سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے ڈاکٹر کفیل خان کے مقدمے کی سماعت کے لیے کہا
نئی دہلی، مارچ 19- سپریم کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کی اے ایم یو تقریر اور اس کے بعد یوپی پولیس کے ذریعے ان کی گرفتاری سے متعلق معاملہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کردیا۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس بی آر گوائی اور سوریہ کانت پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے ڈاکٹر کفیل کی والدہ نزہت پروین کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے بعد کہا ’’ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ اٹھایا جائے۔ اس معاملے کا ریکارڈ فوری طور پر ہائی کورٹ میں منتقل کیا جائے۔‘‘
12 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں سی اے اے مخالف مظاہرے میں مبینہ طور پر متنازعہ تقریر کرنے کی بنیاد پر ڈاکٹر خان کو 29 جنوری کو ممبئی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ علی گڑھ ضلع کی ایک مقامی عدالت نے انھیں 10 فروری کو ضمانت دے دی، تاہم عدالت سے ضمانت کا حکم ملنے کے باوجود انھیں جیل حکام کی جانب سے رہا نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے جیل حکام کے لیے عدالت سے یاد دہانی کرائی۔ لیکن 14 فروری کو ان کی رہائی سے دو گھنٹے قبل ہی یوپی حکومت نے ان پر سخت قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر دیا، جس نے ان کی رہائی کو روک دیا۔ این ایس اے کے تحت، ملزم ایک سال تک ضمانت بھی نہیں لے سکتا۔ جس کے بعد ڈاکٹر خان کی والدہ نے اپنے بیٹے کی نظربندی کو چیلنج کرتے ہوئے اعلی عدالت میں فوجداری رٹ پٹیشن دائر کردی۔
ڈاکٹر خان نے سپریم کورٹ کے حکم کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کے ٹویٹر ہینڈل پر، جسے ان کی قید کے دوران ان کی اہلیہ ہینڈل کر رہی ہیں، جمعرات کی صبح ٹویٹ کیا گیا ’’سپریم کورٹ سے ایک خوش خبری۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو ڈاکٹر کفیل خان پراین ایس اے کے مقدمے کی فوری سماعت کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ کی رٹ پٹیشن کی فائل براہ راست الہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کی جائے تاکہ سماعت میں کم از کم وقت لیا جائے۔
دوسری طرف ڈاکٹر خان نے الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ کے مشاورتی بورڈ میں ان پر این ایس اے لگانے کو چیلنج کیا۔ بورڈ کسی شخص کے خلاف این ایس اے کی صداقت کا فیصلہ کرتا ہے۔
منگل (17 مارچ) کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے کی سربراہی میں مشاورتی بورڈ نے اس پر سماعت کی۔
انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کفیل کے بڑے بھائی عدیل احمد خان نے بتایا کہ ان کے بھائی منگل کو بورڈ کے سامنے ذاتی طور پر موجود تھے۔ انھیں اپنے نکات پیش کرنے کے لیے قریب 30 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ بورڈ نے علی گڑھ کے ضلعی حکام کو بھی سنا۔ بورڈ ایک ہفتے میں اپنے فیصلے کا اعلان کرے گا۔