سفارتی تنہائی کا کرب اور عالمی تنقید کی ضرب

وشو گرو کا دعویٰ کرنے والی سرکار عالمی حمایت سے محروم کیوں ہوگئی؟

0

ڈاکٹر سلیم خان

سفارت کے بجائے سیلفی کلچر؟ وزیر اعظم کی ترجیحات پر سوالیہ نشان !
وزیر اعظم نریندر مودی کا شمار اپنی مدتِ کار میں سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کرنے والے ہندوستانی وزرائے اعظم میں ہوگا۔ان کے پیش رو منموہن سنگھ نے اپنے دس سالوں میں جملہ 73 غیر ملکی دورے کیے تھے لیکن پہلگام حملے کے وقت نریندر مودی سعودی عرب کے اپنے 88ویں بیرونِ ملک دورے پر تھے۔ اس کو ادھورا چھوڑ کر تو موصوف لوٹ آئے لیکن اس کے بعد جب جنگ کی صورت حال رونما ہوئی تو ان دوروں کی قلعی کھل گئی۔ ہوا یہ کہ دوران جنگ آئی ایم ایف کے ذریعہ پاکستان کی امداد کا موقع آگیا۔ ہندوستان آئی ایم ایف کے 25 رکنی بورڈ کا ایک ممبر ہے جبکہ پاکستان وہاں موجود ہی نہیں ہے۔ حکومت ہند نے پاکستان کو قرض کے اجرا کی مخالفت میں اس کی خراب کارکردگی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت لاگو کی جانے والی اصلاحات پر عمل درآمد میں ناکامی کا حوالہ دیا نیز، یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ یہ فنڈ ’ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشت گردی‘ کے لیے استعمال ہو گا۔ اس کے باوجود ایک بھی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں آیا تو پتہ چلا کہ ؎
کوئی ہمدم نہ رہا ، کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے ، کوئی ہمارا نہ رہا
پہلگام کے تناظر میں جاری کشمکش کے حوالے سے ہندوستان کی جانب سے عالمی برادری کو عار دلاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو قرض دے کر آئی ایم ایف نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاونین کی ’عزت کو داؤ‘ پر لگا رہا ہے اور یہ بین الاقوامی اقدار کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ حربہ بھی ناکام رہا اور آئی ایم ایف کی انتظامیہ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر قرض کی دوسری قسط جاری کرتے ہوئے ہندوستانی دلائل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پاکستان سختی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کر رہا ہے اور اس کے باعث وہ معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ عالمی ادارہ یہیں نہیں رکا بلکہ آگے بڑھ کر مستقبل میں تقریباً 1.4 ارب ڈالر کے مزید فنڈز کی یقین دہانی بھی کر دی۔ اس کے بعد ووٹنگ ہوئی تو ایک بھی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں آیا اور خود ہندوستان بھی مخالفت کا ووٹ نہیں ڈال سکا کیونکہ وہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان پر مشتمل چار ملکی گروپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ممکن ہے ان کی حمایت نہ ملنے کے سبب ایسا کرنا پڑا ہو۔
2005 میں خود ہندوستان زمبابوے اور 2016 میں روس یوکرین کے معاملے میں مخالفت کا ووٹ دے چکے ہیں۔ حالیہ ہزیمت میں بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے پڑوسی ملکوں کے عدم تعاون کا بھی حصہ ہے۔ دہشت گردی کی بنیاد پر آئی ایم ایف کے قرض کو روکنے کے لیے ایکزیکٹیو بورڈ میں اعتراض درج کرنا مشقِ لاحاصل ہے کیونکہ اقوام متحدہ فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کو ’گرے لسٹ‘ یا ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالا جائے۔ ان فہرستوں میں شامل ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد سے از خود محروم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کو کسی زمانے میں اس فہرست میں شامل ہونے کے سبب آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی تھی لیکن شدت پسندی کے خلاف بہتر اقدامات کے نتیجے میں 2022 سے پاکستان کو باقاعدہ طور پر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
