سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون پر روک لگانے سے کیا انکار، تمام درخواستوں کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیجا

نئی دہلی، جنوری 22: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز شہریت ترمیمی قانون 2019 کے نفاذ پر روک لگانے سے انکار کردیا اور قانون کے خلاف تمام درخواستیں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو ارسال کردیں۔

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس عبدالنذیر اور سنجیو کھنہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے سی اے اے کو چیلنج کرنے والی 143 درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ کچھ درخواستوں میں قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) اور قومی شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے حکومتی اقدام پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے۔

18 دسمبر کو اعلی عدالت نے سی اے اے کو للکارنے والی مختلف درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے جنوری کے دوسرے ہفتے تک جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔

11 دسمبر کو پارلیمنٹ کے ذریعہ یہ قانون منظور کیا گیا تھا جس کے بعد CAA  NRC اور NPR کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہونے والے کچھ احتجاج پرتشدد ہوگئے جن میں تقریبا 30 افراد مارے گئے۔ جن میں زیادہ تر اترپردیش میں پولیس کی مبینہ فائرنگ میں مارے گئے۔

واضح رہے کہ سی اے اے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے صرف ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی، جین اور پارسی تارکین وطن کو شہریت دیتا ہے۔

143 درخواستوں میں سے مرکز نے صرف 60 درخواستوں پر اپنا جواب داخل کیا تھا۔ اعلی عدالت نے تمام درخواستوں پر جواب داخل کرنے کے لیے مرکز کو مزید چار ہفتوں کا وقت دیا۔ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے مرکز کی طرف سے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو 143 درخواستوں میں سے صرف 60 کی کاپیاں دی گئیں ہیں لہذا ان درخواستوں کا جواب دینے کے لیے انھیں وقت درکار ہے جن کی تکمیل نہیں کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس وقت تک کوئی حکم پاس نہیں کرے گی جب تک کہ وہ مرکز کی سماعت نہ کر لے۔

بہت سے درخواست گزاروں نے اعلی عدالت سے اپنے آخری حکم تک سی اے اے پر عمل درآمد روکنے کی اپیل کی لیکن بنچ نے ایسی کوئی روک لگانے سے انکار کردیا۔

مرکزی حکومت نے اعلی عدالت سے سی اے اے سے متعلق مقدمات اعلی عدالت میں منتقل کرنے کی اپیل کی تھی۔ جس کے بعد اعلیٰ عدالت نے ہائی کورٹس کو بھی متعلقہ امور نمٹانے سے روک دیا ہے۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ آسام اور تریپورہ کی درخواستوں پر الگ سے غور کرے گا۔