
زہران ممدانی، اقتدار کے سامنے حق گوئی کی خاندانی میراث پر کاربند
امریکی خارجہ پالیسی پر بے باکانہ تنقید۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک للکار
سید خلیق احمد
7؍ اکتوبر 2023کو اسرائیل-حماس جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ بھر میں اسلاموفوبیا خطرناک سطح تک بڑھ چکا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اس عرصے میں مسلمانوں اور اسلامی اداروں، بشمول مساجد، پر نو ہزار سے زائد حملے ہوئے ہیں۔ فلسطین کی حمایت کا اظہار کرنا یا فلسطینی حقوق کی وکالت کرنا تقریباً ممنوع ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، جو روایتی طور پر علمی آزادی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں، فلسطینیوں کے حق میں بولنے والوں کو نظم و ضبط کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافیوں کو بھی صرف فلسطین کے ساتھ یکجہتی دکھانے کی وجہ سے اپنی ملازمتیں گنوائی پڑی ہیں۔ یہ ہے امریکہ کا موجودہ سیاسی ماحول: دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور وہ ملک جو خود کو انسانی حقوق کا عالمی چیمپئن قرار دیتا ہے۔
ایسے معاندانہ سیاسی ماحول میں 33سالہ بھارتی نژاد زہران ممدانی نے اپنی مسلم شناخت کو نہ صرف فخر سے ظاہر کیا بلکہ نیویارک شہر کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری میں حصہ لیا اور گیارہ حریفوں کو شکست دے کر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 43.51 فیصد ووٹ حاصل کیے اور نومبر میں ہونے والے حتمی انتخابات کے لیے واضح طور پر سب سے آگے ہیں۔
اپنی پوری مہم کے دوران، زہران ممدانی نے فلسطینی تحریک کی حمایت کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ فلسطینی حقوق کی وکالت اور غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے اقدامات کی مذمت میں مستقل اور واضح رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا، اسرائیل کے معاشی اور ثقافتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، اور اسرائیل کو امریکی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر بھوک ہڑتال میں بھی حصہ لیا جس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ زہران ممدانی کے لیے فلسطینی تحریک صرف سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ انہوں نے کہا ’’یہ میری شناخت کا مرکزی حصہ ہے۔‘‘
فی الحال نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے زہران ممدانی نے اس وقت توجہ حاصل کی جب انہوں نے ہولوکاسٹ کی یاد منانے اور اسرائیل کے قیام کی خوشی منانے والی ایک قرارداد کی حمایت سے انکار کر دیا۔ انہوں نے قرارداد کے الفاظ پر اعتراض کیا، خاص طور پر اس دعوے پر کہ اسرائیل ’’امن کے لیے کوشش کرتا ہے‘‘ جو ان کے خیال میں غزہ میں اس کے اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ میڈیا کے سوالات کے جواب میں زہران نے کہا کہ وہ یہود دشمنی اور یہودیوں کے خلاف ہر قسم کی نفرت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کو یہود دشمنی سے جوڑنا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ اسرائیل کو وجود کا حق ہے لیکن ایک ایسی ریاست کے طور پر جہاں تمام شہریوں کو مذہب سے قطع نظر برابر کے حقوق حاصل ہوں۔
زہران ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیلی رہنماؤں، بشمول وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ کی حمایت کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ نیتن یاہو کو نیویارک شہر کے دورے پر گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے اپنی پوری انتخابی مہم میں اسرائیل مخالف موقف اختیار کیا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اسرائیل کو امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی مضبوط حمایت حاصل ہے اور اسرائیل کی تنقید امریکی سیاست میں انتہائی حساس معاملہ ہے۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی کے لیے براہ راست چیلنج تھا، جس کا مرکزی حصہ اسرائیل کو مضبوط معاشی اور فوجی امداد فراہم کرنا ہے۔ اس کے باوجود، زہران ممدانی نے گیارہ حریفوں کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے انتخابات جیتے جو کہ قابلِ ذکر ہے۔ سیاسی تجزیہ کار ان کی کامیابی کو نہ صرف ان کے خارجہ پالیسی پر اصولی موقف بلکہ مقامی مسائل جیسے کہ آسمان چھوتی رہائشی کرایوں پر قابو پانے، مفت عوامی نقل و حمل، یونیورسل چائلڈ کیئر اور ٹیکس اصلاحات کے وعدوں پر توجہ دینے سے منسوب کرتے ہیں۔