سوویت یونین جب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا تو دو قطبی دور کا خاتمہ ہوا اور سارے عالم کا واحد قبلہ امریکہ ہوگیا۔ امریکی استعمار کے خلاف پچھلے چند سالوں میں ’برکس‘ نامی ایک وفاق عالمِ وجود میں آیا۔ اس کی ابتدا کرنے والے پانچ ممالک میں ہندوستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ برازیل، روس، چین اور جنوبی افریقہ بھی اس کا حصہ تھے لیکن جب یہ وفاق تعاون و خوشحالی ایک طاقتور آواز بنا تو ایران اور سعودی عرب جیسے کئی ممالک اس میں شامل ہوگئے۔ غزہ میں اسرائیل کی بدترین جارحیت نے ان سارے ممالک کو امریکہ کے علاوہ اسرائیل کے بھی مخالف بنا دیا۔ جنوبی افریقہ نے تو عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ تک دائر کر دیا اور نیتن یاہو سمیت اسرائیلی وزیر دفاع کے خلاف قتل عام کے الزام کا وارنٹ نکلوا دیا۔ ایسے میں دنیا سے الگ تھلگ اسرائیل سے ہندوستان نے دوستی کے وقار کو نقصان پہنچایا اور راندۂ درگاہ اسرائیل کے سوا کوئی ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ اسرائیل تو پہلے ہی عالمی سطح پر اچھوت بنا ہوا ہے۔ ایسے میں مودی اور نیتن یاہو کی رام ملائی جوڑی پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
فی الحال امریکہ بھی اسرائیل سے دامن جھٹکتا دکھائی دے رہا ہے اور ہمارے پرانے دوست روس نے ہندوستان سے منہ موڑ رکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ روس کے بجائے فرانس جیسے ممالک سے اسلحہ خریدنا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہند پاک تنازع کے دوران پوتن پاکستان کے حامی ژی جن پنگ کے ساتھ چائے پیتے دکھائی دیے۔ ٹرمپ بجا طور پر برکس کو امریکہ کے لیے مصیبت سمجھتے ہیں۔ مودی کی موجودگی میں انہوں نے برکس کی موت کا اعلان کیا تو موصوف تردید کرنے کے بجائے مسکرا دیے اور پھر امریکہ کی خوشنودی کے لیے ڈالر کے متبادل برکس کی کرنسی استعمال کرنے سے انکار کرکے اعتماد گنوا بیٹھے۔ ہندوستان کے کمزور موقف نے روس، چین، برازیل اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر امریکی استعمار کے مخالفین کو ہم سے دور کر دیا۔
برکس میں ہندوستان کو کمزور کرنے کے بعد امریکہ گوناگوں وجوہات کی بنا پر اپنے قدیم ساتھی پاکستان کی حمایت میں چلا گیا۔ چین پہلے ہی اس کے ساتھ تھا اور روس بھی چین کی رفاقت میں اعتدال پسندی کی راہ پر چل پڑا۔ فرانس نے رافیل طیارے کے گرنے کی خبر سے پریشان ہو کر اپنی کمزوری تسلیم کرنے کے بجائے الٹا ہندوستانی ہوا بازوں کو موردِ الزام ٹھیرا دیا۔ اس طرح ہندوستان کی ’نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم‘ جیسی حالت ہوگئی۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں 120 سے زیادہ غیر جانب دار ممالک کے تین سربراہوں میں سے ایک پنڈت نہرو تھے، یعنی اتنے سارے ممالک کی حمایت ہمیں حاصل تھی۔ سوال یہ ہے کہ پھر اچانک پچھلے گیارہ سالوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ کوئی بھی ’دوست دوست نہ رہا‘۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو خارجہ معاملات میں دلچسپی ہی نہ ہو بلکہ ان پر تو غیر ملکی دوروں کا جنون سوار رہتا ہے۔ ایوان پارلیمنٹ کی تفصیلات کے مطابق جون 2023 تک پانچ سالوں میں سرکاری خزانے سے ان کے دوروں پر 254 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان دوروں کے باوجود یہ حالت کیوں ہوئی؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کی سرگرمیوں میں چھپا ہوا ہے۔
وزیر اعظم جب بھی باہر کا قصد کرتے ہیں ان کی نمایاں سرگرمیوں میں سے غیر ملکی سربراہان مملکت کے ساتھ والہانہ انداز میں بغل گیر ہوجانا ہے۔ ہندوستانیوں سے تو وہ مصافحہ بھی بے دلی سے کرتے ہیں لیکن باہر والا ہو تو معانقہ سے کم پر راضی نہیں ہوتے الاّ یہ کہ کسی خاتون سے سربراہ سے سابقہ پیش آجائے۔ ان میں بھی اگر کوئی اٹلی کی جارجیا میلونی جیسی مل جائے تو سیلفی کے ساتھ ’میلوڈی‘ کا چھچورا کیپشن گردش کرنے لگتا ہے۔ ایسی سطحی حرکتوں کا میڈیا میں چرچا تو ہوتا ہے مگر سفارتی تعلقات اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ مشکل گھڑی میں کام آئیں۔ ایونٹس کے شہنشاہ وزیر اعظم نریندر مودی نے غیر ملکی دوروں کو بھی اپنی انتخابی تشہیر کا ایک موثر ذریعہ بنایا۔ دورے سے قبل پیشہ ور رابطہ عامہ کے لوگوں کی مدد سے وہاں موجود ہندوستانیوں کی زبردست تقریب ایک لازمی عنصر ہے۔ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر سے اس کی ابتداء ہوئی۔ وزیر اعظم چونکہ امریکہ میں داخلے پر پابندی کے بعد پہلی بار پہنچے تھے اس لیے یہ عالمی جشنِ فتح قرار پایا۔ انہوں نے وہاں سو دن کے اندر ملک کی تقدیر بدل دینے کا خواب بیچا جو دس سال بعد بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پھر اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پہلے لوگ خود کو ہندوستانی کہنے سے شرماتے تھے مگر اب فخر کرتے ہیں۔ ان تقریبات کی براہِ راست نشریات نے ملک کے اندر نریندر مودی کو وشو گرو بنا دیا اور اس کا انتخابی فائدہ بھی ہوا مگر ان کا عالمی سفارت کاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور وہ حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ وزیر اعظم کے دوروں کی ایک خصوصیت ان کا تجارتی پہلو تھا۔ ایک زمانے تک تو گوتم اڈانی سائے کی مانند ان کے ساتھ رہتے ہوئے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہوگئے۔ لیکن اب وہی مودی کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے خلاف امریکہ میں بد عنوانی کا وارنٹ کا ٹرمپ انتظامیہ غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔ رافیل جہاز خریدنے کے لیے وزیر اعظم مودی جس انل امبانی کو ساتھ لے گئے تھے وہ بے چارہ آگے چل کر دیوالیہ ہوگیا۔
وزیر اعظم کے دوروں سے میزبان ممالک نے اپنا مال بیچا اور سرمایہ دار بھی مالا مال ہوئے مگر تجارت اور سفارت کا فرق پہلگام کے بعد ہند پاک تنازع میں واضح ہو گیا۔ ٹرمپ کی تجارت نہ کرنے کی دھمکی نے جنگ رکوادی، اس سے ناقدین کے علاوہ حامیانِ مودی کا بھی دل ٹوٹ گیا اور ہر کوئی پوچھنے لگا ’قومی مفاد پر مالی فائدے کو ترجیح دینا‘ کون سی قوم پرستی ہے۔’راجہ بیوپاری تو پرجا بھکاری‘ والا محاورہ بھی زیرِ بحث آگیا۔بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کے مطابق ماضی میں حکومتِ ہند عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے بہت محنت کرتی تھی۔ ممبئی کا دہشت گرد حملہ یا کارگل کی جنگ کا حوالہ دے کر وہ کہتے ہیں کہ حکومتِ ہند نے ان مواقع پر پاکستان کے خلاف پہلے بے شمار شواہد جمع کیے اور انہیں ساری دنیا تک پہنچا کر ثابت کیا کہ ان میں پاکستان ملوث ہے۔
پاکستانی جارحیت کے ثابت ہو جانے پر بغیر فوج کشی کے اسے پوری دنیا میں یکہ و تنہا کیا جا سکتا ہے مگر ایسا کرنے سے گھر میں گھس کر مارنے کا سیاسی فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ پہلگام کے دہشت گردوں کی چونکہ گرفتاری نہیں ہوئی اس لیے ان کا سرحد پار رشتہ ثابت نہیں ہو سکا اور عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے الزامات کے ساتھ شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سابق فوجی افسر اور دفاعی امور کے ماہر پروین ساہنی کے مطابق حملے کی ابتدا کرنے والے کے لیے عالمی رائے عامہ کی ہمواری قدرے وقت طلب ہوتی ہے اور کسی ملک کا محض دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ کرنے کے لیے بھی دوسرے ملک میں جانا اس کی خود مختاری کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں درکار تیاری کے بغیر اقدام نے ہندوستان کو الگ تھلگ کر دیا اور مشکل کی گھڑی میں جب ضرورت پڑنے پر کوئی ساتھ نہ آیا تو پھر سے مجروح سلطانپوری کا وہ نغمہ یاد آگیا؎
شام تنہائی کی ہے آئے گی منزل کیسے
جو مجھے پھر سے بلا لے وہ اشارہ نہ رہا
