ساورکر پر فلم جھوٹ کا پلندہ: رام پنیانی
رام پنیانی
ملک میں دائیں بازو کے نظریے کے عروج کے ساتھ، ایسی فلمیں بن رہی ہیں جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں، فرقہ وارانہ قوم پرستی کے ہیروز کی تعریف کرتی ہیں اور بعض کمیونٹی کو ولن کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ان میں پدماوت، سمراٹ پرتھویراج، گاندھی بمقابلہ گوڈسے، کشمیر فائلز اور دی کیرالہ اسٹوری شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی خالص پروپیگنڈہ فلمیں ہیں، جو فنکارانہ آزادی کے نام پر عوام کو پیش کی جا رہی ہیں اور بہت سی انتہائی فحش بھی ہیں۔ پروڈیوسرز ایسی فلمیں بنانے کے لیے بے چین ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ خود دائیں بازو کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ جانتے ہیں کہ موجودہ حکمراں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ان کی فلموں کی تشہیر کریں گے اور وہ خوب کمائی کر سکیں گے۔
اس طرح کی فلموں کی سیریز کی تازہ ترین سلسلہ ‘سوتنتر ویر ساورکر’ کا ٹیزر 28 مئی (2023) کو جاری کیا گیا تھا۔ اس دن ساورکر کا 140 واں یوم پیدائش تھا اور اسی دن کو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کے لیے منتخب گیا تھا۔ یہ ٹیزر صرف 73 سیکنڈ کا ہے۔ لیکن اتنے کم وقت میں بھی یہ بہت سی جھوٹی اور من گھڑنت باتیں بتاتی ہے، جس کا مقصد ہندو قوم پرستی کے ہیرو ساورکر کی تعریف کرنا ہے۔ ساورکر آر ایس ایس میں نہیں تھے لیکن ان کی کتاب "ہندوتو یا ہندو کون ہے” آر ایس ایس کی نظریاتی بنیاد ہے۔ چونکہ آر ایس ایس نے جدوجہد آزادی میں حصہ نہیں لیا تھا، اس لیے وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق جدوجہد آزادی کے فرضی ہیرو تراش کرنے میں لگاتار مصروف ہے۔ اس سلسلے میں ساورکر انہیں بہت عزیز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے پہلے نصف حصے میں وہ انگریز مخالف انقلابی تھے۔ ان کی زندگی کے اس حصے کا حوالہ دے کر ہندو قوم پرست ان کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔
ساورکر کی پینٹنگ کی نقاب کشائی 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دور میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئی تھی۔ اس معاملے پر جو بحث چھڑی اس میں ان کی زندگی کے دوسرے حصے پر بھی بحث ہوئی، جب وہ ہندو قوم پرستی کے مفکر کے طور پر ابھرے، دو قومی نظریہ پیش کیا اور برطانوی حکومت کی حمایت کی۔
اپنے دور حکومت میں واجپئی ساورکر کو بھارت رتن سے نوازنا چاہتے تھے لیکن اس تجویز کو اس وقت کے صدر کے آر نارائنن نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد بھی انڈمان جیل میں ساورکر کے نام کی تختی لگائی گئی۔ پچھلے نو سالوں سے نریندر مودی ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور اس دوران ہر سال ساورکر کی یوم پیدائش بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہے اور اس سال ان کے یوم پیدائش پر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا گیا ۔
فلم کے ٹیزر میں کہا گیا ہے کہ اصل میں صرف چند لوگ برطانوی حکومت کے خلاف لڑے اور آزادی کی جدوجہد میں شامل زیادہ تر لوگ صرف اقتدار کے بھوکے تھے۔ یہ ان تمام ہندوستانی انقلابیوں کی توہین ہے جو سیلولر جیل سے ساورکر کی طرح معافی مانگتے ہوئے باہر نہیں آئے، لیکن وہیں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ ان لاکھوں لوگوں کی بھی توہین ہے جنہوں نے 1920 کی تحریک عدم تعاون، 1930 کی سول نافرمانی کی تحریک، ڈانڈی مارچ اور 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا۔ یہ بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد اور ان جیسے بہت سے دوسرے انقلابیوں کی بھی توہین ہے جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر برطانوی سلطنت کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ نیتا جی اور ان کی آزاد ہند فوج کی بھی توہین ہے۔
