
ذات پر مبنی مردم شماری! انتخابی حکمت عملی کا حصہ!!
نیت مشکوک۔ مسلم اکائی کو کئی ٹکروں میں منقسم کرنے کا کھیل؟
نوراللہ جاوید، کولکاتا
انصاف، مساوات اور یکساں مواقع فراہم کرنے کے جذبے کا فقدان
جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی حصہ داری‘‘ اس اصول کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوناچاہیے ‘‘
طویل عرصے سے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو حکومت کی جانب سے کبھی لیت و لعل سے اور کبھی ’’بٹوگے تو کٹوگے‘‘ جیسے اشتعال انگیز اور نفرت آمیز نعروں کے ذریعے رد کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن، بالخصوص کانگریس پارٹی جو مذہبی پولرائزیشن کا مؤثر جواب دینے میں مسلسل ناکام رہی، اس نے بے بسی کے عالم میں ذات پر مبنی سروے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اپنانا شروع کیا — اور جب معاملہ سیاسی رخ اختیار کرنے لگا تو بی جے پی کو بھی آخرکار ہوش کے ناخن لینے پڑے۔
اور ایک ایسے وقت میں جب پہلگام دہشت گرد حملے کی وجہ سے ملک صدمے سے دوچار ہے جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے، فوج کو کارروائی کرنے کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے — ان حالات میں مرکزی حکومت نے مردم شماری کے ساتھ ذات کی بنیاد پر بھی سروے کرنے کا اعلان کرکے سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔
اگرچہ ذات کی بنیاد پر سروے کرانے کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے — بہار، کرناٹک اور تلنگانہ جیسی ریاستوں نے یہ سروے مکمل کرائے بھی ہیں — لیکن جن حالات میں سروے کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے وہ حیران کن ضرور ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار مرکز کے اس فیصلے کو "ماسٹر اسٹروک” یا اپوزیشن سے "ایشو چھیننے” والا اقدام قرار دے کر سطحی تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ذات کی بنیاد پر سروے کے غیر متوقع سیاسی و سماجی اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔
اگر ایمانداری سے یہ سروے کیا گیا تو ملک کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ آزادی کے بعد کس طرح مٹھی بھر افراد ملک کے وسائل، اقتدار اور بیوروکریسی پر حاوی رہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی سے بڑی آبادی اب بھی فیض یاب ہونے سے محروم ہے۔
مجوزہ ذات پات کی مردم شماری بی جے پی کو نظریاتی مستقل مزاجی اور سیاسی عملیت پسندی کے دوراہے پر کھڑا کرتی نظر آ رہی ہے۔ آر ایس ایس جو بی جے پی کی نظریاتی سرپرست ہے، تاریخی طور پر ذات پات کو ہندو سماج میں تقسیم کرنے والی قوت کے طور پر دیکھتی رہی ہے۔ آر ایس ایس ہمیشہ سماجی تفریق کے بجائے ثقافتی اتحاد کی وکالت کرتی رہی ہے، مگر انتخابی سیاست کی مجبوریوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو اس کڑوے گھونٹ کو پینے پر مجبور کر دیا ہے، کیونکہ اوبی سی اور دلتوں میں حکم رانی اور مساوات کی خواہش مضبوط ہوئی ہے۔
اسی لیے بی جے پی اور آر ایس ایس نے نظریاتی مستقل مزاجی کو ایک طرف رکھ کر سیاسی نفع و نقصان کے تناظر میں ذات پات کی مردم شماری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل جب کانگریس نے اس مطالبے کو اٹھایا تھا تو بی جے پی کا ردعمل یا تو ٹال مٹول پر مبنی رہا یا پھر اسے ثقافتی بالا دستی اور سناتن اتحاد کے نام پر مسترد کر دیا گیا۔
2023 کے اواخر میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ملک میں صرف چار ذاتیں ہیں: غریب، نوجوان، خواتین اور کسان۔ مذہبی بنیاد پر سیاست کے ماہر بن چکے مودی، سماجی مساوات کے مطالبے کو مسترد کرنے کے لیے مارکسی نظریے کو اختیار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ مودی حکومت نے اپنے گزشتہ دس سالہ دورِ اقتدار میں ذات پات کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کو بے معنی بنانے کے لیے فلاحی اسکیموں کی شروعات کی۔ اگرچہ یہ اسکیمیں حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری، مواقع کی کمی اور دولت کے ارتکاز کے تدارک کے طور پر پیش کی گئیں مگر مودی حکومت نے انہیں ایسے "جادوئی حل” کے طور پر دکھایا جیسے ان کی بدولت طبقاتی تفریق ختم ہو گئی ہو۔
چنانچہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات گہرے اور غیر متوقع ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ یہ اقدام ملک میں شناخت کی سیاست اور سماجی مساوات سے متعلق سوچ میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اصل چیلنج ذات کی بنیاد پر سروے کرنا نہیں بلکہ اس کے بعد سامنے آنے والے حقائق اور سماجی و معاشرتی عدم مساوات کی تصویر کو دیکھتے ہوئے ان کے تدارک کے لیے مثبت کارروائی کرنا ہو گا۔
"مثبت کارروائی” کی پالیسیوں کو دوبارہ ترتیب دینا، ریزرویشن کی 50 فیصد حد کو ختم کرنا اور کوٹہ سے فائدہ اٹھانے والوں کی ممکنہ ذیلی زمرہ بندی کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔
چونکہ پہلی مرتبہ ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے سروے کے عمل میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے — بہار، تلنگانہ اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں کرائے گئے سروے میں مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے اور کئی مسلم برادریاں بھی سامنے آئی ہیں — اس لیے اس فیصلے کے اثرات پر اگرچہ مسلم حلقے میں بہت زیادہ گفتگو نہیں ہو رہی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سروے کے کچھ مثبت نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔
مثلاً، سنگھ پریوار نے جو یہ بیانیہ بنایا ہے کہ آزادی کے بعد سے حکومتوں نے صرف مسلمانوں کی منہ بھرائی کی ہے، ووٹ بینک کی خاطر ماورائے قانون فوائد دیے گئے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ اگر واقعی مسلمانوں کی منہ بھرائی کی گئی ہوتی تو آج وہ سماجی اور معاشرتی اعتبار سے اس قدر غیر مستحکم نہ ہوتے، امتیازات کے شکار نہ ہوتے۔
تاہم اس اقدام کے منفی اثرات کا بھی اندیشہ ہے۔ ماضی میں مسلمانوں میں ذات کی شناخت کو ابھارنے کا مقصد سماجی مساوات کے قیام کے بجائے، مسلم ووٹ کو انتخابی سیاست میں بے اثر کرنے کی کوشش زیادہ رہی ہے۔
2022 میں حیدرآباد میں بی جے پی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم مودی نے پارٹی کارکنوں کو پسماندہ مسلمانوں تک رسائی کی ہدایت دی تھی مگر وہی مودی ہر اسٹیج پر پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیے جانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اوبی سی ہندوؤں کے مقابلے پسماندہ مسلمانوں کو لا کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ میں کئی سال سے شیڈول کاسٹ سے متعلق ایک کیس التوا کا شکار ہے جس میں ان مسلمانوں — بالخصوص دلت طبقے کے افراد — کو اس زمرے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے شیڈول کاسٹ کے درجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ مگر پسماندہ مسلمانوں کے "مسیحا” بننے والے مودی اور ان کی پارٹی اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔
اس لیے اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو انصاف فراہم کرنے اور سماجی و معاشی مواقع کے یکساں دروازے کھولنے کے بجائے انہیں اشراف، اجلاف اور ارذال کے خانوں میں بانٹنے پر تمام توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام مساوات کا داعی ہے۔ وہ رنگ، نسل اور ذات کی بنیاد پر کسی بھی امتیاز کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ اسلام کا نظریہ بالکل واضح ہے کہ تمام انسان نسل اور پیدائش کے اعتبار سے برابر ہیں۔ سماجی و معاشرتی لحاظ سے انسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔
تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے علم بردار ہونے کے باوجود اپنی زندگی کو مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ بھی دیگر معاشروں کی طرح مختلف سماجی و معاشرتی برائیوں، بالخصوص ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور متعصبانہ سوچ کا شکار ہے۔ اگرچہ یہ تفریق محدود دائرے میں پائی جاتی ہے اور عام طور پر یہ امتیاز صرف شادی بیاہ اور پیشہ ورانہ زندگی میں نمایاں ہوتا ہے۔ عالمِ دین، مفتی یا مسجد کا امام بننے میں ذات کا سوال رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔
ملک کی مقتدر تنظیمیں جیسے جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند اور بڑے تعلیمی ادارے مثلاً دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء اور جامعۃ الفلاح کے سربراہوں کا تعلق مبینہ طور پر پسماندہ طبقات سے رہا ہے۔ تحریکِ آزادی کے رہنما اور تحریکِ خلافت کے صف اول کے قائد مولانا محمد علی جوہر کا تعلق بھی آج کے مبینہ "انتہائی پسماندہ” طبقے سے تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں ذات پر مبنی جو معمولی تفریق پائی جاتی ہے وہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور عملی بے راہ روی کا نتیجہ ہے، نہ کہ مذہبی بنیاد پر کوئی امتیاز؟
پھر بھی یہ تفریق ہندو معاشرے میں موجود ذات پات، چھوت چھات اور نسلی برتری جیسے شدید امتیاز کی سطح تک نہیں پہنچتی۔
چنانچہ مسلمانوں میں ذات پات پر گفتگو ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف وہ مذہبی طبقہ ہے جو مسلمانوں میں ذات پات کے وجود ہی سے انکار کرتا ہے اور اس بنیاد پر حکومت کی کسی بھی پالیسی کو انتشار پیدا کرنے کی سازش قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ وہ بھی ہے جو شدت کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات کا امتیاز بالکل اسی درجے پر موجود ہے جس درجے پر ہندو معاشرے میں ہے۔ ان دو انتہاؤں نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اسی دوران سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ اس مہم کا آغاز سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں ہوا جب مسلمانوں کی مختلف ذاتوں پر مبنی تنظیمیں قائم ہوئیں اور ان کے بینر تلے کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ ان کانفرنسوں نے ذات کی شناخت کو مزید مستحکم کیا لیکن حکومت سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہ کیا جا سکا۔
کئی سیاسیات داں جن میں پروفیسر امتیاز احمد اور عمر خالدی جیسے دانشور شامل ہیں، اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ چونکہ بھارت کے بیشتر مسلمان دراصل انہی ہندو طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جو اسلام قبول کر چکے تھے اس لیے اگرچہ مذہبی اور عقیدے کے اعتبار سے وہ برابری کے درجے پر فائز ہو گئے، لیکن سماجی اور پیشہ وارانہ امتیاز کی جڑیں باقی رہ گئیں۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۵
1955 میں کاکا کالیکر کمیشن اور 1978 میں قائم ہونے والے بی پی منڈل کمیشن نے بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر پسماندہ طبقات کی نشاندہی کی۔ کاکا کالیکر کمیشن نے مسلمانوں اور عیسائیوں کی کئی برادریوں کو پسماندہ تسلیم کیا، لیکن ریزرویشن کی سفارش اس بنیاد پر نہیں کی کہ اس سے مذہبی اکائیوں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
منڈل کمیشن نے مسلمانوں کی 82 برادریوں کو پسماندہ تسلیم کیا لیکن ابتدا میں وہ بھی تذبذب کا شکار رہا۔ بعد میں اس نے اجلاف اور ارذال جیسی برادریوں کو پسماندہ قرار دے کر شامل کیا۔ نتیجتاً بہار، اترپردیش اور مرکز میں مسلمانوں کی کئی برادریوں کو اوبی سی ریزرویشن حاصل ہوا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کے لیے کوئی علیحدہ سب کوٹہ (جیسا کہ کیرالا اور کرناٹک میں ہے) موجود نہیں تھا، اس لیے عملی طور پر یہ ریزرویشن زیادہ فائدہ مند نہ ہو سکا۔
