سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

عدلیہ کے فیصلے، جوڈیشیل پینل کی جانب دار رپورٹ اور حقیقت کا گلا گھونٹنے کی کوشش

ڈاکٹر سلیم خان

یوگی، امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ، بی جے پی کی اندرونی کشمکش عروج پر
مردم شماری کے حقائق نے یوگی کے بیانیے کے پول کھول دیے
یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہہ کر کہ سنبھل سے ہندو خوف کے مارے نقلِ مکانی کر رہے ہیں خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار لی ہے۔ اس لیے کہ سوال پیدا ہوا کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو کیا وہ گھاس چھیل رہے ہیں۔ ہندوؤں کو تحفظ دینے میں پچھلے آٹھ سال سے چلنے والی ڈبل انجن سرکار کیوں ناکام ہوگئی؟ ہندو ان پر بھروسا کیوں نہیں کرتے؟ یوگی آدتیہ ناتھ کی ذہنی حالت درست ہوتی تو وہ ایسا احمقانہ بیان ہرگز نہیں دیتے بلکہ جس عدالتی پینل نے یہ رپورٹ دی ہے اسے دبا دیتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں کے ایما پر یہ رپورٹ ان کی مرضی کے مطابق بنائی گئی اور اس کے ذریعہ وہ خود اپنے سیاسی مستقبل کی چتا جلا رہے ہیں۔ یہ سب ان کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے جس کے پسِ پشت کچھ ٹھوس سیاسی عوامل کار فرما ہیں۔ سنبھل کے تعلق سے جولائی اور اگست کا آخری ہفتہ یوگی سرکار کی نیند اڑانے والا تھا۔ 26؍ جولائی کو الٰہ باد ہائی کورٹ نے ممتاز وکیل اور سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی کو ضمانت دے دی ہے۔22؍ اگست کو سپریم کورٹ نے سنبھل کی مسجد کے بارے میں الٰہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی اور تین دن بعد ہندو فریق کو نوٹس دے کر یکم ستمبر تک جواب دینے کا وقت دیا۔اسی دباو میں 28؍ اگست کو کمبھ کرن کی نیند میں سوئے ہوئے جوڈیشیل پینل نے اچانک بیدار ہو کر ایک اوٹ پٹانگ رپورٹ وزیر اعلیٰ کی خدمت میں پیش کر دی اور ہندوؤں کےنقل مکانی کا جعلی بیانیہ گھڑنا شروع کر دیا۔
یہ سب ایسے وقت میں ہوا جبکہ ’ووٹ چور گدی چھوڑ یاترا‘ میں شرکت کے لیے اکھلیش یادو نے بہار جانے کا اعلان کیا تاکہ اس کے خوشگوار جھونکوں کو اتر پردیش لایا جاسکے۔ پچھلے سال قومی انتخاب کے اندر سماجوادی پارٹی کے ہاتھوں زبردست ہزیمت کا سامنا کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ سمجھ گئے کہ یہ آندھی اگر اتر پردیش میں آگئی تو اگلے صوبائی انتخاب میں ان کے خیموں کی طنابیں اکھڑ جائیں گی۔ قومی انتخاب میں تو بی جے پی ارکان کی تعداد توقع سے تقریباً نصف ہوگئی تھی اب تو وہ ایک چوتھائی بھی نہیں بچے گی۔ یوگی کو امید تھی کہ دو سال بعد منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات میں وہ سنبھل کے کمبل میں چھپ کر اپنی سیاست چمکائیں گے مگر اب تو نہ صرف عدالت عظمیٰ بلکہ عدالتِ عالیہ کا رخ بھی ان کی توقعات کے خلاف دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں یوگی آدتیہ ناتھ کا بے چین ہو جانا فطری ہے اور ایک حواس باختہ شخص سے حماقت کے سوا کسی اور چیز کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سے اسی طرح کی غلطی کے منتظر نہ صرف اکھلیش یادو بلکہ خود امیت شاہ بھی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں مودی کی عمر کے ضابطے اور قویٰ کی کمزوریوں کے سبب سبکدوشی کا چرچا خوب ہے اس لیے ان کی جا نشینی کے دونوں دعویدار امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان مسابقہ تیز ہوگیا ہے کیونکہ کب ایسے حالات بن جائیں کہ وزیر اعظم مودی کو جھولا اٹھا کر چل دینا پڑے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ابھی حال میں انڈیا ٹوڈے نے ’موڈ آف نیشن‘ نام کا جو جائزہ پیش کیا اس کے مطابق مودی کی جانشینی کے طور پر یوگی اور شاہ میں معمولی سا فرق یعنی صرف تین فیصد کا ہے اس لیے شاہ بھی پریشان ہیں اور اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے یوگی کو پریشان کرنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ جہاں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ سب کے سب مطلب کے یار تو ہوتے ہیں مگر موقع ملتے ہی وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ کسی زمانے میں اپنے راستے سے راجناتھ سنگھ کا کانٹا نکالنے کی خاطر آدتیہ ناتھ کو لانے والے امیت شاہ کی آنکھ کا کانٹا فی الحال وہی یوگی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بعید نہیں کہ اس کانٹے کو نکالنے کے لیے امیت شاہ خود راجناتھ سنگھ کا تعاون لینے پر مجبور ہو جائیں۔ غالب امکان یہ کہ انہیں راجناتھ کا تعاون مل جائے گا کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اترپردیش میں ان ٹھاکروں کو اپنا بنالیا ہے جنہیں راجناتھ بڑی محنت کر کے پارٹی میں لائے تھے۔ اپنے کھوئے ہوئے ووٹ بنک پر دوبارہ قبضہ جمانے کے لیے یوگی کو ٹھکانے لگانا راجناتھ سنگھ کے لیے لازمی ہوگیا ہے۔ خیر یہ وقت وقت کی بات ہے کہ کل کا دشمن آج کا دوست اور کل دوست آج کا دشمن ہو جاتا ہے۔
امیت شاہ اور راجناتھ کا دباو تو خیر داخلی ہے مگر اکھلیش یادو نے بہار جا کر جو جملہ پھینکا وہ یوگی کے لیے بڑا بھیانک ہے۔ انہوں نے بہاری عوام سے کہا کہ ہم نے بی جے پی کو اودھ سے بھگا دیا اور آپ لوگ اسے مگدھ سے بھگا دیں۔ یہ صرف ردیف قافیہ کا معاملہ نہیں ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کا زبردست افتتاح بھی سماجوادی پارٹی کے اکھلیش سنگھ پاسی کاو ہرا نہیں سکا۔ ایودھیا میں بی جے پی امیدوار کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ ہندو عوام اب مندر مسجد کے کھیل سے اکتا گئے ہیں۔ اودھ کا علاقہ جہاں ایک طرف رام کی نام نہاد جنم بھومی ہے وہیں بہار میں واقع سیتامڑھی رام چندر کی سسرال ہے۔ ایسے میں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر اودھ میں مندر کے باوجود بی جے پی کو ہرایا جا سکتا ہے تو مگدھ میں کیوں نہیں؟ اس لیے کہ بہار میں سیتا مندر کا خواب ابھی بہت دور ہے۔ ہندو عوام کو اس میں اس لیے بھی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہاں کسی مسجد کو ہٹا کر مندر نہیں بنایا جا رہا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی جے پی کو ہندو رائے دہندگان مندر بنانے کے لیے نہیں بلکہ مسجد ہٹانے کے لیے ووٹ دیتے تھے۔ اسی لیے یوگی نے سنبھل کی مسجد کا معاملہ اٹھایا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہندو ووٹرز اس فریب کاری کو سمجھ گئے ہیں۔
آر ایس ایس کو بھی غالباً اس کا احساس ہو گیا ہے اس لیے اپنی صد سالہ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے مندروں کے حوالے سے بہت گول مول باتیں کہیں۔ اول تو انہوں نے اپنا پرانا موقف یاد دلایا کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ نہ ڈھونڈا جائے اور یہ بھی واضح کیا کہ آر ایس ایس خود متھرا اور کاشی کی تحریک نہیں چلائے گی لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ مشورہ بھی دے دیا کہ وہ از خود یہ مساجد ہندووں کے حوالے کردیں۔ ان کے بیان کا دو تہائی حصہ تو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اب مندر مندر کے کھیل میں دم نہیں ہے لیکن پھر ہندو نواز عوام کی ناز برداری کے لیے آخری فقرہ بھی کہہ دیا۔ موہن بھاگوت نہیں جانتے کہ ملک کے ہندو عوام کی طرح مسلمانوں کو ڈرانا یا بہلا پھسلا کر ورغلانا آسان نہیں ہے۔ مسلمان بھگوا سنپولوں کی نس نس سے واقف ہیں اور کبھی بھی ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ بہار میں راہل تیجسوی یاترا کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ اب تو ہندو بھی ان کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ یوگی کو بھی اس کا احساس ہو گیا ہے مگر اس بے چارے نے پچھلے آٹھ سال میں ایسا کچھ کیا ہی نہیں کہ جس کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکے اس لیے سنبھل کو بنیاد بنانا یوگی کی سیاسی مجبوری ہے۔
