر مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے گھر میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے گزشتہ دنوں ریاستی سیاسی جماعتوں کی ایک کل جماعتی میٹنگ طلب کی جس میں حلیف جماعتوں کے ساتھ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی سوائے بھاجپا اور اس کی ایک حلیف جماعت کے۔ اس میٹنگ میں متفقہ طور پر جو پانچ رکنی قرار داد منظور کی گئی وہ کچھ یوں ہے:
٭مرکزی حکومت کو تمل ناڈو کی موجودہ پارلیمانی نمائندگی کو کسی بھی شکل میں، قطعی طور پر یا فیصد کے لحاظ سے کم کرنے کے لیے کسی بھی قدم کو ترک کرنا چاہیے۔ آبادی میں اضافے کو کامیابی سے کنٹرول کرکے قومی مفاد میں کام کرنے کی کوئی سزا ہم قبول نہیں کریں گے۔
٭عزت مآب وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ میں واضح یقین دہانی کرانی ہوگی کہ 1971 کی آبادی کی بنیاد پر نشستوں کی حد بندی کو مزید 30 سال کے لیے بڑھایا جائے گا اور اس کو یقینی بنانے کے لیے آئینی ترمیم کو پاس کرنا ہوگا۔
٭اگر پارلیمانی نشستیں بڑھائی جاتی ہیں تو تمل ناڈو کی نمائندگی موجودہ ڈھانچے کے تناسب سے بڑھنی چاہیے۔ ہماری صحیح سیاسی آواز سے کوئی ہیرا پھیری یا کمزوری قابل قبول نہیں ہوگی۔ تمل ناڈو کی سیٹوں کا موجودہ فیصد جو کل کا 7.18 ہے وہ کسی بھی حالت میں کم نہیں ہونا چاہیے۔
٭ریاست تمل ناڈو حد بندی کے خلاف نہیں ہے، لیکن وہ اسے ترقی پسند ریاستوں کے خلاف ایک مخفی ہتھیار بننے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ ہی دے گی ۔
٭تمام سیاسی جماعتوں (جنوبی ہند کی ریاستوں کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ) سے ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنانے کے لیے رابطہ کیا جائے گا، تاکہ اس غیر منصفانہ مقصد کو فوری اور ہر سطح پر ایک جدوجہد کے طور پر اٹھایا جائے اور اس کے لیے تمام ضروری حمایت و تعاون حاصل کیا جائے۔
اس کے علاوہ وزیرِ اعلیٰ اسٹالن نے ایکس پر ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ خبر دی ہے کہ انہوں اس گمبھیر مسئلے کو لے کر کیرالا، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹکا جیسی جنوبی ریاستوں کے علاوہ بنگال، اڈیسہ اور پنجاب کے وزرائے اعلٰی سے اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے بھی رابطہ کر کے انہیں اپنے اس قانونی حق کی لڑائی میں ساتھ دینے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ اس مقصد کے لیے ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنا رہے ہیں جس کا پہلا جلسہ 22 مارچ 2025 کو چنئی میں طے ہے۔ اس کے لیے لگ بھگ تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو انہوں نے درخواست بھیجی ہے کہ وہ اس میٹنگ میں اپنے معتبر رہنماؤں کو ضرور بھیجیں اور ریاستی حقوق کی حفاظت کی اس لڑائی میں ان کا بھر پور ساتھ دیں۔
تلنگانہ کے وزیرِ اعلیٰ ریونت ریڈی نے اسٹالن کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے تیکھے الفاظ میں کہا ہے کہ ”بی جے پی تیسری بار مرکز میں اقتدار میں واپس آئی ہے، لیکن ابھی بھی اس کو جنوبی ہند پر خاصی گرفت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ مثال کے طور پر، 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں جیتی گئی 240 نشستوں میں سے صرف 29 نشستیں جنوبی ہند سے آئیں۔ اسی لیے بی جے پی حد بندی کے ذریعے جنوبی ہند سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔”
اس مسئلے پر ریاستِ تمل ناڈو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تلنگانہ کی کانگریسی حکومت نے بھی ریاستی سطح پر ایک آل پارٹی میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ حد بندی کا عمل 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر کیا جائے اور اس اہم معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے تمام جماعتوں کی میٹنگ بلائی جائے، کیونکہ یہ مسئلہ بھارتی جمہوریت پر گہرا اثر ڈالے گا۔
ریاستِ کرناٹکا کے وزیرِ اعلیٰ سدا رمیا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسٹالن کے موقف کی تائید کی ہے، انہوں نے کہا ہے اگر آبادی کے تازہ ترین تناسب کی بنیاد پر حد بندی کی جاتی ہے تو یہ جنوبی ریاستوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔ اس طرح کی ناانصافی کو روکنے کے لیے آئینی ترامیم کے بعد 1971 کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر حد بندی کی جانی چاہیے۔
آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے جو مرکزی حکومت کے صف اول کے حلیفوں میں سے ہیں، تمل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کا جواب دیتے ہوئے گول مول بات کی ہے اور راست جواب نہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان تمام امور پر بات چیت کی جائے گی۔ بعض اوقات کچھ فیصلے مفروضوں کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، لیکن ہر مفروضہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا، ہمیں اپنے نظریات بدلنے ہوں گے۔
