سپریم کورٹ سے الیکٹورل بانڈ غیر آئینی قرار
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’رائے دہندگان کو پارٹیوں کی فنڈنگ کے بارے میں جاننے کا حق ہے‘
نئی دہلی،15فروری :۔
عدالت عظمیٰ نے آج ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے الیکٹورل بانڈ کو غیر آئینی قرار دیا ۔ لوک سبھا انتخابات کے اعلان سے ایک ماہ قبل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آیا ہے۔ یہ فیصلہ مرکزی حکومت کے لئے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ انتخابی یا الیکٹورل بانڈ حقِ اطلاعات قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ نیز ووٹروں کو یہ حق ہے کہ انہیں پارٹیوں کی فنڈنگ کے بارے میں معلومات ہوں۔ عدالت نے کہا ہے کہ کالے دھن پر لگام لگانے کی غرض سے حق اطلاعات کی خلاف ورزی مناسب نہیں ہے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ گزشتہ سال 31 اکتوبر سے اس معاملے پر باقاعدہ سماعت شروع کی تھی۔ اس دوران عدالت نے اس کیس کی مسلسل 3 دن تک سماعت کی اور اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کا الیکٹورل بانڈ کو غیر آئینی قرار دینا مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل ایک آئینی بنچ نے تین دن کی مدت میں متنازعہ انتخابی بانڈ اسکیم کو چیلنج کرنے کی سماعت کی، اس سے پہلے کہ فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
عدالت نے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا۔ اس میں ڈی وائی چندرچوڑ نے اہم فیصلہ سنایا، جسٹس کھنہ نے قدرے مختلف استدلال کے ساتھ اتفاق کیا۔ دونوں فیصلوں نے دو اہم سوالات کے جوابات دیے۔ پہلا، کیا انتخابی بانڈ اسکیم کے مطابق سیاسی جماعتوں کو رضاکارانہ شراکت کے بارے میں معلومات کا انکشاف نہ کرنا اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 29 سی ،دفعہ 183(3) میں ترمیم ،کمپنی ایکٹ ،انکم ٹیکس کی دفعہ 13اے(بی) آئین کے دفعہ 19(1)(اے) کے تحت حق اطلاعات قانون کی خلاف ورزی ہ ، دوسرا کیا دفعات میں ترمیم کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کو لا محدود کارپوریٹ فنڈنگ کا تصور پیش کیا گیا ہے ، کمپنی ایکٹ کی دفعہ 182(1) آزاد اور غیر جانبدار انتخابات کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔
معاملہ کی سماعت کے دوران سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا، ’’ہم متفقہ فیصلے پر پہنچے ہیں۔ میرے فیصلے کی تائید جسٹس گوائی، جسٹس پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا نے کی ہے۔ اس میں دو رائے ہیں، ایک میری اپنی اور دوسری جسٹس سنجیو کھنہ کی، دونوں کے استدلال میں تھوڑا سا فرق ہے، تاہم دونوں ایک ہی نتیجہ پر پہنچتی ہیں۔‘‘