سحری، افطار اور قیام اللیل سائنس کی روشنی میں

رمضان المبارک میں جن عبادات کا خصوصی حکم ہے ان میں کئی بہترین صحت کے راز پوشیدہ

فواد کیفی، علی گڑھ

ہم عموماً سنتے اور پڑھتے ہیں کہ رمضان بہت برکتوں والا مہینہ ہے اور اللہ ہر روزہ دار کا اجر خود اپنے پاس سے عطا کرے گا۔ روزہ کو ڈھال کہا گیا، روزہ دار کے منہ کی خوشبو کو مشک سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا گیا، ہم یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ روزہ کی سحری کھانے میں بڑی برکت رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ افطار میں اللہ ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے جو ہمارے لیے کس قدر زیادہ فائدہ مند ہیں یہ ہم آج اس مضمون میں تحقیق کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر اس مہینے کی راتوں میں ہم طویل قیام اللیل بھی کرتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ آخر اس کے سائنسی فائدے کیا کیا ہیں؟
روزہ اور سائنس
1994 میں ’رمضان اور صحت‘ کے موضوع پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس مراقش میں منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر سے پچاس تحقیقی مقالے پڑھے گئے۔ ان تمام باتوں سے ایک بات سامنے آئی کہ روزہ صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ جبکہ بہت سے حالات میں روزہ مکمل طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ روزہ، امت مسلمہ کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے وہ تمام یا زیادہ تر بیماریوں کو ختم کر سکتی ہیں یا بہت حد تک کم تو کر ہی سکتی ہے شرط یہ ہے کہ اسے عین اسلامی طریقے سے رکھا جائے۔
روزہ کیموتھراپی کی طرح مؤثر: گزشتہ چند سالوں میں روزے کے بارے میں ہونے والی کئی تحقیقوں میں سے ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ روزہ، یعنی ایک دن میں طویل عرصے تک کھانے پینے کو روکنا، کیموتھراپی chemotherapy کی طرح مؤثر ہے۔ روزہ کیموتھراپی کے اثر کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر روزے سے کیموتھراپی کی جائے تو اثر بہتر ہوتا ہے۔ روزہ ہمارے جسم کے لیے کرو یا مرو کی صورت حال پیدا کرتا ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ کچھ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ انسولین کے خلاف مزاحمت اور سوزش کو کم کرکے کینسر سے لڑنے میں مؤثر ہے۔ روزہ موٹاپے اور ٹائپ-2 ذیابیطس کو ختم کر سکتا ہے، جو کینسر cancer کے خطرے کے عوامل ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مدافعتی نظام defense system مضبوط ہوتا ہے۔ جب ہمارے جسم میں بہت زیادہ خوراک ہوتی ہے تو ہمارے خلیے انسولین لیتے ہیں۔ وہ حساس ہو جاتے ہیں، یعنی ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی چیز بہت زیادہ ہو تو آپ اس کی تعریف نہیں کرتے، اسی طرح اگر آپ بہت زیادہ کھاتے ہیں تو خلیے گلوکوز کو زیادہ سے زیادہ جذب نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے گلوکوز خون میں رہ جاتا ہے اور ذیابیطس diabetes بن جاتی ہے۔
روزے کے دیگر فائدے: روزے کی وجہ سے کھانا جسم میں داخل نہیں ہوتا تو جسم توانائی جمع کرنے لگتا ہے۔ شروع میں روزے کی حالت میں جسم بے چینی محسوس کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ روزے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ جو لوگ 12 سے 13 گھنٹے تک کچھ نہیں کھاتے، ان کے جسم میں صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے، جسے آٹوفیجی کہتے ہیں۔ جسم بے کار خلیات کو صاف کرنے لگتا ہے۔ بھوک اور روزہ نئے خلیات کی تشکیل میں فائدہ مند ہیں۔ جاپانی سائنس داں یوشینوری اوسیمو کو 2016 میں آٹوفجی کی دریافت پر نوبل انعام ملا تھا۔
