رمضان و عیدین کے بعد محرم بھی لہو لہو

امریکی صدر بائیڈن کی امن تجاویز یا نئی خانہ جنگی کا منصوبہ؟

مسعود ابدالی

انتہا پسندوں نے غربِ اردن کو قتل و غارت کی آماجگاہ بنادیا؛ اسرائیلی جنرل کا اعتراف
اہل غزہ نے رمضان،عیدالفطر اورعیدِ قرباں کےبعد محرم بھی آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں گزارا۔ ذبحِ عظیم اور عاشورہ میں گہرا منطقی تعلق ہے کہ وادی منیٰ میں خلیل اللہ کے لختِ جگر نے رب کی رضا کے لیے اپنی گردن خنجر کے نیچے رکھی اور اس عزم کو محبوبِ خدا کے محبوب نظر نے کربلا میں عملی جامہ پہنادیا۔ خاک برسروخوں بداماں اہل غزہ گزشتہ سات دہائیوں سے امامِ عالی مقام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانی اور ثبات و قرار کی جو داستان رقم کررہے ہیں اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انبیا کی سرزمین کے یہ باسی سرکٹانے کےساتھ عقوبت کدوں کو آباد کرکے سنتِ یوسفی بھی ایک نرالی شان سے ادا کررہے ہیں۔
قید و بند صبر و وقار سے جھیلنے اور موت کو بانکپن سے لگانے کی ادا کا کوئی جواب نہیں تو غزہ کی پرعزم ماوں کا صبروضبط بھی بےمثال ہے۔ باہمی تذکیر کے لیے ایسے ہی ایک واقعے سے گفتگو کا آغاز۔کئی ماہ سے گرفتار تین فلسطینیوں کو رہائی پر زنجیروں میں جکڑ کر غزہ روانہ کیا گیا اور غزہ پہنچنے پر جیسے ہی یہ لوگ فوجی گاڑی سے اترے، وہاں پہلے سے موجود اسرائیلی سپاہیوں نے مشکیں کسے ان پابہ زنجیر نوجوانوں کو گولی مارکر قتل کردیا۔وہاں موجود ایک قیدی کامل غیبیان کے چچا عبدالہادی غیبیان نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عبدالہادی کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے لیکن کسی نے معافی نہ مانگی۔ جب عبدالہادی نے اپنی بھابھی کو ان کے بیٹے کے اس بہیمانہ قتل کی اطلاع دی تو صابر و شاکر خاتون نے کہا کہ ‘آنسووں پر قابو نہیں لیکن دل اپنے رب سے راضی ہے۔’ ہر حال میں اللہ کا شکر۔(حوالہ: رائٹرز)۔ بے چاری آنسو بہانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی کہ غزہ کے ملبے تلے بے گناہ بچوں کے ساتھ انسانیت اور انصاف پہلے ہی سے دفن ہے۔
غزہ کےساتھ غربِ اردن میں ظلم و ستم کو جو بازار گرم ہے اس کا اعتراف خود اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل یہودا فاکس نے کیا ہے۔ جنرل فاکس کی جکہ اب جنرل اوی بلتھ تعینات کردیے گئے ہیں۔تبدیلیِ کمان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے کہا “قوم پرست انتہا پسند، جنگ کی آڑ میں غرب اردن کو قتل و غارت کی آماجگاہ بناچکے ہیں”۔ اس نشست میں فوج کے سربراہ اور وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ فوجی قیادت کومخاطب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے مزید کہا کہ غرب اردن میں قوم پرست جرائم نے سر اٹھا لیا ہے۔ اسرائیل سے وفاداری کی آڑ میں یہ لوگ نہتے اور پرامن فلسطینی باشندوں کے خلاف نفرت و خوف کی آگ بھڑکارہے ہیں جس کا مقصد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔جنرل فاکس کا کہنا تھا کہ پرامن فلسطینیوں پر حملے کرکے علاقے میں افرتفری پھیلانے کی اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں کہ مقامی باشندوں کو بےدخل کرکے ان کے گھروں، کھیتوں اور مویشی کے باڑوں پر قبضہ کرلیا جائے (حوالہ: یووشلم پوسٹ)
غزب اردن پر اسرائیلی دستور کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ علاقہ فوج کی سنٹرل کمانڈ کے تحت ہے۔ اسے آپ مارشل لا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مرکزی کمان کے سربراہ کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صاحب بھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔
گزشتہ سال سات اکتوبر سے جاری بمباری سے 38 ہزار 345شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن کی دوتہائی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ بدھ 10 جولائی کو اسرائیلی فضائیہ نے بمبار طیارے روانہ کرنے سے پہلے اعلان کیا کہ بمباری کا ہدف الشجیعہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے پناہ گزین کیمپ ہیں۔ یعنی اب شہری ہلاکتوں پر ناگزیر یا Collateral نقصان کا پردہ ڈالنے کا تکلف بھی ضروری نہیں اور دیدہ دلیری سے اعلان کرکے کیمپوں پر حملہ کیا جارہا ہے۔ اسی رات غزہ کے النصیرات خیمہ بستی میں اقوام متحدہ کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ وہاں پناہ لینے والے 16 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس اسکول میں بمباری سے متاثر 500 بے گھر افراد کو رکھا گیا ہے جن کی اکثریت ضعیف افراد، خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس کے دوسرے دن غزہ میں فٹبال کھیلتے بچوں پر بمباری کی گئی جس سے پچاس سے زیادہ بچے راکھ بن گئے۔( حوالہ: CNN)
غزہ قتل عام میں معاونت و سہولت کاری کے لیے امریکہ سے پانچ سو پاونڈ کے 1700 بموں کی ترسیل شروع کردی گئی ہے۔رفح حملے کے آغاز پر صدر بائیڈن نے پانچ سو اور دو ہزار پاونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کردی تھی۔گزشتہ ہفتے امریکی اور اسرائیلی وزارت دفاع کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانچ سو پاونڈ کے بم اسرائیل پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ دو ہزار پاؤنڈ کے 1800بموں کی کھیپ بھی جلد اسرائیل روانہ کردی جائے گی۔ تاہم 11 جولائی کو پریس کانفرنس کے دوران NPRکی نمائندہ عاصمہ خالد کے سوال پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ’اسرائیل کو دو ہزار پاونڈ کے بم نہیں دیے جائیں گے۔ امریکی صدر نے کہا غزہ لڑائی کے آغاز پر ہی اسرائیلی قیادت سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ غلطی مت کرو جو امریکہ نے افغانستان میں کی تھی۔ ہمیں بن لادن کے خاتمے کے بعد افغانستان سے نکل جانا چاہیے تھا لیکن ہم وہاں کھڑے اور جمے رہے جس کا امریکہ کو بدترین نقصان ہوا۔صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ غزہ پر قبضہ خود اسرائیل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ غزہ کے خراب عناصر کمزور ہوچکے ہیں، لہٰذا اب اسرائیل کے وہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بی بی انتظامیہ، اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند ترین حکومت ہے،جن کو سمجھانا مشکل ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والے نیٹو اجلاس میں ترک صدر طیب رجب ایردوان نے اسرائیل کے لیے امریکی مدد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس موقع پر نیوزویک کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ شہریوں کا وحشیانہ قتل، ہسپتالوں، امدادی مراکز اور دیگر مقامات پر حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ اسرائیلی جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں میں سہولت کار اور برابر کی شریک ہیں۔ اخباری ذرائع کےمطابق اجلاس کے دوران امریکی صدر کی جانب سے نیٹو اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی خواہش پر صدر ایردان نے صاف صاف کہا کہ ترکیہ، نیٹو اور اسرائیل تعاون کی کسی تجویز کی توثیق تو کیا حمایت بھی نہیں کرے گا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا ‘جب تک مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل سمیت مکمل امن قائم نہیں ہوجاتا، نیٹو اسرائیل تعاون ترکیہ کے لیے قابل قبول نہیں’۔ نیٹو دستور کے تحت کسی بھی نئے معاہدے کی تمام کے تمام ارکان سے توثیق لازمی ہے۔
