راجہ.چھتر پتی شیواجی، تاریخ کا مظلوم حکمراں

شیواجی نے ہندو راشٹر بنانے کی نہیں بلکہ ماں کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی تھی

سید مقصود، ظہیرآباد

مسلمانوں کو چاہیے کہ شیواجی سے متعلق نظریات کو تاریخی سچائی کی بنیاد پر دیکھیں۔ ہندو چونکہ ’شیواجی مہاراج کی جئے‘ کہتے ہیں اسی لیے بعض مسلمان شیواجی کو ہندو مذہب کا محافظ اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
تاریخ گزرے ہوئے لوگوں کا حافظہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کا حافظہ خراب ہو جائے یا کر دیا جائے تو اس کے حال کا خانہ خراب ہونے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ حقیقت افسانے بن جاتے ہیں اور افسانے تاریخ، اور پھر تاریخ، افسانوں کا مجموعہ یا دیوانے کی بڑ بن جاتی ہے اور اگر تقلید تحقیق کی جگہ لے لے تو حقیقت مکمل معدوم ہوجاتی ہے۔
راجہ شیواجی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ کہانیاں، ناول، ڈرامے، تماشے، گیت، پواڑے، فلمیں، تصویریں، تقریریں، تاریخیں بہت ہوچکیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود شیواجی کی شخصیت اور ان کی کارکردگی پر جن عناصر نے اثر ڈالا اور ان کی جو تصویر عوام کے سامنے لائی ہے وہ تاریخی حقائق سے بہت دور ہے۔اور حقیقی شیواجی آج بھی عام عوام کی نظروں سے اُوجھل ہیں، کیونکہ اب تک جتنے لوگوں نے بھی ان کے حوالے سے کچھ کام کیا ہے ان میں سے ہر ایک نے راجہ شیواجی کو اپنی نظر سے دیکھا اور دکھایا ہے، لہذا اگر غور کیا جائے تو سماج میں برہمنوں کے شیواجی، مول نواسی کے شیواجی، مہاتما جوتی راؤ پھولے کے شیواجی اور مسلمانوں کے شیواجی الگ الگ ہیں۔ اس طرح راجہ شواجی اپنے کردار کے حوالے سے کئی حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ اب ان ساری تقسیموں کے درمیان حقیقی شیواجی کون تھے اس کا خلاصہ اگلی سطور میں ملاحظہ کریں۔ قبل اس کے کہ حقیقت معلوم کریں مندرجہ بالا مختلف جماعتوں کے نزدیک شیواجی کی کیا تصویر پائی جاتی ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
برہمنوں کے شیواجی: برہمنوں کی ایک پرانی عادت رہی ہے کہ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اپنے سخت مخالفوں کو بھی خود میں ضم کرلیتے ہیں اور ہضم کر جاتے ہیں۔ اگر اس تناظر میں راجہ شیواجی کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تلک اور مشہور تاریخ دان پوریندرے نے یہ بات مشہور کردی تھی کہ ’’راجہ شیواجی گاؤ برہمن پرتی پالک تھے‘‘ یعنی وہ برہمنوں اور گائے کے محافظ تھے۔ 1923ء میں کانگریس کے قوم پرست رہنما اور آریہ سماج تحریک کے روح رواں لالہ لاجپت رائے نے شیواجی پر بہ زبان اردو ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کے صفحہ نمبر 43 پر وہ لکھتے ہیں کہ ’شیواجی نے اپنے دھرم کی رکشا کی اور گاؤو برہمنوں کو بچایا‘ اسی طرح ایک انگریز تاریخ داں گرائنٹ ڈف اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں کہ’’ شیواجی نے گائے، رعیت اور عورتوں کو لوٹنے سے اپنے سپاہیوں کو منع کیا تھا‘‘ رعیت اور عورت کے ساتھ گائے اور برہمن کو ایک سازش کے تحت جوڑا گیا اور اس کا خوب پرچار بھی کیا گیا کیونکہ وہ لوگ عوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ شیواجی گائے اور برہمن پرتی پالک تھے۔ اس کے پیچھے کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو بدنام کیا جائے کیونکہ مسلمان گائے کھاتے تھے جبکہ مہاراج گاؤ پالک تھے۔