روزہ اور آٹوفوجی: روزہ ہمارے جسم کے آٹوفیجی موڈ کو بھی آن کرتا ہے۔ یعنی جب جسم کو خوراک نہیں ملتی تو وہ اپنے اندر موجود ایسے خلیات اور غذائیت کو کھانا شروع کر دیتا ہے جو بعد میں ٹیومر بن سکتے ہیں۔ آٹوفیجی جتنی مضبوط ہوگی، ٹیومر اتنی ہی تیزی سے ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس بھی ہو سکتا ہے جب آپ اپنی خوراک کو خراب کرتے ہیں، یعنی یہ تمام بیماریاں آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اگر آپ روزہ رکھیں اور سحرو افطار کے دوران بہت زیادہ جنک فوڈ اور پراسیس فوڈ کھائیں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر بھوکے رہنے کے بعد آپ یہ چیزیں بڑی تعداد میں کھائیں گے اور اس سے روزے کے اثرات کی نفی ہو جائے گی۔
روزہ کی حالت میں ہمارے جسم پر پڑنے والے اچھے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام ذہن اس پر یقین نہیں کرے گا، لیکن یہ اللہ کی خاص عنایات ہیں جو روزہ دار کو نصیب ہوتی ہیں۔ آئیے سائنسی اعتبار سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
نظام ہضم (Digestive system): سب سے پہلے بات کرتے ہیں نظام انہضام کے بارے میں۔ اس نظام میں دانت، زبان، گلا، فوڈ پائپ، معدہ، چھوٹی آنت اور بڑی آنت شامل ہیں۔ جب ہم کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو دماغ اس پورے نظام کو عمل میں لاتا ہے۔ اور یہ پورا نظام اس وقت تک متحرک رہتا ہے جب تک کھانا مکمل طور پر ہضم نہ ہو جائے۔ یعنی دن میں تین بار کھانے کا مطلب یہ ہے کہ نظام ہاضمہ چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے۔ نظام انہضام کی مسلسل سرگرمی اور کھانے کی خراب عادتیں اس نظام کو خراب کر دیتی ہیں اور انسان پیٹ کی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہونے لگتا ہے۔ جبکہ روزے کی حالت میں پندرہ سولہ گھنٹے تک کھانے پینے سے پرہیز اس نظام کو آرام کی حالت میں لے آتا ہے اور اس طرح نظام ہضم خود کو ٹھیک کرتا ہے۔
جگر (Lever): جگر جسم کا ایک بہت اہم حصہ ہے جو نہ صرف ہاضمے میں مدد کرتا ہے بلکہ یہ خون بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے جس سے انسان کو بیماریوں سے لڑنے کی طاقت ملتی ہے۔روزہ جگر کو چند گھنٹوں کے لیے ہاضمے کے کام سے آزاد کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ پوری قوت سے خون پیدا کرنے لگتا ہے اور قوت مدافعت کو تقویت دیتا ہے۔ اس طرح ایک ماہ کے روزے رکھنے سے جسم میں سال بھر بیماریوں سے لڑنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ گیسٹرک فاسٹنگ معدے میں پیدا ہونے والے تیزاب کو متوازن رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان نہ تو تیزابیت کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی تیزابیت کم ہونے کی وجہ سے بد ہضمی کا شکار ہوتا ہے۔
دل (Heart): دل کا مطلب گردشی نظام ہے۔ دل جسم میں بہنے والے خون کو کنٹرول کرتا ہے۔ دل انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔ مسلسل کام کرنے سے دل کا تھکا جانا فطری ہے۔ خاص طور پر جب کوئی شخص تیز رفتار، دباؤ والی زندگی گزار رہا ہو۔ روزے کی حالت میں رگوں میں خون کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دل کو کم کام کرنا پڑتا ہے اور اسے فائدہ مند آرام ملتا ہے۔ اس سے رگوں کی دیواروں پر ڈائیسٹولک پریشر کم ہو جاتا ہے۔ جس سے دل اور رگوں دونوں کو سکون ملتا ہے۔
بلڈ پریشر (Blood pressure): آج کی تیز رفتار زندگی میں لوگ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو رہے ہیں۔ روزے کے دوران ڈائیسٹولک پریشر میں کمی انہیں اس بیماری سے بچاتی ہے۔
امراض قلب (Heart attack): اور سب سے اہم بات روزے کی حالت میں افطار سے چند لمحے قبل کولیسٹرول، چکنائی اور دیگر چیزیں خون سے مکمل طور پر صاف ہو جاتی ہیں اور رگوں میں جمع نہیں ہوتیں جس سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ ٹل جاتا ہے یا بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔
گردے (Kidney): گردے خون کو صاف کرتے ہیں اور روزے کے دوران آرام دہ حالت میں رہتے ہیں، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے اس اہم حصے کی طاقت لوٹ آتی ہے اور ہمارے گردے بالکل صحیح طریقے سے اپنے عمل میں مشغول رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت سے متعلق روزے کے کچھ اور فائدے یہ ہیں کہ روزہ کولیسٹرول اور چربی کو کم کرکے موٹاپے کو دور کرتا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران جسم میں پانی کی کمی ہوتی ہے۔ پانی کی اس کمی سے جسم کی عمر بڑھ جاتی ہے۔