وزیر اعظم نریندر مودی اگر آپریشن سندور سے قبل کل جماعتی نشست میں شریک ہوکر حزب اختلاف سے صلاح و مشورہ کرتے تو یقیناً ان کو یہ سمجھایا جاتا کہ اقدام سے قبل رائے عامہ ہموار کی جائے لیکن وہ تو بہار چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مودی سرکار کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا ہے اور اس نے پاکستان کے بیانیے کاسدِ باب کرنے کے لیے پہلگام دہشت گرد حملے اور اس کے بعد ہونے والے ‘آپریشن سندور’ پر اپنا موقف بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل نمائندہ وفود روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مندوبین امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم ممالک کا سفر کریں گے۔ ہر وفد میں پانچ سے چھ ارکان پارلیمنٹ شامل ہوں گے۔ ان وفود میں حکم راں اتحاد این ڈی اے کے علاوہ حزب اختلاف انڈیا کے ایم پی بھی موجود ہوں گے۔ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دوروں کو منظم کریں گے اور یہ اسفار پہلگام حملے کے ٹھیک ایک ماہ بعد 22 مئی 2025 سے شروع ہو سکتےہیں۔ ان غیر ملکی دوروں کا مقصد دہشت گردی کے خلاف حکومتِ ہند کی پالیسیوں اور سخت موقف کو مزید واضح کرنا ہے۔ ان وفود کے لیے ششی تھرور اور اسدالدین اویسی سمیت کئی ارکان کے ناموں کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
یہ لوگ دنیا بھر میں جا کر ہندوستان کا موقف سمجھائیں گے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک بھی ثابت کر دیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ میں جا کر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کون سمجھائے گا؟ اس لیے کہ فی الحال وہی سب سے بڑی مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے دوستِ خاص نے سب سے پہلے ٹویٹ کر کے جنگ بندی کا کریڈٹ لے لیا۔ اس کے بعد ہندوستان کی وضاحت کے باوجود بھی کہ یہ جنگ بندی پاکستان کی گزارش پر باہمی گفت و شنید سے ہوئی۔ مودی کی تقریر سے قبل ٹرمپ نے اپنا موقف دہرادیا اور بے چارے مودی اس کی تردید تو دور امریکہ کا نام تک نہیں لے سکے۔ ٹرمپ کے علاوہ ثالثی کی بات کرنے والے نائب صدر وینس اور وزیر خارجہ مارک روبیو کو جھٹلانا مشکل ہے۔ ان کو سمجھانے کی صلاحیت وزیر اعظم میں تو نہیں ہے البتہ راہل گاندھی کے اندر ہے۔ تو کیا انہیں کل جماعتی وفد میں شامل کر کے امریکہ کی سفارتی مہم پر بھیجا جائے گا؟ لیکن ذاتی شبیہ کو قومی مفاد پر ترجیح دینے والے وزیر اعظم سے یہ توقع کرنا فضول ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومتِ ہند کی جانب سے حزب اختلاف کو ساتھ لے کر سفارتی پہل کی گئی ہو۔ اس سے قبل نرسمہا راؤ حکومت نے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں ایک وفد بھیجا تھا لیکن نرگسیت کا شکار نریندر مودی بھلا اس روایت کی پاسداری کیسے کر سکتے تھے؟ ان کے لیے تو ایسا کرنا گویا خود کی توہین کروانے کے مترادف ہے اس لیے وہ نرسمہا راو نے جس طرح اٹل بہاری واجپائی کو روانہ اقوام متحدہ روانہ کیا تھا ویسے راہل گاندھی کو امریکہ نہیں بھیج سکتے۔ خیر عالمی تنہائی کے احساس نے مودی کو کم ازکم اپنے خول سے باہر نکل کر دیکھنے کی توفیق دی اور انہوں نے دیر سے سہی ایک قابلِ ستائش فیصلہ کیا۔ مگر یہ مودی کے دعویٰ ’ایک اکیلا سب پر بھاری‘ کی عملی تردید ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی پر فی الحال مجروح سلطانپوری کا یہ مشہور شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
میں اکیلا تو چلا تھا جانب منزل مگر
کوئی ساتھ نہ آیا لہٰذا کارواں بن نہ سکا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 وزیر اعظم نریندر مودی اگر آپریشن سندور سے قبل کل جماعتی نشست میں شریک ہوکر حزب اختلاف سے صلاح و مشورہ کرتے تو یقیناً ان کو یہ سمجھایا جاتا کہ اقدام سے قبل رائے عامہ ہموار کی جائے لیکن وہ تو بہار چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مودی سرکار کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا ہے اور اس نے پاکستان کے بیانیے کاسدِ باب کرنے کے لیے پہلگام دہشت گرد حملے اور اس کے بعد ہونے والے ’آپریشن سندور‘ پر اپنا موقف بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل نمائندہ وفود روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مندوبین امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم ممالک کا سفر کریں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025