سپریم کورٹ کا الہ آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے مسجد کو ہٹانے کے معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت سے انکار

سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو مسجد کے لیے دوسری جگہ پر زمین کی مانگ کے لیے ریاستی حکومت کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کی اجازت دی،الہ آباد ہائی کورٹ نے عدالت کے احاطے میں واقع مسجد کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا

نئی دہلی13مارچ :۔

سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے مسجد کو ہٹانے کے 2017 کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو جگہ خالی کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو مسجد کے لیے دوسری جگہ پر زمین کی مانگ کے لیے ریاستی حکومت کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کی اجازت دی۔ خیال رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے عدالت کے احاطے میں واقع مسجد کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔

وقف مسجد ہائی کورٹ اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے عرضی گزاروں کو مسجد کو ہٹانے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا اور کہا کہ اگر آج سے تین ماہ کے اندر اندر اگر تعمیرات نہ ہٹائی گئیں تو انہیں ہٹانے یا گرانے کا راستہ ہائی کورٹ سمیت حکام کے سامنے ہوگا۔ بنچ نے عرضی گزاروں کو یہ بھی اجازت دی کہ وہ قریبی علاقے میں متبادل اراضی کے الاٹمنٹ کے لیے اتر پردیش حکومت سے  ملاقات کریں۔

مسجد سرکاری لیز پر دی گئی زمین پر واقع  

سپریم کورٹ کی بنچ نے یہ حکم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا کہ مسجد سرکاری لیز پر دی گئی زمین پر واقع ہے اور گرانٹ کو 2002 میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2012 میں زمین کی بحالی کی توثیق کی تھی اور اس لیے درخواست گزار احاطے پر کسی قانونی حق کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ وقف  کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت 1861 میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے مسلم وکلاء، مسلم کلرک، مسلم مؤکل جمعہ کے دن شمالی کونے میں نماز پڑھتے تھے، وہاں وضو کا بھی انتظام تھا۔ بعد ازاں برآمدے کے قریب ججز کا چیمبر بنایا گیا جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ مسلم وکلاء کے وفد کی درخواست پر ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے نماز کی ادائیگی کے لیے جنوبی جانب ایک اور جگہ فراہم کی۔ اس وقت ایک شخص نے، جس کے پاس سرکاری گرانٹ کی زمین تھی، انہیں احاطے میں ایک نجی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ دی۔ اس طرح نجی مسجد کو عوامی مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔

1988 کے آس پاس، جس زمین پر مسجد واقع تھی، اس کی لیز کو مزید 30 سال کے لیے  توسیع کر دی گئی تھی، جو 2017 میں ختم ہوناتھی۔ تاہم 15.12.2000 کو لیز کینسل کر دی گئی، لیکن نمازیں اب بھی ادا کی جا رہی ہیں۔ مسجد ہائی کورٹ کے باہر سڑک کے پار واقع ہے اور یہ کہنا غلط ہے کہ یہ ہائی کورٹ کے احاطے میں واقع ہے۔ 2017 میں حکومت بدلی تو سب کچھ بدل گیا۔ درخواست نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے صرف دس دن بعد دائر کی گئی تھی۔