نومبر کے مہینے میں سنبھل میں ہونے والے احتجاج میں پولیس فائرنگ سے پانچ مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ پولیس نے ان پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا اس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ وہاں پر پولیس کی موجودگی میں آخر کس نے اور کس کے کہنے پر گولی چلائی اور اس کے نتیجے میں بے قصور لوگ مارے گئے؟ ان حقائق کی تحقیق کے لیے ایک جوڈیشیل پینل تشکیل دیا گیا۔ اس کو چاہیے تھا کہ پتہ لگاتا کہ نچلی عدالت کے حکمنامہ پر پہلے سروے نہایت پرامن طور پر مکمل ہو جانے کے دو دن بعد اتوار یعنی چھٹی کے دن علیٰ الصبح دوسرا غیر قانونی سروے کیوں کیا گیا؟ اس میں کون کون غیر سرکاری لوگ شامل تھے؟ انہوں نے اشتعال انگیز نعرے لگا کر احتجاج کرنے لوگوں کو کیوں بھڑکایا؟ اس زیادتی کے خلاف پر امن مظاہرین پر گولی کس نے اور کیوں چلائی؟ اس پینل سے یہ توقع بھی تھی کہ وہ قاتلوں کے خلاف شواہد جمع کر کے ان کی شناخت کرتا اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کی سفارش کرتا لیکن افسوس کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران تشدد کی تحقیقات کے لیے عدالت کے حکم تشکیل شدہ پینل میں شامل ریٹائرڈ جسٹس دیویندر کمار اروڑا کی قیادت میں اروند کمار جین اور امت موہن پرساد نے اپنی 400 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سنبھل میں ان بنیادی سوالات کا جواب دینے کے بجائے ”آبادیاتی تبدیلی“ کا بیانیہ تیار کر کے ہندو آبادی میں کمی کو فسادات، فرقہ وارانہ کشیدگی اور خوشامدانہ سیاست سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی جبکہ یہ کام تو اس کو تفویض ہی نہیں کیا گیا تھا۔
مذکورہ بالا پینل نے اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی کے لیے یہ غیر ضروری انکشاف کیا کہ 1936ء اور 2019ء کے درمیان علاقے میں ہونے والے کم از کم 15 فسادات کے نتیجے میں 200 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ اس پینل کا اہم ترین ہدف چونکہ پولیس کے اوپر لگنے والے فائرنگ کے الزامات کو مسترد کرنا تھا اس لیے اس نے یہ بتایا کہ سنبھل میں نہ صرف ہندو-مسلم جھڑپیں ہوئی ہیں بلکہ غیر ملکی مسلمانوں (ترکوں) اور تبدیل شدہ ہندوؤں (پٹھانوں) کے درمیان بھی تنازعات ہوئے ہیں۔ صدیوں سے ہندوستان کی سرزمین پر رہنے بسنے والے ترک غیر ملکی کیوں کر ہوگئے اور نام نہاد ہندوؤں میں تبدیل شدہ پٹھان سے بی جے پی کو کیوں پیار آگیا؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ افغانستان کے پٹھانوں سے اپنائیت اور ترکستان کے ترکیوں کو غیر ٹھیرانے کی منطق مضحکہ خیز ہے۔ ہندوؤں کو آپس میں لڑانے کے لیے تو مکٹ منی کتھا واچک (داستان گو) کا یادو ہونا کافی ہے اور اس کا بدترین مظاہرہ ابھی حال میں خود اتر پردیش کے اٹاوہ میں ہو چکا ہے جہاں ایک نچلی ذات کے شخص کو اس جرم کی سزا کے طور پر میزبان خاتون کے پیشاب سے پاک کیا گیا اور اس کا روپیہ پیسہ بھی چھین لیا گیا جبکہ ایسی تفریق و امتیاز کا اسلام میں کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ حربہ کامیاب نہیں ہوگا۔ سارے مسلمان متحد ہو کر اپنی مسجد کا تحفظ کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظالموں سے نبرد آزما رہیں گے۔
مذکورہ بالا جھوٹ دراصل گزشتہ سال (16-12-2024) کو یوگی آدتیہ ناتھ کی تقریر سے ماخوذ ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ کسی تحقیق کے بغیر اتر پردیش اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن جو جھوٹ بولا گیا تھا وہ پینل کے رپورٹ کا حصہ بن گیا۔ یوگی نے بھی سنبھل میں فسادات کی تاریخیں بتاتے ہوئے 1947، 1948، 1958، 1962، 1978 کا ذکر کیا تھا۔ 1978 کے فسادات میں 184 ہندوؤں کو زندہ جلانے کا ذکر کرکے سب کو چونکا دیا کیونکہ ملیانہ کے قتل عام سے تو سب واقف ہیں لیکن سنبھل کی یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ اس وقت سنگھ پریوار تو موجود تھا کوئی اور نہیں تو وہی اس کی نقاب کشائی کر دیتا لیکن یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ یوگی کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد 1980، 1986، 1990، 1992، 1996 میں دوبارہ فسادات ہوئے لیکن اس دوران کلیان سنگھ اور راجناتھ سنگھ وغیرہ نے خود اور بی جے پی نے مایاوتی کی مدد سے بھی حکومت کی تو کیا وہ بھی فسادات کرواتی رہی؟ اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ کے پاس نہیں ہے۔ وہ تو صرف یہ کہہ کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے کہ این سی آر بی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 سے اب تک یو پی میں فرقہ وارانہ فسادات میں 95 فیصد کمی آئی ہے اور یہ دعویٰ بھی کر دیتے ہیں کہ یوپی میں 2017 کے بعد سے کوئی فساد نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ این آر سی بی جن پانچ فیصد فسادات کو تسلیم کرتا ہے وہ یوگی کو کیوں نظر نہیں آتے؟
یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اپنی پولیس کو بچانے کے لیے ترک و پٹھان کی لڑائی کا شوشا چھوڑا تھا جسے پینل نے من و عن درج کرلیا۔ انہوں نے مقامی رکن پارلیمنٹ ضیاءالرحمٰن برق کی ایک تقریر کا حوالہ دیا تھا جس میں برق نے کہا تھا کہ ’وہ ملک کے مالک ہیں نوکر نہیں‘ اس سے یہ مطلب نکالا کہ وہ خود کو آقا اور پٹھانوں کو غلام کہہ رہے ہیں۔ یہ تو ایسا ہے کہ اگر یوگی برہمنوں کو مخالطب کرکے کہیں کہ ’وہ انسان ہیں جانور نہیں‘ تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ برہمنوں کو جانور کہہ رہے ہیں۔ یہ پاگل پن نہیں تو کیا ہے اور ضیاءالرحمٰن برق کے مخاطب مسلمان نہیں ہندوتوا نواز تھے جو خود کو آقا اور مسلمانوں کو غلام سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ اس رپورٹ کا سب سے اہم جھوٹ یہ ہے کہ ’’آزادی کے وقت سنبھل میں ہندو آبادی 45 فیصد تھی جو اب گھٹ کر صرف 15 سے 20 فیصد رہ گئی ہے‘‘۔ اس کی بنیادی وجہ نقل مکانی اور ثانوی سبب تبدیلی مذہب ہے۔ سوال یہ ہے کہ ترک اور پٹھان یعنی مسلمان اگر آپس میں لڑ رہے ہیں تو وہاں سے ہندووں کو فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ یوگی اور مودی کی ڈبل انجن سرکار کے باوجود اگر ہندو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تو یہ کس کی ناکامی ہے؟ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی ہی قوم کو احمق اور بزدل بنا کر پیش کرنے سے قبل یوگی آدتیہ ناتھ اگر ٹھنڈے دماغ سے غور کر لیتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہوتا ہے تو اچھا ہوتا۔
اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سنبھل میں مسلسل ہندوؤں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے پیچھے غیر قانونی تبدیلی مذہب بھی کار فرما ہے۔ یہ تبدیلی مذہب قانونی اور غیر قانونی صرف ہندوستان میں ہوتا ہے کہانی یہ ہے کہ ہندوتوا نوازوں کے نزدیک غیر ہندوؤں کا ہندو بن جانا تو گھر واپسی ہونے کے سبب نہایت پسندیدہ عمل کہلاتا ہے جبکہ ان کا اپنا مذہب قانو چھوڑنا گناہِ عظیم بن جاتا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اس غیر اعلانیہ ہندو راشٹر میں ہندو قانونی یا غیر قانونی طور پر اپنا مذہب کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اس رپورٹ کو اعداد و شمار کو رکن پارلیمنٹ جاوید علی نے مردم شماری کے ریکارڈ کی روشنی میں رپورٹ کے دعوؤں کی تردید کردی۔ ان کے مطابق 1951 کی مردم شماری کے مطابق سنبھل کے شہری علاقے کی آبادی 61568 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 43667 یا تقریباً 71% اور ہندوؤں کی تعداد 17901 یا تقریباً 29% تھی۔2011 کی مردم شماری کے مطابق سنبھل شہری علاقے کی آبادی 220813 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 171514 یا تقریباً 78% اور ہندوؤں کی تعداد 48581 یا تقریباً 22% تھی۔1951 سے 2011 تک مسلمانوں کی آبادی میں 7% کا اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزگار اور بہتر تعلیم کی خواہش نے آس پاس کے دیہی علاقوں سے مسلمانوں کو شہر سنبھل کی طرف آنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ 1986 میں میونسپل علاقے کی حد بندی ہوئی تو اس کے تحت شہر کے آس پاس کے کچھ گاؤں میونسپل ایریا میں شامل کیےگئے۔ اس کا مطلب ہے کہ تناسب بدلا ہی نہیں۔ جاوید علی نے تو یوگی کے جھوٹ کی اس طرح ہوا نکال دی کہ اب وہ اپنے پنکچرڈ بلڈوزر سے اگلا الیکشن نہیں جیت سکیں گے اور سائیکل اس کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |