سماج میں انقلاب لانے کے لئے اندھ وشواس کا خاتمہ لازمی

فرضی باباؤں اور دھرم گروؤں کے پاکھنڈپر چہار طرف بحث و مباحثہ ۔عوام کو جاگنا ہوگا

شہاب فضل،علی گڑھ

اقتدار پر قابض رہنے کے لئےسیاسی جماعتیں سماج میں توہم پرستی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔بیداری ضروری : ڈاکٹر روپ ریکھا ورما
اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں گزشتہ 2 جولائی کو سورج پال عرف نارائن ساکار ہری عرف بھولے بابا کے ست سنگ میں مچنے والی بھگدڑ اور دو سو سے زائد اموات نے ایک بار پھر بھارت میں فرضی باباؤں اور دھرم گروؤں کے پاکھنڈ پر چہار طرفہ بحث و مباحثہ کا ماحول پیدا کیا ہے ، جس سے یہ حقیقت اجاگر ہوئی ہے کہ بھارتی سماج میں توہم پرستی، ڈھونگ، اندھی عقیدت اور ’دھرم‘ کے نام پر ’ادھرم‘ کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے ۔ آستھا اور عقیدت کے نام پر اس استحصالی کاروبار کے بڑھتے ہوئے جال کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ڈھونگی باباوؤں کے پیروکار اور ان کے حواری ان کے خلاف قانونی کارروائیوں کی راہ میں بھی حائل ہورہے ہیں اور عقل سے پردہ ہٹانے کی کوشش کرنے والوں پر حملے کرنے سے بھی وہ باز نہیں آتے۔ سوشل میڈیا بشمول ایکس (ٹوئٹر)، فیس بک، انسٹاگرام ، یوٹیوب پر تفتیشی رپورٹیں پیش کرنے والے آزاد صحافیوں کو ملنے والی کھلی دھمکیاں اور ٹرولنگ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ہاتھرس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بڑے طبقہ نے پاکھنڈی باباوؤں کے کرتوتوں کو اجاگر کیا اور سماج میں تعقل پسند ی اور سائنسی فکر کو جِلا بخشنے کی اپیل کی ہے۔ اس سلسلہ میں راشٹریہ بدھسٹ پارٹی آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے رکن اور اترپردیش کے کوآرڈنیٹر مسٹر جے سنگھ سمن جی کا کہنا ہے کہ ’’ سماج میں غریب اور کم پڑھے لکھے لوگ باباوؤں کے چکر میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔بھوت پریت اور دیویا شکتی یعنی روحانی طاقت پر انہیں زیادہ یقین ہوتا ہے۔ خاص طور سے عورتیں ان سے زیادہ جڑتی ہیں ۔ ہاتھرس میں بھگدڑ میں مرنے والوں میں 113 عورتیں تھیں۔ حکومت ان کے لیے تعلیم کا بندوبست نہیں کرتی، جس کی وجہ سے وہ اندھ وشواس اور توہم پرستی کے جال سے باہر نہیں نکل پارہی ہیں‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی ڈھونگی دھرم گروؤں کے چکر میں پڑجاتے ہیں اور بہت کچھ گنوا بیٹھتے ہیں یہ کیا معاملہ ہے؟ تو سمن جی نے کہا کہ کاروباری باباؤں کا مکڑ جال ایسا ہوتا ہے کہ ادھ کچے لوگ پھنس جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فرضی باباوؤں کا سوانگ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی عقیدت میں اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرپاتے۔ اسی لیے باباوؤں کی اچھی خاصی تعداد آج جیلوں میں ہے مگر سماج میں اندھ وشواس اتنا زیادہ ہے کہ اس سلسلہ پر روک نہیں لگ پارہی ہے۔ لہٰذا جب تک لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے اور خاص طور سے عورتوں کی تعلیم پر دھیان نہیں دیا جائے گا، باباؤں کے جیلوں میں جانے کے باوجود ست سنگوں اور سماگم کے نام پر بھارتی عوام کے ساتھ دھوکا ہوتا رہے گا۔
