رمضان: عتق من النار(جہنم سے نجات ) کا مہینہ

انتہائی محروم ہے وہ شخص جو رمضان کے ذریعے اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

سب سے اذیت ناک تکلیف جس کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ ہے انسان کا آگ میں جلنا۔ دنیا کی آگ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس میں جلنے والا چند منٹوں میں لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ شدید ہوگی۔ اس آگ کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (سورۃ البقرۃ۱۷۵:) کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں؟
دنیا کی آگ ہم چند لمحات کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے جبکہ جہنم کی آگ ابدی ہوگی۔ جہنم میں آگ سے جل کر جب جِلد ختم ہو جائے گی تو جسم پر نئی جِلد چڑھا دی جائے گی تاکہ جلنے کا عذاب جاری رہے (سورۃ النساء۵۶:) جہنم میں جو مستقل عذاب ہوگا وہ آگ کا عذاب ہوگا۔ ظالموں کے لیے فرمایا گیا کہ جہنم ان کا بچھونا اور جہنم ہی ان کا اوڑھنا ہو گی۔ (سورۃ الاعراف ۴۱:) قرآن میں انسان کی کامیابی کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی حقیقت میں کامیاب ہے۔ (سورۃآ ل عمران ۱۸۵) ایک طرف اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل ہے جس کی بدولت کفر، شرک، نفاق اور ظلم کا بدلہ جہنم کا ٹھکانہ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم میں جائیں۔ جب ایک ماں اپنے بچے کا کسی صورت میں آگ میں جلنا گوار انہیں کر سکتی تو اللہ تعالیٰ کیسے اپنے بندوں کے لیےجہنم کو گوارا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ (سورۃ الزمر۷) ’’وہ اپنے بندوں کے لیے کُفر کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ہدایت کا انتظام کیا اور انہیں مہلت پر مہلت عطا فرمائی تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے بدترین جرائم کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔اللہ نے فرمایا کہ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے (سورۃ الانعام ۱۲، ۵۴) اللہ تعالیٰ کے رحمٰن ہونے میں اس کی لامحدود رحمت کا تصور پایا جاتا ہے جس کی بدولت بڑے بڑے جرائم اور ناقابل ِ تصور گناہ بھی معاف ہوسکتے ہیں۔ اصحاب الاخدود کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اہل ایمان کو اللہ پر ایمان لانے کی پاداش میں گڑھوں میں آگ دہکا کر پھینکا تھا اور ان کے جلنے کا منظر دیکھا تھا۔ ایسے ظالموں کو بھی اللہ تعالی توبہ کا قیمتی موقع عنایت فرماتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اس سنگین جرم کے بعد بھی اگر وہ توبہ کریں تو ان کی بھی معافی ممکن ہے۔ (سورۃ البروج۱۰) معافی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ بندہ احساسِ شرمندگی کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹے اور دوسری شرط یہ ہے کہ قبل از موت توبہ کی جائے۔ ایک عظیم الشان انعام غیر مسلموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ جو کوئی گمراہی کی پستیوں سے نکل کر اللہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ کرلے اور ایمان لے آئے اور عمل صالح کرنے لگے تو اس کے گناہ نہ صرف معاف کیے جائیں گے بلکہ نیکیوں میں تبدیل کر دیے جائیں گے (سورۃ الفرقان ۷۰) سبحان اللہ! کیا کہنے ہیں اللہ کی رحمت کے کہ جن گناہوں کی بدولت بندے کا جہنم میں جانا طے تھا اس کے گناہوں کو نہ صرف معاف کر دیا جاتا ہے بلکہ اسے انعام و اکرام سے بھی نواز دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا انعام کیوں رکھا ہے؟ یہ اس لیے کہ کفر و شرک کی گمراہی اور ظلم کی کھائی جتنی گہری ہوگی اس سے نکلنا بھی اتنا ہی دشوار ہوگا۔ جو اس دشواری کے باوجود اللہ کی طرف پلٹے گا اللہ تعالیٰ اس کی کوشش کی قدر فرمائے گا اور اس کے بدلے اس کے گناہوں کو نیکیوں سے مبدّل کردے گا۔ لیکن یہ سارے مواقع ان لوگوں کے لیے ہیں جو موت سے قبل سچی توبہ کریں۔ موت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کے ظہور کا آغاز ہو جاتا ہے۔ لا محدود رحمت کے ساتھ معافی کا موقع قبل از موت تک ہے۔ فرعون نے بھی ایمان لانے اور اللہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ کیا تھا مگر اس وقت، جب اس نے سمندر میں ڈوبتے ہوئے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا (سورۃ یونس۹۰ تا ۹۲) چونکہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ اسے کب موت کا مزہ چکھنا ہے اس لیے وہ لوگ انتہائی خوش قسمت ہیں جن کو زندگی میں توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ رحمٰن ہونے کی صفت میں لا محدود رحمت کا تصور موجود ہے جو دنیا کی زندگی میں ہر اس شخص کے لیے دستیاب ہے جو اللہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ کرے۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اللہ کا رحیم ہونا موت کے بعد کی زندگی کے لیے ہے اور اہلِ ایمان کے لیے خاص ہے۔ اس کے برعکس جن کی موت کفر یا شرک پر ہوئی ہو ان کو عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جہنم میں سزا دی جائے گی اور ان کی سزا میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔ (سورۃ البقرۃ۱۶۲) اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ حقیقت میں یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے (سورۃ آ ل عمران۱۱۷) اس لیے کہ اللہ کی لا محدود رحمت انتظار کر رہی تھی کہ بد ترین مجرم بھی اپنی موت سے قبل توبہ کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ موت کا فرشتہ آنے سے قبل اگر وہ احساسِ ندامت کے ساتھ سچی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔
انسان جب معصیت پر معصیت کرتا چلا جاتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ میں کس طرح اللہ کی طرف پلٹوں جب کہ میں نے اس کو بہت ناراض کیا ہے اور وہ اللہ سے مایوس ہونے لگتا ہے۔ شیطان بھی انسان کو مایوسی میں مبتلا کرکے اس کو اللہ تعالیٰ سے مزید دور کر دینا چاہتا ہے۔ایسے بندوں سے اللہ تعالی بہت ہی پیارے انداز میں مخاطب ہو کر فرماتا ہے قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (سورۃ الزمر۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاو، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے جو اس کی طرف پلٹتا ہے، اس طرح خوش ہوتا ہے جیسے ایک مسافر ہو اور صحرا میں اس کا اونٹ کھو چکا ہو جس پر اس کا سامانِ زندگی رکھا ہوا ہو۔ اونٹ کے کھو جانے سے اس کی زندگی خطرہ سے دوچار ہو چکی ہے، پھر وہ دیکھتا ہے اچانک اس کا اونٹ نمودار ہوتا ہے تو جو خوشی اس مسافر کو ہوتی ہے اسی طرح کی خوشی اللہ کو ہوتی ہے جب اس کا کوئی بھٹکا ہوا بندہ اس کی طرف پلٹتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فیضان کہ اس نے رمضان کے مہینے کو رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ بنایا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی ہلاک ہو جس کے پاس رمضان کا مہینہ آیا لیکن اس کی مغفرت ہونے سے قبل ہی وہ گزر جائے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ایک بیش بہا نعمت ہے جو ہر سال اہل ایمان کی مغفرت کا سامان لیے ہوئے آتا ہے تاکہ اللہ کے بندے جہنم سے آزاد ہوں۔ ہم دانستہ گناہوں کے ساتھ کئی نا دانستہ گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ گناہ بڑھتے بڑھتے ہم کو جہنم سے قریب کر دیتے ہیں۔رمضان کا مہینہ آکر ہمیں ایسا زرین موقع عطا کرتا ہے کہ اس ماہ میں صیام و قیام اور نیک اعمال کے ذریعے ہم جہنم سے دور اور جنت سے قریب کر دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ عتق من النار یعنی جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب فراہم کیے ہیں کہ گناہوں کی کثرت کے باوجود رمضان جیسے موقع پر صیام وقیام اور توبہ و استغفار کے ذریعے سارے گناہوں سے معافی مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص برباد ہوا جو رمضان کو پائے لیکن اپنی مغفرت کا سامان نہ کر لے۔