غزہ امن کے لیے دونوں فریق اب تک قابل عمل معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ اسرائیل غزہ سے پسپائی پر تو تیار ہیں لیکن رفح کی مصر سے ملنے والی سرحد یعنی Philadelphia Corridorاپنے قابو میں رکھنا چاہتاہے جو مزاحمت کاروں کے لیے قابل قبول نہیں۔ٹائمز آف اسرائیل نے 11 جولائی کو بتایا کہ اسرائیل رفح بھی خالی کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔خبر شائع ہوتے ہی وزیراعظم نیتن یاہو کے انتہاپسند اتحادیوں نے آسمان پر اٹھالیا۔ دباو میں آکر بی بی نے اعلان کردیاکہ رفح سے انخلا فیک نیوز ہے، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مذاکرات میں حصہ لینے والے کم ازکم دو اسرائیلی اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کرنے شرط پر ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل، مزاحمت کاروں کی یہ شرط ماننے یعنی ر فح سے ہٹنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بی بی کا جھوٹ اور باربار کا U turn امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
قطر اور قاہرہ میں جاری بات چیت کے ساتھ صدر بائیڈن کے تین مرحلوں پر مشتمل غزہ امن منصوبے کی جو تفصیلات واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی ہیں اس سے یہ تجویز منصوبہ امن سے زیادہ غزہ میں ایک نئی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز لگ رہا ہے۔یہ تفصیلات امریکہ کے معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ اگنیشس (David Ignatius)نے امریکی حکام سے گفتگو کے بعد اپنے کالم میں درج کی ہیں۔جناب اگنیشیس کے مطابق جنگ بندی کے بعد امریکی تربیت یافتہ مقتدرہ فلسطین (PA) کے 2500 سپاہی غزہ تعینات کیے جائیں گے۔ یہ زیادہ تر وہ سپاہی ہیں جو اہلِ غزہ اور PLOکے درمیان 2006 کے خونریز تصادم سے پہلے وہاں کے رہائشی تھے۔تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد ان سپاہیوں کی منظوری اسرائیل دے گا اور اس فوج کو ‘معتدل عرب ‘ ممالک کی حمایت حاصل ہوگی۔ سادہ سے الفاط میں یہ اسرائیلی فوج ہٹا کر عربی بولنے والے اسرائیل نواز دستوں کی تعیناتی کا منصوبہ ہے۔ یا یوں کہیے کہ اب عرب سپاہی اہل غزہ کے سامنے صف آرا ہوں گے۔ رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اہل غزہ بحالی امن کے لیے اپنے اختیار کی قربانی دےکر پٹی کا اختیار و اقتدار مقتدرہ فلسطین کو دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔اب تک اسرائیل اور اہل غزہ کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا لیکن کچھ دن پہلے غزہ کے مزاحمت کاروں نے بہت دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ وہ غزہ کے انتظامی امور میں کسی بھی فریق کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔
فتح و کامیابی کے دعوؤں کے باوجود اسرائیلی فوج اب تک کوئی قابل ذکر عسکری ہدف حاصل نہ کرسکی۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی دستے شجیعہ محلے سے پسپا ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشن مکمل ہونے پر فوجی واپس بلائے جارہے ہیں لیکن مزاحمت کاروں کا دعویٰ ہے کہ ’ہمارے نشانچیوں نے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا‘اسی کےساتھ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف ایک اور کامیاب جاسوسی مشن کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک گھنٹے کے اس بصری تراشے میں حیفا کے بحری اڈے، اس کے شمال میں نھاریا کے ڈرون مرکز، نہر خلیل کے کنارے صفد کی عسکری تنصیبات کے علاوہ مغربی جولان میں قائم فوجی اڈے دکھائے گئے ہیں۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ایران ساختہ جاسوسی ڈرون امریکی آئرن ڈوم حفاظتی نظام کو غچہ دیکر ایک گھنٹے تک حساس مقامات اور تنصیبات کی اطمینان سے فلمبندی کرتا رہا اور اسرئیلیوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔چند ہفتہ پہلے بھی لبنانی ڈرون نے ایسی ہی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہمارے ترکش میں اس کے علاوہ بھی بہت سے تیر ہیں۔ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف راکٹ بازی کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے اور اب کریات شمعونہ کے علاوہ مقبوضہ شامی علاقے مرتفقات الجولان (Golan Heights)بھی ان کا ہدف ہے۔ بارہ جولائی کو جولان پر مسلح ڈرونوں کی بارش سے کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی اورمتعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔ گولان کا پہاڑی سلسلہ شام کا علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کرلیا اور اپنے دور حکومت میں سابق صدر ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا تھا۔
امریکی تعلیمی اداروں میں تعطیلات کے باوجود سرگرمیاں جاری ہیں۔جامعہ ہارورڈ نے غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاجی خیمہ زنی کرنے والے پانچ طلبہ کی معطلی ختم کردی۔ان طلبا کو جن میں ایک Rhodes Scholar پاکستانی اور ہندوستانی طالبہ شامل ہے پورے سیمیسٹر کے لیے معطل کیا گیا تھا۔اب معطلی ختم کرکے ان طلبا کو زیرنگرانی (Probation)رکھ لیا گیا ہے۔ نگرانی کا مطلب ہے کہ ان لوگون کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔ ان طلبا نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت کا تقاضا ہے۔ دوسری طرف جامعہ کولمبیا میں انتقامی کارروائیوں میں شدت آگئی ہے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق کے حکم پر کولمبیا کالج کی ڈین ڈاکٹر سوزن چینک کم، ڈین انڈرگریجویٹ ڈاکٹر کرسٹن کروم اور نائب ڈین طلبا امور ڈاکٹر میتھو پیٹاشنک Matthew Patashnick کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ ان روسائے کلیات پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے دفتر میں فلسطین کا پرچم آویزاں کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر غزہ نسل کشی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوسٹ نصب کی ہیں جن کا کچھ حصہ یہود دشمن یا Anti-Semitic کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ فلسطینی پرچم ہندوستان میں بھی خوف کی علامت ہے۔ اترپردیش کے شہر بھدوہی میں محرم کے جلوس میں فلسطینی پرچم لہرانے پر ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ (حوالہ؛ ٹائمز آف انڈیا)
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 غزہ امن کے لیے دونوں فریق اب تک قابل عمل معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ اسرائیل غزہ سے پسپائی پر تو تیار ہیں لیکن رفح کی مصر سے ملنے والی سرحد یعنی Philadelphia Corridorاپنے قابو میں رکھنا چاہتاہے جو مزاحمت کاروں کے لیے قابل قبول نہیں۔ٹائمز آف اسرائیل نے 11 جولائی کو بتایا کہ اسرائیل رفح بھی خالی کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔خبر شائع ہوتے ہی وزیراعظم نیتن یاہو کے انتہاپسند اتحادیوں نے آسمان پر اٹھالیا۔ دباو میں آکر بی بی نے اعلان کردیاکہ رفح سے انخلا فیک نیوز ہے، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مذاکرات میں حصہ لینے والے کم ازکم دو اسرائیلی اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کرنے شرط پر ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل، مزاحمت کاروں کی یہ شرط ماننے یعنی ر فح سے ہٹنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بی بی کا جھوٹ اور باربار کا U turn امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024