اس کے علاوہ انڈیا الائنس سے تعلق رکھنے والے اکثر سیاسی پارٹیوں نے جن کا تعلق جنوبی ہند سے ہے، کھل کر وزیرِ اعلیٰ اسٹالن کے موقف کو صحیح ٹھیرایا ہے۔ لیکن کانگریس کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں نے ابھی تک اس پر کھل کر اپنی بات نہیں رکھی ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے بھی اس مسئلے پر ابھی تک کوئی راست تبصرہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ان کی ریاستیں بھی اس عمل سے متاثر ہو رہی ہیں۔
اس موضوع پر ملک کے کئی دانشوروں نے بھی اپنی بات رکھنے کی کوشش کی ہے، کچھ کا خیال ہے کہ 1971 کی مردم شماری کو نامعلوم وقت تک کے لیے آئین میں ترمیم کر کے حد بندی کی بنیاد قرار دے دی جائے، وہیں کچھ کا خیال ہے کہ نفع اور نقصان سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد میں فرد کے ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے نئی مردم شماری کے تحت حد بندی ہونی چاہیے۔ وہیں کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اقتصادی اور سماجی ترقی کی بنیاد پر کچھ ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ جس سے ان ریاستوں کو جنہوں نے آبادی پر قابو پانے کی کامیاب اقدامات کیے ہیں خسارہ نہ ہو اور یہی وفاقیت کے ساتھ انصاف ہوگا۔
ابھی تک یہ مسئلہ صرف مرکزی حکومت اور جنوبی ریاستوں کی حکومتوں کے درمیان بحث کا موضوع ہے، کئی بڑی پارٹیوں کے سیاسی رہنماؤں نے بھی اس پر کھل کر اپنا موقف ظاہر نہیں کیا ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ مسئلہ عوام کے درمیان چلا گیا جس کے آثار نظر آ بھی رہے ہیں تو یہ بڑی پریشان کن بات ہوگی اور اس کے اثرات کیا ہوں گے، اس کی پیشن گوئی کرنا بے حد مشکل ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بار بار اس یقین دہانی کے باوجود کہ نئی حد بندی سے جنوبی ریاستوں کی نشستوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی، روز بروز اس مسئلہ پر ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ پی چد مبرم جو نہ صرف کانگریس کے ایک بڑے سینئر رہنما ہیں بلکہ کئی بار سابقہ مرکزی حکومتوں میں اہم وزارتوں پر فائز رہ چکے ہیں، جن کا تعلق ریاست تمل ناڈو سے ہے، انہوں نے حد بندی کے مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مرکزی حکومت آئین کے آرٹیکلز 81 اور 82 پر سختی سے عمل کرتی ہے اور جنوبی ریاستیں آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی کی مخالفت پر قائم رہتی ہیں، تو یہ ایک ایسی صورتحال ہوگی جہاں ایک قابل مزاحمتی قوت ایک اٹل شے سے ٹکرا رہی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں اختلافات اور بحران جنم لیں گے۔ کیا ہمارے پاس اتنی بصیرت ہے کہ ہم اس مسئلے کا خوشگوار حل تلاش کر سکیں؟
دونوں مسئلے چاہے وہ سہ لسانی فارمولے کے تحت نئی تعلیمی پالیسی کا ہو یا پارلیمنٹ میں حد بندی کا مسئلہ ہو تمل ناڈو کی اکثریت اس کو اپنے اوپر شمالی تسلط کی کوشش کے طور پر دیکھتی ہے اور ان مسائل پر یہاں کی اکثر سیاسی پارٹیوں میں بھی مضبوط فکری اتحاد پایا جاتا ہے۔ سوائے بی جے پی اور اس کے دو ایک اتحادی پارٹیوں کے کوئی بھی ان مسائل میں الگ سے ایک نیا بیانیہ تراشنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی کوشش سیاسی خود کشی ہوگی اور پھر وہ کبھی عوام کی نظر میں اعتبار حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح مرکزی سیاسی پارٹیاں اس مسئلے پر ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہچکچاتی ہیں یا صاف اختلافی نقطہ نظر پیش کرتی ہیں کیونکہ انہیں شمال کے اپنے ووٹ بینک کی فکر ہوتی ہے۔ ایسے میں ان مسائل کا کوئی حل نکالنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے ہی سے مذہب اور ذات پات میں بٹی آج کل کی سیاسی لیڈر شپ کیا اب لسانی اور علاقائیت کے نام پر تقسیم کو اور ہوا دے گی یا ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک اور ملک کے مستقبل کی خاطر ان مسائل کا ایسا حل نکالنے کی کوشش کرے گی جو سب کو تسلیم ہو!
***
***
ریاستِ تمل ناڈو میں زبان کا مسئلہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے ’’وہ ریاست پر ہندی مسلط کرنے کی مرکزی سرکار کی کوششوں کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دیں گے اور تمل ناڈو کو بلیک میل کر کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے لکھا کہ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی جو اہداف 2030 میں حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ریاست تمل ناڈو کبھی کے حاصل کر چکی ہے، گویا یہ ایسا ہے جیسے پی ایچ ڈی اسکالر کو کوئی ایل کے جی کا طالبِ علم لیکچر دے رہا ہو۔ دراوڑین دہلی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے بلکہ وہ خود قوم کے لیے راستہ طے کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025