آرٹ اور ثقافت کے شعبہ سے وابستہ علی گڑھ کے ڈاکٹر راجیو پرچنڈیا اس مظہر کو آتم وشواس یعنی خود اعتمادی کی کمی کا نتیجہ بتاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ سنتوں اور مہنتوں کے پیچھے چلنے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ سماج میں اور گھروں میں آج مسائل بہت ہیں۔ ان سے پریشان لوگ کئی ایسے فرضی لوگوں سے جڑ جاتے ہیں جو سوانگ رچاکر لوگوں کو پھنسانے کا ہنر جانتے ہیں ۔انسان سوچتا ہے کہ مہنت یا کوئی خاص فرد ہمارا مسئلہ حل کردے گا۔ جب تک آس لگانے والوں کی آنکھیں کھلتی ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ کئی بابا تو آبروریزی ، قتل اور غنڈہ گردی کے الزامات میں آج جیل کی ہوا کھارہے ہیں ۔مگر آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سزا یافتہ باباؤں تک کی عقیدت میں اندھے بنے ہوئے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر فرضی بابا اور پاکھنڈی دھرم گرو گلی گلی اور گاؤں گاؤں کیسے جنم لے رہے ہیں اور ان کا کاروبار کیسے پھل پھول رہا ہے؟ایک ایکس یوزر دیویا کماری نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جب یہ سوال اٹھایا تو کافی لوگ ان کی تائید میں اور کچھ لوگ ان کی مخالفت میں کمنٹ کرنے لگے۔ انہوں نے لکھا ’’ آجکل بابا والا کاروبار بہت پھل پھول رہا ہے۔ ان پر نہ تو کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ انہیں کوئی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے اب تو بچے بھی بابا بن کر لوگوں کو بیوقوف بنانے کے دھندے میں لگ گئے ہیں‘‘۔ انہوں نے جو ویڈیو شیئر کیا اس میں ایک لڑکا بابا کے بھیس میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے ’’آپ اپنے بچے کو اسکول کیوں بھیجتے ہیں؟ اسکول اچھی جگہ نہیں ہوتی، اسکولوں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ یہ سب امریکہ کی سازش ہے۔۔۔۔‘‘
ہاتھرس سانحہ کے بعد حالانکہ میڈیا نے اس معاملہ کی جانچ پڑتال کی اور کئی تفتیشی رپورٹوں کے ذریعہ نام نہاد بھولے باباؤں کے مشکوک پس منظر اور فریبی کاروبار کا پردہ فاش کردیا مگر ایسے باباؤں کی سیاسی اور حکومتی سرپرستی کے پہلو کو چھونے سے مین اسٹریم میڈیا ہاؤس تک کتراتے ہیں۔حالانکہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے اس پہلو کو ٹچ کیا اور سماج کے اندھ وشواس کی اصل وجوہات پر بھی روشنی ڈالی۔
برہمن واد کے خلاف مہم چلانے والے ڈاکٹر ولاس کھرات نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس مسئلہ کا ایک سنگین پہلو اجاگر کرتے ہوئے لکھا’’سبھی طرح کے اندھ وشواس کی جننی برہمن واد ہے‘‘۔ اس حوالے سے انہوں نے کئی ویڈیو شیئر کیے ہیں۔ ان کی کئی باباؤں کے سوانگ کا ذکر کیا ہے ۔ان کے بقول باگیشور دھام کے دھیریندر شاستری کو آر ایس ایس اور بھاجپا تحفظ د ے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ولاس نے قبائلی عوام کو اس اندھی عقیدت کا شکار بنائے جانے کی بھی مثالیں دیتے ہوئے کئی ویڈیو شیئر کی ہیں۔
ایک دیگر ایکس یوزر مسٹر مہیش والمیکی نے بابا نما ایک شخص کی ویڈیو اپنے اکاؤنٹ سے شیئر کی ہے جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے: ’’برہمن منوشیہ میں نہیں آتے،یہ دیوتاؤں میں آتے ہیں کیونکہ یہ رشیوں کی سنتانیں ہیں ، اس لیے برہمن دیوتا ہوتا ہے ۔ یہ اس دھرتی کے نہیں ، برہم لوک کے رہنے والے ہیں۔ آج بھی تینوں ورن برہمن کے آگے جھکتے ہیں‘‘۔