منفی اثرات کے خدشات کے باوجود مردم شماری کے ساتھ ذات پات پر مبنی سماجی و اقتصادی سروے مسلمانوں کے لیے کئی لحاظ سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب حکومت کے پاس مسلمانوں اور ان کی ذیلی ذاتوں بشمول پسماندہ طبقات کی تعلیمی، سماجی اور معاشی صورتحال کے درست اعداد و شمار ہوں گے، جن سے مجموعی تصویر سامنے آئے گی۔
جادوپو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور سچر کمیٹی کے بعد بنگال کے مسلمانوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر عبدالمتین کا کہنا ہے کہ یہ سروے مسلمانوں کے لیے کافی اہم ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت سے اس بات کی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان نتائج کی بنیاد پر مثبت قدم اٹھائے گی لیکن جب سروے رپورٹ منظرِ عام پر آئے گی تو مسلم تنظیموں کو اپنے مطالبات اور تحریکات کو مضبوطی سے آگے بڑھانے کا موقع ملے گا۔
عبدالمتین کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے باوجود بھارت کے کئی حصوں میں مسلمانوں کی پیشہ وارانہ برادریاں پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں۔ آزادی کے وقت جن بنیادوں پر شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو ریزرویشن دیا گیا، انہی بنیادوں پر یہ مسلم برادریاں بھی اس کی مستحق ہیں۔
کیرالا اور تمل ناڈو میں مسلم پسماندہ برادریوں کو ریزرویشن حاصل ہے۔ ان ریاستوں نے "کریمی لیئر” کو چھوڑ کر باقی برادریوں کو سماجی و معاشی پسماندگی کی بنیاد پر مستحق قرار دیا۔ جنوبی ہند میں مسلم پسماندہ طبقات کے لیے علیحدہ کوٹہ موجود ہے، جس کی بدولت جنوبی ہند کے مسلمان، شمالی ہند کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہوئے ہیں۔
19 اکتوبر 2004 کو قائم ہونے والا جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن، جس نے 21 مئی 2007 کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی، اس نے سچر کمیٹی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے 15 فیصد ریزرویشن کی سفارش کی جس میں 10 فیصد مسلمانوں اور 5 فیصد دیگر اقلیتوں کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔ مزید یہ کہ اوبی سی کوٹے کے 27 فیصد میں سے 8.4 فیصد اقلیتوں کو دینے کی سفارش بھی شامل تھی۔
جسٹس مشرا نے صدارتی آرڈیننس نمبر 341 کے تحت شیڈول کاسٹ میں شامل ہونے سے محروم ان دلتوں کو بھی ریزرویشن دینے کی بات کہی جو بعد میں مسلمان یا عیسائی ہو گئے تھے۔
مشرا کمیشن اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:
’’بھارت میں ریزرویشن کا مفہوم یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں ان پسماندہ اور کم نمائندگی رکھنے والی برادریوں کے لیے مخصوص تعداد یا تناسب میں نشستیں مختص کی جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریزرویشن کا مقصد پسماندہ اور غیر نمائندہ طبقات کی شرکت اور شمولیت کو فروغ دینا ہے۔ دستوری اور قانونی زبان میں اسے ’’امتیازی تحفظ‘‘ (Affirmative Action) کہا جاتا ہے۔
جسٹس رنگاناتھ مشرا اپنی سفارشات میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریزرویشن کا مقصد تمام افراد کو برابری کے یا یکساں مواقع فراہم کرنا ہے جسے ’’Level Playing Field‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر جسٹس رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ قطعی غلط نہیں ہے۔
اسی لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مودی حکومت نے مسلمانوں کی بھی ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے تو کیا اس کے نتائج کی بنیاد پر کوئی مثبت اقدام کیا جائے گا؟ 2005 میں نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (NSSO) کے مطابق مسلم او بی سی کل مسلم آبادی کا تقریباً 41 فیصد ہیں۔ پسماندگی کی بنیاد پر کیرالا میں پوری مسلم کمیونٹی کو او بی سی تحفظات حاصل ہیں (تعلیمی اداروں میں 8 فیصد اور سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد)۔ تمل ناڈو میں تقریباً 95 فیصد مسلم برادریوں کو تحفظات حاصل ہیں۔ بہار میں او بی سی کو پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے اور زیادہ تر مسلم برادریاں انتہائی پسماندہ زمرے میں آتی ہیں۔
