راجستھان: اسکول میں دو طالب علموں کے درمیان معمولی تنازعہ فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہو گیا
چاقوسے حملے کے بعد فرقہ پرست ہندو تنظیموں نے فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دی،ملزم کا گھر انتظامیہ نے منہدم کر دیا،کرایہ پر رہنے پر مجبور،علاقے میں خوف کا ماحول
ادے پور نئی دہلی، 18 اگست:
راجستھان میں بی جے پی کی حکومت کی آمد کے بعد ہندو نوازوں کے حوصلے بلند ہیں یہی وجہ ہے کہ معمولی تنازعہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ میں تبدیل کر کے شہر کو آگ کے حوالے کر دیا گیا ۔ گزشتہ دنوں 16 اگست کو جمعہ کے دن ایک سرکاری اسکول کے دو طالب علموں کے درمیان معمولی تنازعہ ہوا جس میں ایک مسلم طالب علم نے دوسر ے ہندو طالب علم کو چاقو مار کر زخمی کر دیا۔یہ خبر جیسے ہی ہندو تو تنظیموں کو ملی مانو وہ اسی انتظار میں بیٹھے تھے۔ انہوں اس واقعہ پر جم کر ہنگامہ کیا جس میں توڑ پھوڑ، شاپنگ مالز میں پتھراؤ، اور گیراج میں کھڑی گاڑیوں کو نذر آتش کرنا شامل ہے۔دوپہر کو شروع ہوا معاملہ شام ہوتے ہوتے اس قدر سنگین ہو گیا کہ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس ک لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ بڑھتے ہوئے تشدد کے جواب میں، ضلع کلکٹر نے شہر بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا، جبکہ ڈویژنل کمشنر نے جمعہ کی رات 10 بجے سے 24 گھنٹے انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم دیا۔واقعہ کے بعد سے ماحول کشیدہ ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری متاثرہ علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات کی گئی ہے۔
دریں اثنا روایت کے مطابق راجستھان کی بی جے پی حکومت نے ہفتہ کو نابالغ ملزم کا گھر منہدم کر دیا۔ میونسپل کارپوریشن کے اہلکار دیوان شاہ علی کالونی میں ملزم کے والد سلیم شیخ کے گھر پہنچے۔ حکام نے جائیداد کو مسمار کرنے کی مہم شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ خاندان نے محکمہ جنگلات کی زمین پر غیر قانونی طور پر مکان تعمیر کیا تھا۔ تین دن کا نوٹس جاری کرنے کے باوجود انہدام کا کام تیز کر کے چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا گیا۔ میونسپل ٹیموں نے گھر سے سامان ہٹا دیا، بجلی کی سپلائی منقطع کر دی، اور عمارت کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا، یہ سب کچھ پولیس کی بھاری حفاظت میں تھا۔
ضلع کلکٹر اروند پوسوال کے مطابق ابتدائی واقعہ 16 اگست کی صبح پیش آیا جب دو طلبہ آپس میں لڑ پڑے جس کے نتیجے میں ایک طالب علم نے دوسرے کو چاقو مار دیا۔ زخمی طالب علم کو فوری طور پر اسپتال میں داخل کرایا گیا اور فی الحال اس کی حالت مستحکم ہے۔ یہ جھگڑا، اگرچہ معمولی تھا، لیکن بعض گروہوں نے سنسنی خیزی کا مظاہرہ کیا، جس سے فرقہ وارانہ بھڑک اٹھی۔
کنہیا لال قتل کیس کے بعد سے صورتحال خاصی نازک رہی ہے، یہاں تک کہ معمولی واقعات کو بھی فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں، سماج دشمن عناصر اور بعض ہندو تنظیموں کے ارکان مبینہ طور پر کشیدگی کو ہوا دینے کے ذمہ دار تھے۔ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ملزم طالب علم کے والد کا گھر مسمار کرنے کے فیصلے نے خاصی توجہ مبذول کرائی ہے۔ انہدامی کارروائی کے بعد متاثرہ کا خاندان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہے۔فی الحال کرایہ کے مکان میں شفٹ ہو گیا ہے۔جہاں زخمی طالب علم کا علاج چل رہا ہے وہاں اسپتال میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