یہ وعدے نیویارک کے شہریوں، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اثر انداز ہوئے کہ شہر کے 67 فیصد رہائشی کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں، نیویارک میں عوامی نقل و حمل ملک کے مہنگے ترین نظاموں میں سے ایک ہے، اور چائلڈ کیئر کے اخراجات انتہائی زیادہ ہیں۔ زہران ممدانی نے میئر منتخب ہونے کی صورت میں سستی رہائش کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا۔
لیکن زہران کی اسرائیل کی تنقید اور فلسطینی تحریک کی کھلی حمایت نظروں سے اوجھل نہ رہی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کے جمہوری سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے انہیں ’’کمیونسٹ پاگل‘‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر ممدانی میئر منتخب ہوئے تو نیویارک کی فنڈنگ روک دی جائے گی۔ ٹرمپ کے علاوہ کئی دیگر امریکی سیاستدانوں نے ممدانی کی شہریت منسوخ کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ممدانی نے 2018 میں امریکی شہریت حاصل کی تھی۔ تاہم، ان دھمکیوں سے ممدانی کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ دھمکیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
میرا نائر نے اسرائیل کی دعوت مسترد کی تھی
ایسا بہادرانہ اور اصولی موقف صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جس کا نظریاتی اور خاندانی پس منظر مضبوط ہو۔ جولائی 2013 میں زہران کی والدہ، فلم ساز میرا نائر نے اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر حفا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ’’اعزازی مہمان‘‘ بننے کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔ ٹوئٹر پر اپنی پوسٹس میں نائر نے لکھا: ’’میں اسرائیل اس وقت جاؤں گی جب دیواریں گر جائیں گی۔ میں اسرائیل اس وقت جاؤں گی جب قبضہ ختم ہو جائے گا… میں اسرائیل اس وقت جاؤں گی جب ریاست کسی ایک مذہب کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ میں اسرائیل اس وقت جاؤں گی جب اپارتھائیڈ ختم ہو جائے۔ میں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہوں، اسرائیل کے تعلیمی اور ثقافتی بائیکاٹ (PACBI) اور وسیع تر BDS تحریک کے لیے۔‘‘ یہ زہران کی والدہ کی جانب سے انفرادی حیثیت میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے غیر انسانی سلوک کی مذمت کرنے کے لیے بہت بہادرانہ عمل تھا، جب کہ بہت سے ممالک کو اسرائیل کی تنقید کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
محمود ممدانی نے نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے امریکی بیانیے کو چیلنج کیا
زہران کے والد، محمود ممدانی، کولمبیا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور ایک بہادر، صاف گو دانشور ہیں، جنہوں نے 2004 میں دہشت گردی پر غالب امریکی بیانیے کو چیلنج کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اختلاف رائے نایاب اور خطرناک تھا لیکن انہوں نے بہادری سے امریکی دعوے کو مسترد کیا جس میں اسلام اور قرآن کو دہشت گردی کا سرچشمہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ 11/9 کے بعد کا دور تھا جب صدر جارج ڈبلیو بش نے متنبہ کیا تھا ’’یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں، یا آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ پیغام دھمکی آمیز تھا۔ مشکل سے کوئی امریکی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کی جرأت کر سکتا تھا۔ اس خوف کے ماحول میں، ممدانی کا چیلنج ایک نادر علمی اور اخلاقی جرأت کا عمل تھا۔
شدید سیاسی دباؤ کے باوجود، محمود ممدانی نے اس امریکی بیانیے کا مقابلہ کیا جس میں اسلام کو عصری عالمی دہشت گردی کی جڑ قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’گڈ مسلم، بیڈ مسلم: امریکہ، سرد جنگ اور دہشت گردی کی جڑیں‘‘ میں دلیل دی کہ اسلام کو دہشت گردی کی جڑ قرار دینے کا امریکی دعویٰ حقائق پر مبنی نہیں ہے اور اس میں منطق کی کمی ہے۔ انہوں نے افغانستان، عراق اور مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں امریکی ناقص پالیسیوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ ممدانی نے ہنٹنگٹن جیسے بااثر امریکی دانشوروں کے غیض و غضب کو دعوت دی، جن کا بیانیہ ممدانی نے مضبوط دلائل کے ذریعے کامیابی سے توڑ دیا۔ مسلم دنیا یا امریکہ اور یورپ میں موجود مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اسلام پر دہشت گردی کے سرچشمے کے طور پر حملے کا علمی بلاغت سے جواب دے سکے۔ انتہائی معاندانہ بین الاقوامی سیاسی صورتحال میں، ممدانی نے مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کیا اور ایک مناسب علمی اور تعلیمی جواب دیا، جسے اب تک کوئی مغربی دانشور چیلنج نہیں کر سکا۔ بدقسمتی سے ممدانی کے کام کو مسلم دنیا میں زیادہ توجہ نہ مل سکی اور ان کا بیانیہ عوام میں مقبول نہ ہو سکا۔ جب ممدانی نے اپنی کتاب لکھی تو انہیں امریکی فارن پالیسی ڈیپارٹمنٹ نے سرفہرست 20 دانشوروں میں اور دنیا کے سرفہرست 60 مفکرین میں شمار کیا تھا۔