سوال یہی ہے کہ ’’جس کی جتنی سنکھیا، اس اتنی حصہ داری‘‘ — یعنی جتنی زیادہ آبادی، اتنا ہی زیادہ حصہ — کی اخلاقی منطق کو مسلمانوں کے معاملے میں بھی نافذ کیا جائے گا یا پھر مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کے لیے ان کے مطالبات کو مذہبی منافرت سے جوڑ کر بے اثر کر دیا جائے گا؟
1990 کی دہائی میں منڈل کمیشن کی رپورٹ نافذ کی گئی جس کے تحت مثبت اقدامات کے ذریعے تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت وزیرِ اعظم وی پی سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ ’’اگر نا انصافی جنم کی بنیاد پر ہوئی ہے تو انصاف بھی جنم کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے۔‘‘ اگر مسلمانوں کے ساتھ صرف اس لیے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے کہ وہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں تو اسی بنیاد پر انہیں انصاف بھی ملنا چاہیے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے قائم کردہ اداروں میں نمائندگی کے سوال کو ثانوی رکھتے ہوئے اس بنیادی مسئلے پر توجہ دی جائے کہ مسلمانوں کو وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں جو ملک کے دیگر طبقات کو حاصل ہیں۔ اگر ہندوؤں کے پسماندہ طبقات ریزرویشن کے مستحق ہو سکتے ہیں تو مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کیوں نہیں؟ اگر اعلیٰ ذاتوں کے معاشی طور پر کمزور افراد کو سپریم کورٹ کی مقرر کردہ 50 فیصد کی حد سے تجاوز کرتے ہوئے تحفظات دیے جا سکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
اسی لیے ذات پر مبنی مردم شماری ایک بار مکمل ہونے کے بعد ان مباحثوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گی جو ممکنہ طور پر آئینی ترامیم اور عدالتی نظرِ ثانی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں روایتی ووٹ بینک کی سیاست کو توڑ سکتی ہیں، ذات پات کے مابین رائج طاقت کے توازن کو چیلنج کر سکتی ہیں اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں — بشمول بی جے پی — کو اپنے نظریاتی اور سیاسی مفروضات پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔
یہ مرحلہ فلاح و بہبود سے انصاف، ترقی سے وقار اور صرف شناخت سے بڑھ کر متناسب نمائندگی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہو سکتا ہے۔ جیسے منڈل دور نے 1990 کی دہائی میں بھارتی سیاست کو ایک نیا رخ دیا تھا، ویسے ہی ذات پر مبنی مردم شماری کے بعد کا مرحلہ سماجی انصاف کی سیاست میں ایک نئی، طاقتور اور ڈیٹا پر مبنی لہر کو جنم دے سکتا ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ لمحہ شاید نئے انتخابی مواقع بھی لائے لیکن اس کے ساتھ بے مثال چیلنجز بھی لے کر آئے گا — اور یہ محض بی جے پی کا مسئلہ نہیں ہوگا۔‘‘
***
***
مودی حکومت نے مسلمانوں کے لیے ذات کی بنیاد پر سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس سروے کے نتائج پر عملی طور پر کیا اقدامات کیے جائیں گے، یہ سوال باقی ہے۔ 2005 کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق مسلم او بی سی کل مسلم آبادی کا تقریباً 41 فیصد ہیں اور مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو تحفظات ملے ہوئے ہیں۔ اگر ہندوؤں کے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن مل سکتا ہے تو مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو کیوں نہیں مل سکتا؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025