ٹیزر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر گاندھی جی نے عدم تشدد پر اصرار نہ کیا ہوتا تو ہندوستان کو 35 سال پہلے یعنی 1912 میں ہی آزادی مل جاتی! ایسا لگتا ہے کہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے والا شاید تصوراتی دنیا کا مستقل باشندہ ہے۔ 1912 میں ساورکر انڈمان جیل میں تھے، کانگریس کے سینئر لیڈر بالگنگادھر تلک منڈالے جیل میں تھے اور گاندھی جنوبی افریقہ میں تھے۔ یہ واضح ہے کہ عدم تشدد نے ملک کو آزاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ صرف عدم تشدد کی عوامی تحریک ہی ملک کو آزادی کی راہ پر لے جا سکتی ہے۔
ٹیزر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساورکر خودی رام بوس، بھگت سنگھ اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے لیے باعث تحریک تھے۔ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے! خودی رام بوس کو 1908 میں 18 سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا تھا۔ 1857 کی جدوجہد آزادی پر ساورکر کی کتاب اس کے کئی سال بعد آئی۔ساورکر خود 1906 سے 1911 تک لندن میں تھے۔ جہاں تک بھگت سنگھ کا تعلق ہے، انہوں نے 1857 میں ساورکر کی کتاب اور ان کی ایک اور کتاب ‘ہندو پادشاہی’ کا ذکر بہت سی دوسری کتابوں کے ساتھ ضرور کیا ہے، لیکن الہام کے ذریعہ نہیں بلکہ اقتباس کے طور پر۔ بھگت سنگھ کی تحریک غدر پارٹی کے رہنما کرتار سنگھ سرابھا تھے، جن کی تصویر وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، اور لینن، جن کا لٹریچر وہ شروع سے آخر تک پڑھتے تھے۔
بھگت سنگھ اور ساورکر کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ جس طرح چاہیں برطانوی حکومت کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور انہیں حکومت سے 60 روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی تھی۔ جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو ساورکر نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
بہت سے ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ سبھاش چندر بوس نے ساورکر کے مشورے پر آزاد ہند فوج کی تشکیل کی تھی۔ اس میں ایک ذرہ بھر بھی سچائی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس وقت آزاد ہندو فوج انگریزوں سے لڑ رہی تھی، ساورکر انگریز فوج کی مدد کر رہے تھے۔ بوس مجموعی قومیت کے حامی تھے جبکہ ساورکر مذہب پر مبنی قوم پرستی اور دو قومی نظریہ کے حامی تھے۔ بوس ساورکر اور جناح دونوں پر تنقید کرنے والے تھے۔ انہوں نے ان دونوں سے آزادی کی جدوجہد میں ایک ساتھ شامل ہونے کی درخواست کی تھی لیکن یہ دونوں قومی تحریک کو کچلنے میں انگریزوں کی مدد کرتے رہے۔
اپنے اخبار ‘فارورڈ بلاک’ میں ایک مضمون میں بوس نے لکھا، "ہندو مہاسبھا فرقہ وارانہ تقسیم پر زور دے کر اور تمام مسلمانوں کو ایک جیسا سمجھ کر ہندوستانی قوم پرستی کو ناقابل تصور نقصان پہنچا رہی ہے… ہم ہندوستان کی بھلائی کے لیے صرف مسٹر ساور کی خاطر قوم پرست مسلمانوں کے تعاون کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔”
بوس نے اپنی کتاب ‘دی انڈین اسٹرگل’ کے دوسرے حصے میں لکھا ہے کہ "جب جناح صرف یہ سوچ رہے تھے کہ انگریزوں کی مدد سے پاکستان کی تعمیر کے اپنے منصوبے کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے، ساورکر بین الاقوامی حالات سے پوری طرح غافل اور نا واقف تھے اور صرف یہ سوچ رہے تھے کہ ہندو فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد ہندوستان میں برطانوی فوج میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔
فلم کے ٹیزر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نیتا جی کی بیٹی انیتا بوس نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا، “مہاتما گاندھی کی طرح نیتا جی بھی لوگوں کو مذہبی اختلافات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے خلاف تھے۔ ساورکر کے پیروکاروں کو نیتا جی کے ہندوستان کے وژن کی حمایت کرنی چاہیے، ان کا استعمال ایسے خیالات کو پھیلانے کے لیے نہیں کرنا چاہیے جو یقیناً ان کے نہیں تھے۔ تاہم ان دنوں ہندوستانی فلمی دنیا دائیں بازو کی ہندونواز طاقتوں کی خدمت میں مصروف ہے اور خالص جھوٹ پر مبنی ساورکر پر بننے والی فلم اس کی ایک اور تازہ مثال ہے۔
(بشکریہ،انڈیا ٹو مارو)