اپنی کتاب میں انہوں نے کہا کہ 11/9 کے دہشت گرد حملوں کے لیے اسلام کو موردِ الزام ٹھیرانا سادہ لوحی اور خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا درست تجزیہ کرنے کے بجائے، اسلام کو تشدد کے ساتھ اسٹیریوٹائپ کرنا مسئلے کا حل پیش نہیں کرتا۔ ممدانی کے مطابق 11/9 قرآن، اسلام یا اسلامی ثقافت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس میں امریکہ خود ملوث تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے بہادری اور کھلے عام امریکی دہشت گردی کے بیانیہ سے واضح طور پر اختلاف کیا۔
انہوں نے امریکی پالیسی سازوں کو متنبہ کیا کہ وہ اسلام کو تشدد سے جوڑ کر اسے ایک غلط العام تصور کے طور پر پیش کرنے سے باز رہیں۔ ممدانی نے واضح کیا کہ نام نہاد ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا ظہور اسلامی فقہ کی کتابوں سے نہیں، بلکہ سرد جنگ کی جغرافیائی سیاست اور امریکہ و سوویت یونین کی کشمکش سے ہوا۔ افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے مجاہدین کو سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے نہ صرف تربیت دی بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا۔ اس سے بڑھ کر امریکہ نے قرآن مجید کی اشاعت کروائی اور اسے افغان عوام میں تقسیم کیا تاکہ انہیں کمیونزم کے خلاف جہاد پر آمادہ کیا جا سکے، کیونکہ امریکیوں کا خیال تھا کہ قرآنی تعلیمات کو کمیونزم کے خلاف ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یوں مذہب کو سرد جنگ میں ایک اسٹریٹجک ہتھیار کی حیثیت دے دی گئی۔ 1980 کی دہائی میں جب امریکہ انہی مجاہدین کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار تھا، ’’جہاد‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ جیسی اصطلاحات کو مثبت معنوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ امریکی حکومت نے مجاہدین کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا اور انہیں تین ارب ڈالر کی خطیر امداد فراہم کی۔ ممدانی نے کہا کہ بنیاد پرست اسلام نہ مکہ میں پیدا ہوا، نہ مدینہ میں، بلکہ یہ سرد جنگ کے بطن سے ابھرا اور واشنگٹن و اسلام آباد میں پروان چڑھا۔
ممدانی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جب سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تو امریکہ نے نہ صرف پورے خطے کو نظر انداز کر دیا بلکہ ان مجاہدین اور القاعدہ کا تعاقب شروع کر دیا جنہیں خود اس نے تربیت دی تھی اور مسلح کیا تھا۔ جب ان گروہوں نے امریکی مفادات کی تکمیل کر دی تو یکایک وہی ’’اچھے مسلمان‘‘ امریکہ کی نظر میں ’’برے مسلمان‘‘ بن گئے، کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی جغرافیائی ترجیحات بدل چکی تھیں۔ ممدانی نے کہا کہ امریکہ نے خود اپنا ایک ’’فرینکنسٹائن‘‘ تخلیق کیا اور جب وہی مخلوق اس کے خلاف ہوگئی تو اسے ’’راکشس‘‘ قرار دے دیا۔ القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی وہ کارروائیاں، جن میں بعد ازاں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا گیا، ممدانی نے انہیں ’’بلو بیک‘‘ (Blowback) قرار دیا — یعنی وہ ردعمل جس کی امریکہ نے خود توقع نہیں کی تھی، حالانکہ ان گروہوں کی پرورش اسی نے کی تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ مجاہدین اور القاعدہ جیسے گروہوں کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہ بچا تھا کیونکہ امریکہ نے اپنے سیاسی و اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے کے بعد خود انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔
ان تجزیات کی روشنی میں ممدانی نے مؤقف اختیار کیا کہ عصرِ حاضر کی دہشت گردی کی جڑیں اسلام میں نہیں بلکہ سیاسی تاریخ میں پیوست ہیں — بالخصوص مغربی استعمار، سرد جنگ کی مداخلتوں اور موجودہ عالمی عدم مساوات میں۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشان دہی کی کہ فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم بھی معاصر دہشت گردی کے اسباب میں شامل ہیں۔
ممدانی نے کہا کہ دہشت گردی کا حل اس میں نہیں کہ مغرب ’’معتدل اسلام‘‘ یا ایسے ’’اچھے مسلمانوں‘‘ کو فروغ دے جو اس کی خارجہ پالیسی کے تابع ہوں۔ اس کے برعکس، مسئلے کا حل یہ ہے کہ عسکری حکمت عملی کو ترک کر کے سیاسی تدبر اختیار کیا جائے، خطے کی تاریخی حقائق کو تسلیم کیا جائے، مظلوم اقوام کی شکایات کا ادراک کیا جائے اور جن ملکوں میں مداخلت کی گئی ہے، ان کی معیشت کو سہارا دیا جائے۔ بصورت دیگر، صرف شدت پسند گروہ اور جنگجو تنظیمیں جنم لیتی رہیں گی اور امریکہ کو مستقبل میں بھی ’’بلو بیک‘‘ کا سامنا ہوتا رہے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ مسلمانوں کی مصنوعی تقسیم دانش مندی نہیں اور نہ ہی اسلام، القاعدہ یا داعش کو دہشت گردی کا واحد ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ مخصوص سیاسی حالات کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور امریکہ کو اتنا بالغ نظر ہونا چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے۔
آخر میں ممدانی نے انتباہ دیا کہ جب تک مغرب اپنے تشدد کو ’’اسٹریٹجک ضرورت‘‘ اور مسلم دنیا کے ردعمل کو ’’ثقافتی بیماری‘‘ یا ’’اسلامی ثقافت‘‘ کا شاخسانہ سمجھتا رہے گا، غلط فہمی اور باہمی عدم اعتماد کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ’’آپ کسی مسلم ملک پر بمباری کرتے ہیں اور جب وہ جوابی کارروائی کرتے ہیں تو آپ انہیں مذہبی شدت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے نہ تشدد ختم ہوگا، نہ دنیا میں امن قائم ہو سکے گا۔‘‘
اگرچہ ممدانی کا تجزیہ امریکی حکام اور ان کے اتحادیوں کے لیے سخت ناپسندیدہ تھا مگر انہوں نے اپنے خیالات کو پوری قوت، وضاحت اور جرأت کے ساتھ امریکی حکومت اور پالیسی سازوں کے سامنے پیش کیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر امریکہ واقعی دہشت گردی اور عالمی تشدد کے سلسلے کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ سچ کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا ہمیشہ ایک کٹھن کام ہوتا ہے جس کے لیے غیر معمولی حوصلے اور اخلاقی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ممدانی نے یہ کارنامہ زمانے کی سب سے بڑی طاقت کے سامنے اعتماد اور دانش کے ساتھ انجام دیا۔
بدقسمتی سے امریکہ نے ممدانی کے سنجیدہ مشوروں سے سبق لینے کے بجائے اپنی پرانی گمراہ کن تھیوری پر اصرار جاری رکھا، جس کے مطابق اسلامی ثقافت کو دہشت گردی کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی متعصبانہ اور غیر سائنسی رویہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری حالیہ خونریزی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے—ایک ایسا سانحہ جس میں امریکہ، اسرائیل کو مالی امداد اور اسلحہ فراہم کر کے براہِ راست شریک ہے۔
زہران ممدانی بلاشبہ اپنے والدین محمود ممدانی اور میرا نائر کے فکری اور اخلاقی ورثے کے امین دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح ان کے والد نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں سخت سیاسی ماحول کے باوجود اسلامی دہشت گردی کے بیانیے کو علمی و اخلاقی بنیادوں پر چیلنج کیا اور جس طرح ان کی والدہ نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجاً اسرائیلی فلم فیسٹیول میں بطور اعزازی مہمان شرکت سے انکار کر دیا—اسی طرح زہران نے بھی ڈیموکریٹک پرائمری میئرل انتخابی مہم کے دوران، نتائج کی پروا کیے بغیر فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور امریکہ کی جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر کھل کر تنقید کی اور ایک اصولی، جرأت مندانہ اور انصاف پر مبنی موقف اختیار کیا۔
یہی سچائی کا ورثہ ہے، یہی ضمیر کی آواز ہے—اور اس پر زہران ممدانی بجا طور پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
امریکی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے، نیویارک شہر کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری کے انتخابی مہم کے دوران، ہندوستانی نژاد زہران ممدانی اپنے والد محمود ممدانی کے ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جنہوں نے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے لیے اسلامی ثقافت کو موردِ الزام ٹھیرانے والے غالب امریکی بیانیے کو بہادری سے چیلنج کیا تھا اور ان کی والدہ میرا نائر نے فلسطینی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر اسرائیلی فلم فیسٹیول میں اعزازی مہمان بننے کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025