لہذا اس بات کو اس وقت کے بادشاہوں سے جوڑ کر بتایا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بادشاہ شیواجی کے خلاف ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی زور و شور سے پھیلایا گیا کہ شیواجی برہمن پرتی پالک بھی تھے، یعنی برہمنوں کے پالنہارے تھے۔ اس کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ اپنا مفاد پورا کیا جاسکے۔ یعنی اگر شیواجی برہمن پالک تھے تو شیواجی کو پوجنے اور ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ برہمنوں کی بھی پوجا کریں۔ اس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں سے نفرت پھیلانے اور اپنی پوجا کروانے کا خوب انتظام کرلیا۔ جب کہ شیواجی کے دور کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے دور میں برہمنوں کو کوئی خاص سہولتیں نہیں دی گئی تھیں بلکہ اس کے برخلاف شیواجی کا ایک مراسلہ دستیاب ہے جس میں وہ کچھ شرارت پسند برہمنوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’کوئی برہمن یہ نہ سمجھے کہ وہ برہمن ہے اسی لیے اس کا لحاظ کیا جائے گا‘‘ اس طرح برہمنوں کو تاکید کی اور دھمکایا کہ جو دشمن ہوگا اس کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ ہوگا‘‘ ایک اور بات یہ پھیلائی گئی کہ ’’شیواجی نے اپنے دھرم کی رکشا کی تھی‘‘ جس کا تذکرہ لالہ لاجپت رائے نے کیا ہے۔ اب اس ضمن میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے دھرم کی راجہ شیواجی نے حفاظت کی تھی؟ کیونکہ اس وقت جو دھرم تھا وہ دراصل ہندو دھرم نہیں بلکہ وہ ’ورن دھرم‘ یا ’برہمن دھرم‘ تھا، لہذا اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اب اگر راجہ شیواجی کی زندگی کا جائزہ لیں تو جس وقت انہوں نے کئی سارے علاقے فتح کیے تو انہیں اپنی ماں کی ایک خواہش یاد آگئی کہ ان کا بیٹا راجہ بن جائے لہذا راجہ شیواجی نے اپنی باقاعدہ تاج پوشی کرواکر قانوناً راجہ بننے کا ارداہ ظاہر کیا تو اس وقت برہمنوں نے تاج پوشی کرنے سے اس بنیاد پر انکار کر دیا کہ وہ ورن دھرم کے حساب سے شودر ہیں اور شودر کو راجہ نہیں بنایا جاسکتا اور منوسمرتی کا اشلوک پیش کیا کہ ’’شودر کے لیے ایک ہی کرم پر بھونے ٹہرایا یعنی صدق دل سے تین ورنوں کی خدمت کرے‘‘
(منو سمرتی باب نمبر ۱ ،شلوک نمبر ۹۱) راجہ بننے کا حق تو صرف چھتری کو ہی ہے۔ اس حکم کو سامنے رکھ کر گاگا بھٹ نامی بنارس کے پنڈت نے گاگا بٹھی نام کی کتاب لکھی اور راجہ شیواجی کو راجستھان کا سیسوڈیہ چھتری ثابت کیا۔ اس کے بعد ان کی تاج پوشی 1647ء میں بڑی بے عزتی کے ساتھ کی گئی یعنی ایک برہمن نے اپنے پیر کے انگھوٹے سے شیواجی کے ماتھے پر تلک لگایا۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر شیواجی ہندو ہوتے اور ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے تو ان کے ساتھ برہمنوں نے ایسا رویہ کیوں روا رکھا؟حقیقت یہ ہے کہ شیواجی شودر طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کو برہمنوں نے جان سے مارنے کی بھی کئی مرتبہ کوشش کی تھی ۔ اس کے لیے دو مرتبہ چنڈی یگنیہ یعنی ایک خاص پوجا بھی کی گئی تھی کہ اس پوجا کے اثر سے شیواجی کی موت واقع ہو جائے لیکن جب دونوں مرتبہ شیواجی زندہ بچ گئے تو تیسری مرتبہ عملی اقدام کیا گیا اور انہی کے وزیر کے ذریعہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اب آخری سوال یہ کہ ان حالات کے باوجود شیواجی برہمن پالک کیسے ہوئے تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ برہمنوں نے شیواجی کے بعد عوام میں ان کی مقبولیت کو دیکھ کر خود کو ان سے منسوب کرلیا تاکہ اپنا مفاد پورا کیا جاسکے۔
جوتی بھا پھولے کے شیواجی: کل واڑی بھوشن (کسانوں کی حفاظت کرنے والے)