شبِ قدر کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو اس رات کی بیش بہا برکت سے محروم رہا وہ انتہائی محروم شخص ہے۔شبِ قدر کو ہزار مہینوں سے بہتر بتلایا گیا جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ ایک انسان کی عمر بھی لگ بھگ ہزار مہینوں کے برابر (۸۳ سال) ہوتی ہے اگر اس کو اوسط عمر سے زیادہ طویل عمر نصیب ہو جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر سال یہ موقع عنایت فرماتا ہے کہ ایک مسلمان محض ایک رات میں طویل عمر کی عبادت کا ثواب حاصل کر کے جہنم سے بچنے کا پروانہ حاصل کرلے۔ عقلمندی یہی ہے کہ ہر رمضان کو ہم آخری رمضان سمجھ کر گزاریں اور شبِ قدر کو خاص اہتمام کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کریں۔ صرف طاق راتیں ہی نہیں بلکہ پورے آخری عشرے کی راتوں میں قیام اور توبہ و استغفار کریں۔ اس لیے کہ تاریخوں میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔ اس رات کی ایک خاص دعا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو سکھائی ہے وہ یہ ہے:اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
اے اللہ! تو خوب معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کی راتوں میں قیام کیا اور شبِ قدر میں عبادتوں کا اہتمام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ایمان کے ساتھ روزہ رکھنے اور قیام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو ایمان بالغیب حاصل ہو۔ اللہ کی ذات پر کامل یقین ہو۔ یوم آخرت پر ایسا یقین ہو جیسا ہم اپنی آنکھوں سے حشر و نشر، جنت اور جہنم کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایمان کیسے نصیب ہو سکتا ہے اور اس میں کیسے بلندی حاصل ہوسکتی ہے؟ یہ ایمان قرآن کی تلاوت (سمجھ کر پڑھنے) سے حاصل ہوگا (سورۃ الانفال:۲) اور وہ اسی قدر بڑھے گا جس قدر قرآن پر تدبّر حاصل ہوگا۔ قرآن میں ایمانیات کو مستحکم کرنے کے لیے پر زور دلائل دیے گئے ہیں۔آج امتِ مسلمہ کے بیشتر افراد قرآن کو ثواب کی نیت سے تو پڑھتے ہیں لیکن ہدایت حاصل کرنے کے ارادے سے تراجم اور تفاسیر کی مدد سے نہیں پڑھتے اور نہ قرآن کی آیات پر تدبّر کرتے ہیں۔اس لیے ہمارا ایمان شعوری نہیں بلکہ روایتی ہوتا ہے۔اسی وجہ سے رمضان کے اختتام پر روزے کے اثرات فی الفور غائب ہو جاتے ہیں۔اگر ہمیں شعوری ایمان حاصل ہوتا اور روزے کے مقاصد بھی ہمارے ذہن نشین ہوتے تو ان روزوں کے اثرات باقی گیارہ مہینوں تک باقی رہتے یہاں تک کہ ہر اگلا رمضان آکر ہمارے ایمان و تقویٰ کو مہمیز دینے کا ذریعہ بنتا۔احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے اور قیام کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ استحضار رہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہماری نیتوں اور ارادوں سے بھی واقف ہے۔ احتساب کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم کو یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے صیام و قیام کا اجر عطا فرمائے گا۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ محنت کے معاوضہ کے ملنے کا یقین ہو تو آدمی محنت کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیتا ہے۔اگر معاوضہ ملنے کا یقین نہ ہو تو کوئی بھی تن دہی اور یکسوئی کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔اس لیے بندہ کو یہ یقین ہو کہ اللہ اس کے صیام و قیام کو دیکھ بھی رہا ہے اور وہ اس کی بہترین جزا دینے والا بھی ہے۔ایمان و احتساب جب روزہ میں شامل نہ ہو تو ایسا روزہ معاشرتی دباؤ کے تحت رکھا جانے والا روزہ تو ہوسکتا ہے لیکن وہ تقویٰ پیدا کرنے والا روزہ نہیں ہوسکتا۔اس لیے پچھلے گناہوں کی معافی کے لیے ایمان و احتساب کی شرط رکھی گئی ہے۔
رمضان کے مہینے میں اللہ کی رحمت بام ِعروج پر ہوتی ہے۔جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعاؤں کا ہمیں ہر روز اہتمام کرنا چاہیے ۔
جہنم کے عذاب سے پناہ کی دعائیں :