جیسا کہ ہم فطرت میں دیکھتے ہیں کہ جو پودے کم پانی استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی لمبی ہوتی ہے۔
سحری اور سائنس: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے‘‘
سحری کھانے کی عادت نہ صرف اسلامی تعلیمات کے مطابق برکت کا ذریعہ ہے بلکہ سائنسی لحاظ سے بھی صحت کے لیے بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ سحری دن بھر کے روزے کے دوران توانائی (energy) فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ جسم کو ضروری غذائی اجزاء اور پانی مہیا کرتی ہے جو روزے کے دوران ڈی ہائیڈریشن (dehydration) اور کمزوری سے بچاتے ہیں۔
سحری کھانے سے میٹابولزم (metabolism) بہتر ہوتا ہے اور جسم میں کیلوریز جلنے کا عمل متوازن رہتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ صبح کے وقت صحت بخش غذا کھانے سے جسم کا نظامِ ہاضمہ بہتر رہتا ہے اور جسم چربی (fats) کو مؤثر طریقے سے جلاتا ہے جس سے وزن کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مزید یہ کہ سحری کھانے سے بلڈ شوگر لیول مستحکم رہتا ہے اور انسولین کی حساسیت بہتر ہوتی ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
سحری دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ یہ دن بھر کے لیے دماغ کو توانائی فراہم کرتی ہے اور توجہ، یادداشت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ سحری میں پروٹین، فائبر اور صحت مند چکنائیاں شامل کرنے سے نہ صرف دن بھر زیادہ دیر تک بھوک کم محسوس ہوتی ہے بلکہ دماغ بھی چوکنا اور متحرک رہتا ہے۔ سحری کے دوران پانی اور ہائیڈریٹنگ فوڈز کا استعمال جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ پانی کی مناسب مقدار لینے سے دن بھر تھکن اور سر درد کی شکایت کم ہوتی ہے اور جسمانی کارکردگی بہتر رہتی ہے۔ اگر سحری میں نمکیات اور کیفین والی اشیاء کا کم استعمال کیا جائے اور تازہ پھل، سبزیاں اور دودھ سے بنی غذائیں شامل کی جائیں تو جسم میں پانی کی سطح برقرار رہتی ہے اور روزے کے دوران پیاس کی شدت کم محسوس ہوتی ہے۔
سحری نہ کھانے کے نقصانات: سحری کے بغیر روزہ رکھنے سے دماغ میں گلوکوز کی کمی ہو سکتی ہے جو چڑچڑاپن، بےچینی اور ذہنی دباؤ (anxiety) کا باعث بن سکتی ہے۔
مجموعی طور پر سحری نہ صرف سنتِ ہے بلکہ سائنسی تحقیقات بھی اس کی افادیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ یہ جسمانی، ذہنی اور روحانی لحاظ سے روزے کے دوران صحت مند اور متحرک رہنے میں مدد فراہم کرتی ہے جس سے نہ صرف عبادات میں آسانی ہوتی ہے بلکہ روزمرہ کے دیگر کام بھی بہتر طریقے سے انجام دینے مین مددگار ہوتی ہے۔
افطار اور سائنس: افطار میں دنیا بھر کے لوگ الگ الگ چیزیں اپنے ماحول کے مطابق استعمال کرتے ہیں مگر کچھ ایسی مخصوص چیزیں ہیں جنہیں زیادہ تر لوگ سحری اور افطار میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر کچھ خاص استعمال ہونے والی چیزوں کا تذکرہ بالکل مختصر انداز میں کرتے ہوئے اس کے سائنسی فوائد بھی بیان کیے گئے ہیں:
دماغ۔۔۔ اخروٹ: اخروٹ میں اومیگا-3 فیٹی ایسڈز، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن ای موجود ہوتے ہیں جو دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور یادداشت کو مضبوط کرتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اخروٹ کھانے سے الزائمر اور دماغی تنزلی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔
آنکھٰیں۔۔۔ گاجر: گاجروں میں بیٹا کیروٹین پایا جاتا ہے جو جسم میں جا کر وٹامن اے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ وٹامن اے کی کمی رات کے اندھے پن کا سبب بن سکتی ہیں۔
کان۔۔۔ مشروم: مشروم میں وٹامن ڈی پایا جاتا ہے جو ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے اور سننے کی صلاحیت میں بھی بہتری لا سکتا ہے۔ کان کی ہڈیوں کی صحت کو برقرار رکھنے میں وٹامن ڈی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پھیپھڑے۔۔۔ انگور: انگور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں جو سانس کی نالی کو صاف کرنے اور پھیپھڑوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ مطالعات میں پایا گیا ہے کہ انگور کا استعمال دمہ اور سانس کی بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔
دل۔۔ ٹماٹر: ٹماٹر میں لایکوپین نامی ایک اینٹی آکسیڈنٹ موجود ہوتا ہے جو دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ کولیسٹرول کی سطح کو بھی کنٹرول میں رکھ سکتا ہے اور شریانوں کی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
معدہ۔۔۔ ادرک: ادرک نظامِ ہضم کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے اور متلی، اپھارہ، اور بدہضمی کو کم کرتی ہے۔ اس میں اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات ہوتی ہیں جو معدے کی جلن کو کم کر سکتی ہیں۔
چھاتی۔۔۔ ترش پھل: ترش پھل جیسے سنترہ اور لیموں وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو قوتِ مدافعت کو بڑھاتے ہیں اور خلیات کی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔یہ اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتے ہیں جو چھاتی کے کینسر کے خلاف بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔
لبلبہ۔۔۔ شکرقند: شکر قند میں بیٹا کیروٹین پایا جاتا ہے جو لبلبے کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہے، جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔
زیتون: زیتون میں اینٹی آکسیڈنٹس اور صحت مند چکنائی پائی جاتی ہے جو خواتین کی مجموعی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کا استعمال ہارمونی توازن کو بہتر بنا سکتا ہے۔
یہ چند روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کے تذکرے تھے جو یہاں لکھے گئے، مضمون کی طوالت کی وجہ سے عام پھلوں کے فوائد بتانے سے گریز کیا گیا جیسے تربوز، لیمو، امرود، کیلا اور پپیتا وغیرہ۔ یہ تمام غذائیں اپنی قدرتی ساخت اور غذائی اجزاء کی بدولت مختلف اعضاء کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم، یہ کہنا کہ یہ مخصوص خوراک صرف انہی اعضاء کے لیے مفید ہے مکمل طور پر درست نہیں ہوگا۔ انسانی صحت کے لیے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے اور مختلف غذائیں جسم کے کئی نظاموں پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔
قیام اللیل اور سائنس: نماز پڑھنے کے دوران جسم اور دماغ پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جو سکون اور ذہنی اطمینان کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نماز کے دوران جسمانی حرکات، جیسے رکوع اور سجدہ، خون کی گردش کو بہتر بناتے ہیں جس سے دماغ کو آکسیجن کی مناسب مقدار ملتی ہے اور ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل ذکر اور دعا دماغ میں مثبت اثر ڈالتی ہے جس سے "سیروٹونن” اور "اینڈورفنز” جیسے نیورو ٹرانسمیٹرز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ Serotonin جسے 5-hydroxytryptamine (5-HT) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک نیورو ٹرانسمیٹر اور ہارمون ہے جو موڈ، جذبات، عمل انہضام، نیند اور دیگر مختلف جسمانی افعال کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس کی کم سطح ممکنہ طور پر ڈپریشن اور اضطراب کا باعث بنتی ہے۔ سوچیے کہ یہ چیزیں ہمیں نماز سے مل جاتی ہیں۔
ایندروفینس: یہ ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو قدرتی طور پر ایک پین کلر یا درد سے نجات دہندہ ہوتا ہے، یہ ہمارے جسم کے اعضا کو درد سے بچاتا ہے، یہ ذہنی تناؤ اور ٹینشن یا منفی سوچ سے بچاتا ہے، یہ اچھے موڈ میں سدھار لاتا ہے اور خود اعتمادی بڑھاتا ہے۔ یہ قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور بھوک کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نماز میں خشوع و خضوع اور سائنسی فائدے: اس کے علاوہ نماز میں خشوع و خضوع اور مکمل توجہ انسان کو موجودہ مسائل سے وقتی طور پر آزاد کرتی ہے جس سے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جب کوئی انسان دلجمعی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے دماغ میں "الفا ویوز” پیدا ہوتی ہیں جو گہرے سکون اور ذہنی استحکام کا باعث ہوتی ہیں۔