جوتی بھا پھولے نے راجہ شیواجی کو کل واڑی بھوشن سے تعبیر کیا جو کسانوں کا راجہ تھا۔ زمانہ قدیم سے ایک طریقہ چلا آرہا تھا کہ دیش مکھ، دیش پانڈے، دیسائی، پاٹل،کلکرنی، میراث دار اور زمیندار وغیرہ کسانوں سے ظلم کے ذریعہ محصول وصول کیا کرتے تھے۔ راجہ شیواجی نے محصول وصول کرنے کے لیے الگ سے تنخواہ دار نوکر رکھے اور ساتھ ہی قحط سالی اور آفات سماوی کی صورت میں ان کا محصول معاف بھی کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی بیج اور کاشت کاری کے لیے کسانوں کو زرعی اوزار بھی دیے جاتے تھے۔ فوج جب کوچ کرتی تو حکم تھا کہ درختوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے، کھیتوں کو روندا نہ جائے، کسانوں سے چارہ وغیرہ زبردستی حاصل نہ کیا جائے۔ اس طرح کے احکامات جاری کیے اور خلاف ورزی پر سزائیں بھی دیں۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں۔ اسی وجہ سے کسان شیواجی کو اپنا راجہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان ذاتوں سے تعلق رکھنے والے بہت سارے افراد فوجی خدمات رضاکارانہ طور پر بھی انجام دیا کرتے تھے۔
بہوجنوں کے شیواجی: شیواجی کو مول نواسیوں کا راجہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے غیر چھتریوں اور کئی اچھوت ذاتوں کو اپنی فوج میں شامل کیا تھا اور جاگیریں بھی دی تھیں کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جن کو ہتھیار رکھنے اور جنگ لڑنے سے ورن دھرم روکتا تھا۔ شیواجی راجہ کی انہی کرم فرمائیوں کی وجہ سے انہی کی نسل کے لوگوں نے یکم جنوری 1818ء کو پیشواؤں کے خلاف کورے گاؤں کی جنگ میں پیشوائی کو ختم کیا تھا اور اسی طرح سِدناگ، ناگ ناتھ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
مسلمانوں کے شیواجی: جس طرح دیگر طبقات شیواجی کو اپنا راجہ کہتے ہیں بالکل اسی طرح مسلمانوں کی ایک جماعت بھی شیواجی کو اپنا راجہ کہتی ہے کیونکہ انہوں نے اس دور میں کئی مسلم لوگوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا تھا۔ ’شیواجی مہاراج کے وفادار سپہ سالار‘ کے مصنف ’پریم ہنوتے‘ نے ان تمام مسلم سرداروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جنہیں شیواجی نے اپنی فوج مین اونچے عہدے عطا کیے تھے۔ اس کتاب میں کئی اہم سرداروں کے نام ملتے ہیں۔ آج کے دور میں چیف مارشل کی جو حیثیت ہوتی ہے وہی حیثیت اس زمانے میں ’سر نوبت‘ کی ہوا کرتی تھی اور شیواجی نے ایک مسلمان ’سردار نورخان بیگ‘ کو سر نوبت کا عہدہ دیا تھا۔ اسی طرح شیواجی نے جب بحری بیڑہ تیار کیا تو اس کی ذمہ داری سردار دریا سارنگ کو دی تھی۔ توپ خانہ کی ذمہ داری ابراہیم خان کے سپرد تھی۔ شیواجی کے وکیلِ سلطنت قاضی حیدر تھے۔ آج شیوا جی کی جو تصویر بازار میں ملتی ہے اس کو بنانے والا مصور محمد علی تھا۔ اگر وہ تصویر نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ شیواجی کیسے نظر آتے تھے۔ شیواجی کے دور میں ان کی شہرت سن کر سات سو پٹھان بیجاپور کی مسلم حکومت کو چھوڑ کر شیواجی کی فوج میں داخل ہوئے تھے۔ اپنی جان پر کھیل کر شیواجی کی جان بچانے والے مدھاری میتھر، سدھی ہلال، شمع خان اور بھی کئی مسلم سرداروں کے نام ملتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سارے لوگ ہندو راشٹر بنانے کے لیے شیواجی کی مدد کر رہے تھے؟
