فرزانہ ناہید
رمضان کا مہینہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ اس کے آغاز سے پہلے ہم سبھی اس کے استقبال کے لیے پرجوش تھے ۔ نیز ہم نے اپنے دینی و ایمانی ارتقا اور کارخیر میں سبقت کے منصوبے بھی بنائے تھے ۔اب جبکہ رمضان ہم سے رخصت ہوچکا ہے آئیے دیکھیں کہ یہ ہمیں کیا دے کر جارہا ہے؟۔
رمضان کا حاصل قرآن اور روزوں کا حاصل تقویٰ ہے۔ اگر یہ دو چیزیں ہمیں مل جائیں تو ہماری خوش نصیبی کے کیا کہنے اور اگر ہم اس سے تہی دامن رہ جائیں تو اس سے بڑی بدبختی بھی کوئی نہیں۔ لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ماہ رحمت کی بدولت آیا قرآن سے ہمارا تعلق استوار ہو سکا ہے یا نہیں۔ ایک ایسا تعلق جو ہمیں قربِ الٰہی کی لذت سے آشنا کر دے، ہمارے دلوں میں اسے بار بار پڑھنے کا شوق اور عمل کا جذبہ پیدا کرے، یہاں تک کہ قرآن ہماری زندگی کا جامع عنوان بن جائے، ہر فکر اسی کے نورِ بصیرت سے مستعار ہو اور ہر عمل اسی فکر کے سانچے میں ڈھل جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’روزہ اور قرآن بندہ مومن کے لیے قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ روزہ اللہ سے کہے گا کہ اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور جنسی خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا تھا لہٰذا تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ اسی طرح قرآن کہے گا کہ اے اللہ! میں نے تیرے اس بندے کو راتوں کو سونے سے روکے رکھا تھا لہٰذا تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (مسند احمد) کاش کہ روزہ اور قرآن قیامت کے دن ہمارے سفارشی بن جائیں۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب روزوں سے ہمارے اندر تقویٰ اور قرآن کریم سے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور عمل کی توفیق پیدا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو ایسے پڑھیں کہ نہ صرف یہ ہمارے اندر جذب ہو بلکہ اس کے ساتھ قلب وروح کا تعلق گہرا ہو جائے اور دل، دماغ اور جسم سب تلاوت میں شریک ہو جائیں۔ تلاوت قرآن کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے کا حق ادا کیا جائے اور اسے سوچ سمجھ کر، تجوید وقراءت سے پڑھا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اس کا ابلاغ کیا جائے اور دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔ بقول علامہ اقبال
یہ حقیقت کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
خدا کی یہ آخری وحی ہمارے پاس رب کریم سے کلامی تعلق پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ حلقہ خواتین کی وہ بہنیں یقیناً قابل رشک ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت قرآن کی صحبت میں گزارا، لوگوں کو اس کی تعلیم دی اور ان کو عمل کی ترغیب دی۔ اللہ کے کلام سے آپ کا تعلق کس قدر گہرا ہوا ہے اس کا جائزہ ضرور لیجیے۔ اس کو جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جائزہ لیں کہ آپ کتنی تبدیل ہوئی ہیں اور دنیا کو بدل ڈالنے کا کتنا جذبہ آپ کے اندر پیدا ہوا ہے۔ یہ چیز اگر آپ کے اندر پیدا ہوئی ہے تو شکر ادا کیجیے کہ یہ رمضان بہت بڑی دولت آپ کو دے کر گیا ہے اور اگر ابھی تک دین حق کے لیے آپ کے خیالات میں تلاطم اور جذبات میں گرمی پیدا نہیں ہو سکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک آپ قرآن کی تاثیر سے تشنہ کام ہی ہیں اور آپ کو کامیاب انسانوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے لیے خدا کی زمین پر موجود خدا کی سب سے بڑی نعمت سے اپنا تعلق استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری چیز تقویٰ ہے جو روزے کی مشقت کا اصل مقصود ہے۔ تقویٰ ہی کے ذریعے مومن ایمان کی معراج تک پہنچتا ہے یہ وہ صفت ہے کہ جس کے بغیر دین کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ مفسر قرآن مولانا مودودیؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تقویٰ ہر نیکی کی جڑ ہے‘‘۔ تقویٰ کے ذریعے ہی اللہ سے تعلق کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ سورہ حشر کی آیت ۱۸ میں فرمایا گیا ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر آدمی یہ دیکھ لے کہ اس نے کل (یعنی آخرت) کے لیے کیا تیاری کی ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو بے شک اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
اس آیت میں اللہ نے اہل ایمان کو ہدایت کی ہے کہ ہر حال میں آخرت کی تیاری پیش نظر رہنی چاہیے اور آخرت کے مسافر کے لیے زادِ راہ صرف تقویٰ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۳ میں روزے کی فرضیت اور مقصد پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔ جب روزوں کا حاصل تقویٰ ٹھہرے تو ہمیں اس کے معنی ومطلب کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی ان بہت ساری آیات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا جن میں اس صفت کی تعلیم وتلقین کی گئی ہے مثلاً سورة آل عمران ۱۰۲ میں فرمایا گیا ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیساکہ اُس سے ڈرنے کاحق اور تمہاری موت آئے تو اسلام پر آئے۔‘‘تقویٰ اللہ سے دوستی کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور ہر لمحہ اللہ تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اُن سے دوستی کرتا ہے۔ ’’آگاہ رہو بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف لاحق ہوگا نہ کوئی غم۔ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے اُن کے لیےدنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے وعدوں میں تبدیلی نہیں آتی یہ ہی سب سے عظیم کامیابی ہے‘‘۔(یونس : ۶۲ تا ۶۳) ’’بے شک اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے‘‘(توبہ : ۴) ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرلو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے‘‘(البقرة : ۱۹۴) ’’یقیناً اللہ متقی اور نیکی کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے‘‘( البقرة : ۱۹۴)
تقویٰ اختیار کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو یقیناً ہم اُن پر آسمان وزمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلا دیا تو ہم نے اُن کے اعمال کی وجہ سے اُن کو پکڑ لیا‘‘ (الاعراف : ۹۶)
تقویٰ کی راہ سے ہی انسان کو نورِ بصیرت عطا ہوتا ہے۔ دل میں تقویٰ و پرہیزگاری کا جذبہ موجزن ہو تو حق تعالیٰ برائی اور اچھائی کے درمیان فرق کرنے کی بصیرت عطا فرمادیتا ہے ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں نور بصیرت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں معاف کر دے گا اور اللہ عظیم فضل والاہے‘‘
(الانفال : ۹۲)
جو شخص جتنا زیادہ متقی وپرہیزگار یعنی اللہ اور اُس کے رسول کا فرمانبردار ہو گا اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں معزز اور بلند مرتبت ہو گا۔ متقی آدمی اگرچہ دولت وثروت اور خاندانی اعتبار سے پست ہو سکتا ہے لیکن غیر متقی آدمی پر فوقیت رکھتا ہوگا چاہے اس کے خاندانی مراتب کتنے ہی بلند رہے ہوں۔ جیسا کہ ارشاد ہے ’’لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔(الحجرات : ۳۱)
غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بار بار اہل ایمان کو تقویٰ پر ابھارا ہے۔ شعوری طور پر ایمان وتقویٰ کی راہ اختیار کرنے سے ہی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور ایک بامقصد وبافیض عملی زندگی وجود میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس صفت کو تمام مومن مردوں اور عورتوں میں پیدا کرے۔ آمین۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021