بامسیف نے ایکس اکاؤنٹ سے ایسے سماجی مصلحین کی حوصلہ افزائی ان الفاظ میں کی ہے:’’دھرم کے نام پر چل رہے پاکھنڈ کا پردہ فاش کرنا ہی دھرم کہلاتا ہے اور ایسے پاکھنڈ کا ساتھ دینا ادھرم ہے ‘‘۔ شودر نام کی مشہور فلم ایسے ہی پاکھنڈ کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی گئی تھی ۔ مولیٹیکس ڈاٹ اِن کے نام سے نویدیتا شانڈلیہ فرضی باباؤں کے خلاف بہت کھل کر بولتی ہیں اور ان کے جرائم کو آشکارا کرنے میں لاگ لپٹ سے کام نہیں لیتیں ۔ حال ہی میں انہوں نے ہریانہ کے مشہور گرو رام پال کے خلاف مہم چھیڑی ۔ ان کی ویڈیو ٹرینڈ بھی ہوئی تھی ۔رام پال وہی بابا ہے جسے 2014 میں حصار میں اس کے ست لوک آشرم سے گرفتار کرنے میں ہریانہ پولیس کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔بالآخر 2014 میں ایک بچے اور چار خواتین کے قتل کے معاملہ میں گرفتار ہونے والا رام پال اور اس کے بیٹے سمیت دیگر ملزم عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ ست لوک آشرم میں جنسی استحصال اور اسقاط حمل کے معاملات ہوتے تھے۔ اس وقت حصار ڈویژن کے آئی جی انل راؤ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پولیس کے سرچ آپریشن میں ست لوک آشرم سے بھاری تعداد میں اسلحہ کا ذخیرہ برآمد ہوا تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ فرضی باباؤں کے آشرم غیرقانونی سرگرمیوں کا بھی اڈّہ ہو سکتے ہیں۔ یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ رام پال کے مقدمہ میں ٹرائل کورٹ کے ایڈیشنل ضلع و سیشن جج دیش راج چالیانے کہا تھا کہ’’ دھرم کی آڑ لے کر جرم کی سزا سے بچ نہیں سکتے ۔ جو سزا دی جارہی ہے وہ ثبوتوں اور قوانین کے مطابق ہی دی جارہی ہے۔ جرم کی سزا بھگتنی ہوگی‘‘ ۔
سماج میں سائنسی فکر اور تعلیم کی ترویج و اشاعت پر زور دینے والے مسٹر جے سنگھ سمن جی کہتے ہیں کہ سماج کی فکری غربت کہیں نہ کہیں فرضی اور ڈھونگی باباؤں کے پنپنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہمارے یہاں تعلیم کی حالت خستہ ہے اور کریٹیکل تھنکنگ یعنی تنقیدی فکر کو پنپنے نہیں دیا جاتا ، دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جان بوجھ کر ایسا کیا جارہا ہے تاکہ لوگ ذہنی غلام بنے رہیں اور ان کا استحصال کیا جاسکے۔
لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر اور ساجھی دنیا نامی تنظیم چلانے والی ڈاکٹر روپ ریکھا ورما نے اس سلسلہ میں کہاکہ بھارت میں اس وقت اندھ وشواس کو بڑھاوا دینے میں آر ایس ایس نمبر ایک پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سنگھ سے جنم لینے والی پارٹی جو اس وقت مرکز میں برسر اقتدار ہے اس کے لیڈران اندھی دھارمکتا کو بڑھانے میں اپنا فائدہ سمجھتے ہیں ، لہذا توہم پرستی، اندھی عقیدت اور نامعقولیت کا بڑھاوا ملنا اور ایسے عناصر کی سیاسی سرپرستی کوئی حیرت کی بات نہیں۔
انہوں نے سماج کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے کہاکہ حکومت یا کوئی سیاسی پارٹی اگر استحصال کو مضبوطی عطا کرتی ہے تو ہمیں اس پر غور و فکر کرنا چاہیے ، یہ عام آدمی کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا سماج کدھر جارہا ہے اور اندھی عقیدت میں ہم کہیں اپنا ہی نقصان تو نہیں کررہے ہیں!

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024