زندگی بھردہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے لئے لڑتے رہےگلزار اعظمی
نئی دہلی،21اگست :۔
گلزار اعظمی ،ایک ایسا نام ہے جن کی شناخت پورے ملک میں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں کے لئے لڑنے والےکے طور پر قائم ہے ۔گلزار اعظمی کا گزشتہ دنوں 89 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔وہ مہاراشٹر جمعیۃ علما ء سے وابستہ رہے ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی ملت کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی ۔وہ بھی ایک ایسے معاملے میں جہاں لوگ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں سے تعلق رکھنا تو دور ان کے سایہ سے بھی کتراتے ہیں ایسے معاملے میں گلزار اعظمی نے ان مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کی اور متعدد نوجوانوں کو باعزت بری کرایا۔
یکم مئی 1934 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے اعظمی نے اردو میونسپل اسکول میں 5ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم اسلامیہ میں تین سال دینی تعلیم حاصل کی۔
1958 میں وہ جمعیت علمائے اسلام کی ممبئی یونٹ کے سکریٹری بنے۔ بعد ازاں، 1968 میں، وہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے جنرل سکریٹری بنے اور 2002 میں، وہ نائب صدر بن گئے۔اعظمی 60 سال سے زیادہ عرصے سے جمعیۃ علماء کا حصہ رہے ہیں۔ وہ مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے رکن بھی رہے۔
انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ”میں استحصال کے لیے انصاف کے لیے لڑنا نہیں چھوڑوں گا۔ اگر انہیں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے، تو وہ متعصب پولیس تحقیقات کا شکار ہوں گے۔ انہون نے کہا تھاکہ”میں اپنی جان سے نہیں ڈرتا۔ مجھے یقین ہے کہ میری موت کا وقت، جگہ اور حالات پہلے ہی طے شدہ ہیں۔ تو میں کیوں معاشرے میں مظلوم کی مدد کرنا چھوڑ دوں؟
اعظمی نے سری کرشنا کمیشن کی مدد کی، جس نے ممبئی سلسلہ وار دھماکوں کی تحقیقات کی۔ انہوں نے کمیشن کی رپورٹ کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے ملک کے اردو قارئین کے لیے دستیاب کرایا۔
گلزار اعظم کے انتقال پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنے خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جناب گلزاراعظمی ؒ انتہائی کم عمری میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی اورجمعیۃعلماء ہند سے وابستہ ہوئے اوراپنی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت میں صرف کردی،
یہ وہ زمانہ تھا جب مہاراشٹر جمعیۃعلماء کے روح رواں حکیم اعظمی صاحب مرحوم تھے اسی زمانہ میں 1955میں دینی تعلیمی کنونشن کا انعقاد ممبئی میں ہواتھا جس میں مرکزی دینی بورڈکا قیام عمل میں آیا، اس طرح اعظمی صاحب کی خدمات تقریبا65سال پر محیط ہیں، اس درمیان میں بہت سے نشیب وفرازرونماہوئے مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ بھرلغزش نہیں آئی، صداقت، حق گوئی، حق شناسی اوربے باکی ان کا طرہ امتیازتھا -ملک میں دہشت گردی کے الزام میں جب نوجوانوں کی اندھادھند گرفتاریاں ہونے لگیں اوران مظلوموں کے سایہ سے بھی لوگ دوربھاگنے لگے، مقدمات کی پیروی تودورکی بات، لوگ خبرگیری سے بھی کترانے لگے ان حالات میں میری درخواست پر جناب گلزاراحمد اعظمیؒ نے کمرہمت باندھی اوردہشت گردی کے الزام میں جیل کی سلاخوں میں مقیدنوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کابیڑااٹھایا، انہوں نے وکلاء کی ٹیم تیارکی اورپورے ملک میں مظلومین ومحروسین کی امداد ودادرسی میں کوئی کمی نہیں کی جس کے نتیجہ میں سیکڑوں باعزت بری ہوئے اورہزاروں ضمانت پر رہاہوکر اپنے اہل وعیال کی خبرگیری کافریضہ اداکررہے ہیں،مولانامدنی نے کہا کہ ان کی رحلت سے ایساخلاپید ہواہے جس کا پرہونا مشکل ہے، اب ان صفات کا حامل دوسراکوئی نظرنہیں آتا۔