۱۔ رَبَّنَا ٱصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا إِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّۭا وَمُقَامًۭا (سورۃ الفرقان ۶۵، ۶۶) ’’اے ہمارے رب ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے بے شک اس کا عذاب پوری تباہی ہے، بے شک وہ برا ٹھکانا اور بڑی بری قیام گاہ ہے‘‘۔
۲۔ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ آل عمران۱۶) ’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، ہماری خطاؤں سے در گزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا لے‘‘۔
۳۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ البقرۃ:۲۰۱)’’ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘
۴۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ آل عمران۱۹۱) ”پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ‘‘
۴۔ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ (صحیح مسلم ۵۹۰ ) ’’اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، مسیحِ دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘
ایک اور مختصر دعا ہے :اللھُمَّ اَجِرنا مِنَ النَّار’’اے اللہ ہم کو آگ (جہنم ) سے بچا‘‘
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرے تو جنت کہتی ہے، اے اللہ اسے جنت میں داخل فرما اور جو شخص تین دفعہ آگ سے پناہ مانگے تو آگ خود کہتی ہے یااللہ! اس کو آگ سے بچا۔
وہ کون سے کام ہیں جو انسانوں کو جہنم میں پہنچاتے ہیں :
۱۔ کُفر: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الأرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (سورۃ آل عمران۹۱) ’’یقین رکھو کہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے‘‘
۲۔ شرک: اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ (سورۃ المائدۃ۷۲) ’’یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھیراتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے‘‘
۳۔ منافقت: ایسے اعتقادی منافق جو مسلمانوں میں شامل ہوں لیکن وہ دل میں ایمان نہیں رکھتے ان کو جہنم کے نچلے درجے میں رکھا جائے گا۔ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (سورۃ النساء:۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مدد گار نہ پاؤ گے‘‘
۳۔ کبیرہ گناہ: ایمان رکھنے کے باوجود جو لوگ کبیرہ گناہ میں ملوث ہوں اور توبہ نہ کریں تو ایسے گناہ جہنم میں پہنچا سکتے ہیں۔ کبیرہ گناہ احادیث میں بیان کیے گئے ہیں جیسے تکبر، زنا، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ ۔
۴۔ حقوق العباد: قیامت میں ایک آدمی نیکیاں لے کر آئے گا لیکن وہ دوسرے انسانوں کے حقوق پامال کرکے آیا ہوگا۔سب سے پہلے اس آدمی کی نیکیاں دوسروں کے حقوق کے بقدر ان میں بانٹ دی جائیں گی۔اگر اعمال نامے میں سے نیکیاں ختم ہو جائیں تو دوسروں کے گناہ ان حقوق کے بقدر اس کے نامۂ اعمال میں ڈالے جائیں گے۔ اس کے بعد اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری امت کا سب سے مفلس شخص ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز جنت میں لے جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا: تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ ’’اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق‘‘ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز جہنم میں پہنچائے گی؟ تو آپ نے فرمایا : اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ ’’ منہ اور شرمگاہ‘‘ (سنن الترمذی۲۰۰۴) اس حدیث کی رو سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے منہوؤں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ منہ سے کسی کو گالی نہ دیں۔ جھوٹ، غیبت، فحش گوئی اور چغل خوری سے اپنی زبان کو پاک رکھیں۔ صرف حلال غذا حلق سے نیچے اتاریں اور حرام سے بچیں۔ اسی طرح اپنی شہوت کو جائز طریقے سے پوری کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025