الفا ویوز: الفا لہریں، دماغی لہروں کی ایک قسم جس کی فریکوئنسی 8 اور 12 ہرٹز کے درمیان ہوتی ہے، آرام کے دوران سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں، خاص طور پر جب آنکھیں بند ہوتی ہیں اور ذہنی ہم آہنگی، سکون اور سیکھنے سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کی یہ تب زیادہ کام کرتی ہیں جب انسان جاگتا تو رہے لیکن یا تو اس کی آنکھیں بند ہوں یا وہ کسی خاص وجہ سے سکون میں ہو۔ اور خشوع و خضوع میں یہی مقصود ہے۔
تراویح اور دیگر نمازوں میں طویل قیام اور سجدہ جسمانی طور پر بھی فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ یہ میڈیٹیشن جیسے اثرات پیدا کرتا ہے جو ذہنی دباؤ اور بے چینی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
میڈیٹیشن (Meditation) مراقبہ: روحانی بیداری کی بلند ترین سطح تک پہنچنے کے مقصد کے لیے ذہنی ورزش میں مشغول ہونا بھی ہے اور ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ کا نیک بندہ جب قیام اللیل کرتا ہے تو وہ کس روحانی بلندی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، قرآن کی آیتوں کی تکرار کرنے میں مشغول ایک مومن کی صرف اور صرف ایک ہی منشا ہوتی ہے اور وہ ہے قرب الٰہی۔ نماز میں روحانی طور پر انسان کا اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے جس سے اسے مشکلات میں حوصلہ اور صبر ملتا ہے۔ جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اس کا دماغ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ ہستی سے رابطے میں ہے جو اس کے مسائل حل کرنے والی ہے۔ یہ یقین اور بھروسا ایک مضبوط نفسیاتی سہارا فراہم کرتا ہے جو زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز پڑھنے والے افراد عمومی طور پر زیادہ پُرسکون، مطمئن اور مثبت سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں۔
ایک ماہر نفسیات کے بقول: میں نے دو تین لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے خود کشی تک کی کوشش کی لیکن جب سے انہوں نے نماز پڑھنا شروع کیا تو اب ان سے زیادہ پر سکون انسان مجھے کوئی نہیں لگتا،،،،اب انہیں صرف نماز کی فکر ہی لگی رہتی ہے۔
سائنسی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ روحانی عبادات اور یقین کا تعلق ذہنی سکون اور جذباتی استحکام سے جڑا ہوا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے وابستہ ہوں۔ یہ سائنسی حقیقت روحانی اعتقادات کی نفسیاتی اہمیت کو ثابت کرتی ہے، چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے ہوں۔ عبادت اور دعا انسان کو معنویت، صبر اور امید فراہم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ زندگی کے سخت حالات کا بہتر سامنا کر سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں جہاں عمومی طور پر مذہب کو روزمرہ کی زندگی میں کم اہمیت دی جاتی ہے، وہاں بھی جب کوئی فرد شدید ذہنی دباؤ، صدمے یا خاندانی مشکلات جیسے کسی قریبی عزیز کے انتقال یا کسی پرتشدد واقعے کا سامنا کرتا ہے، تو ماہرینِ نفسیات خود اسے مشورہ دیتے ہیں کہ اگر مذہب یا روحانی عقائد اسے مدد فراہم کر سکتے ہیں تو ضرور اس سے رجوع کرے۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس بھی اب اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مذہب اور روحانیت صرف روایتی عقائد نہیں بلکہ انسانی ذہن اور جسم پر مثبت اثر ڈالنے والے عناصر ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جب بھی نمازیں پڑھیں تو پورے توجہ، سکون اور خشوع و خضوع سے پڑھیں تاکہ اللہ ہم سے راضی بھی ہو اور ہمیں اس کا دنیوی فائدہ بھی ملتا رہے۔

 

***

 مغربی معاشروں میں جہاں عمومی طور پر مذہب کو روزمرہ کی زندگی میں کم اہمیت دی جاتی ہے، وہاں بھی جب کوئی فرد شدید ذہنی دباؤ، صدمے یا خاندانی مشکلات جیسے کسی قریبی عزیز کے انتقال یا کسی پرتشدد واقعے کا سامنا کرتا ہے، تو ماہرینِ نفسیات خود اسے مشورہ دیتے ہیں کہ اگر مذہب یا روحانی عقائد اسے مدد فراہم کر سکتے ہیں تو ضرور اس سے رجوع کرے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025