دراصل بات یہ ہے کہ تلک پوریندرے نے یہ بات پھیلادی تھی کہ گنپتی کی خواہش ہے کہ ہندو راج بنایا جائے اور شیواجی ہندو راشٹر بنانے کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیواجی راجہ کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ وہ راجہ بنیں۔ اسی لیے وہ آخری دم تک لڑتے رہے۔ شیواجی کی والدہ جئے جاؤ کے سلسلے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے والد لکھوجی جاؤ یعنی شیواجی کہ نانا مغلوں کے یہاں سردار تھے اور جئے جاؤ کے شوہر یعنی شیواجی کے والد نظام شاہیوں کے سردار تھے۔ اس وقت کے سیاسی حالات کچھ ایسے ہوئے کہ مغلوں اور نظام شاہیوں میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا۔ جئے جاؤ کے والد اور شیواجی کے والد دونوں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل ہونے کی صورت پیدا ہوگئی۔ شیواجی کی والدہ جئے جاؤ نے سوچا کوئی بھی جیتے مغل یا نظام شاہی ہار تو ہمارے ہی گھر میں ہوگی۔
اس وقت جئے جاؤ نے شیواجی سے کہا کہ ’’دوسروں کا راج قائم کرنے کے لیے لڑنے کے بجائے کیوں نہ اپنا خود کا راج قائم کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالی جائے اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے شیواجی نے کہا میری ماں کی خواہش ہے کہ ہمارا راج قائم ہو‘‘ اور اسی کو بنیاد بنا کر یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہندو راشٹر بنانا چاہتے تھے۔ دراصل وہ ہندو راشٹر نہیں بلکہ اپنے خود کے خاندان کا راج بنانا چاہتے تھے جو کہ ان کی ماں کی خواہش تھی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ شیواجی کے تعلق سے ان نظریات کو تاریخی سچائی کی بنیاد پر تحقیق کر کے دیکھیں۔ ہندو چونکہ شیواجی مہاراج کی جئے کہتے ہیں اسی لیے بعض مسلمان شیواجی کو ہندو مذہب کا محافظ اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
بھارت کے مسلمان عام طور پر ہر واقعہ کا رد عمل بڑی خوبی سے نبھاتے ہیں، لیکن صرف ردعمل ہی دکھاتے ہیں اقدام نہیں کرتے، جبکہ اقدام کرنے والا اپنے طے شدہ مقصد کو نظر میں رکھ کر کرتا ہے۔ جب حسب منشا رد عمل آتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ آزادی سے دو دہائی پہلے اور آزادی کے بعد یہاں کی اعلی ذات والے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے اور آج کے دور میں اس کو برقرار رکھنے کے لیے کسی نہ کسی طریقے سے کوشش کرتے آرہے ہیں اور ہر مسئلہ کو ہندو اور مسلمان کے پس منظر میں دکھاتے ہیں اور بھولے بھالے مسلمان اسی نظر سے دیکھتے بھی ہیں اور غیر محسوس طریقے سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ ہماری تنظیموں، تحریکوں اور شخصیتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ واضح رد عمل دکھانے کے بجائے کوئی مناسب حکمت عملی سے کام لیا جائے تاکہ دشمن ناکام و نامراد ہوسکے۔
***

 

***

 شیواجی کی والدہ جئے جاؤ کے سلسلے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے والد لکھوجی جاؤ یعنی شیواجی کہ نانا مغلوں کے یہاں سردار تھے اور جئے جاؤ کے شوہر یعنی شیواجی کے والد نظام شاہیوں کے سردار تھے۔ اس وقت کے سیاسی حالات کچھ ایسے ہوئے کہ مغلوں اور نظام شاہیوں میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا۔ جئے جاؤ کے والد اور شیواجی کے والد دونوں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل ہونے کی صورت پیدا ہوگئی۔ شیواجی کی والدہ جئے جاؤ نے سوچا کوئی بھی جیتے مغل یا نظام شاہی ہار تو ہمارے ہی گھر میں ہوگی۔ اس وقت جئے جاؤ نے شیواجی سے کہا کہ ’’دوسروں کا راج قائم کرنے کے لیے لڑنے کے بجائے کیوں نہ اپنا خود کا راج قائم کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالی جائے اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے شیواجی نے کہا میری ماں کی خواہش ہے کہ ہمارا راج قائم ہو‘‘ اور اسی کو بنیاد بنا کر یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہندو راشٹر بنانا چاہتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023