دینی مدارس میں عصری تعلیم کے امتزاج کو قابل عمل بنانے کی ضرورت

تخصصات کے شعبوں میں تعارف ادیان کورس کی تجویز۔ درس نظامی کو ناقابل تبدیلی نہ سمجھا جائے

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

جامعہ ہمدرد نئی دلی میں دو روزہ سیمینار اور ورک شاپ۔چالیس سے زائد متنوع اور وقیع مقالات کی پیشکشی
’’اگر ماضی میں ایک ہی مدرسے سے تاج محل کے چیف آرکیٹکٹ احمد علی لاہوری اور مجدد الف ثانی جیسے صوفی و عالم پیدا ہوسکتے ہیں تو آج مدرسے سے ایسے لوگ کیوں تیار نہیں ہوسکتے؟‘‘
مدارس میں نصاب کی تبدیلی پر گفتگو کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ سو سال یا اس سے زائد سے یہ بحث و تحقیق کا موضوع ہے، اس موضو ع پر مدارس اور یونیورسٹیوں میں ایک درجن سے زائد سیمینار ہوچکے ہیں البتہ اس وقت حکومتی چیلنجوں کی وجہ سے دوبارہ اس پر غور و فکر کی ضرورت آن پڑی ہے ۔ ایک طرف حکومت’’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘‘ کو بنیاد بنارہی ہے تو دوسری طرف بچوں کے پاس سرکاری ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے ۔ اسی طرح بڑی تعداد میں مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی خود مدارس یا دینی کاموں میں شمولیت کے امکان کے نہ ہونے اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنے پر طلباء کوہونے والی دشواریوں کی وجہ سے یہ مسئلہ از سر نو اس کا متقاضی ہے کہ مدارس میں عصری علوم کی شمولیت پر غور کیا جائے ۔
اس سلسلے میں جامعہ ہمدرد کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے’’سنٹر فار ریسرچ آن مدرسہ ایجوکیشن ‘‘اور ’’ایورسٹ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، حیدرآباد کے اشتراک سے یکم تا ۲ مئی ء۲۰۲۴ دو رروزہ انٹرنیشل سیمینار منعقد کیا گیا جس کی کنوینرز ڈاکٹر صفیہ عامر، ڈاکٹر نجم السحر اور ڈائرکٹر ڈاکٹر وارث مظہری تھے جو خود مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں اور مدارس کے نظام و نصاب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں بھی قابل مطالعہ ہی۔ اس سیمینار میں ساٹھ سے زائد علماء و باحثین نے شرکت کی۔پروگرام افتتاحی اوراختتامی نشست کے علاوہ مختلف علمی نشستوں پر مشتمل تھا ۔افتتاحی نشست میں جامعہ ہمدرد کے شیخ الجامعہ پروفیسر محمد افشار عالم،دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانامحمد سفیان قاسمی،پروفیسر اخترالواسع (دلی) پروفیسر سعود عالم قاسمی (علی گڑھ)مولانا علاؤالدین ندوی (ندوۃ العلماء لکھنؤ) اور ایورسٹ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عبد الرقیب قاسمی (حیدرآباد) نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پروگرام کئی اعتبار سے انتہائی کامیاب رہا۔اس سیمینار میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ حضرات ،مدارس کے علماء اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز حضرات شریک ہوئے اورمدارس کے نصاب تعلیم کے حوالے سے چالیس سے زائدمتنوع اور وقیع مقالات پڑھے گئے ۔پروگرام کو دو الگ الگ ہالوں میں بیک وقت منعقد کیا گیا تھا۔ اس لیے اکثر مقالہ نگاروں کودس منٹ سے زائد کا ہی وقت ملااس طرح مقالہ نگار حضرات نے کھل کر اپنی آرا پیش کیں۔
افتتاحی نشست کے مہمان خصوصی مولانا سفیان قاسمی نے اس سیمینار کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’گزرتے وقت کے ساتھ روز افزوں ضرورت اب بلا شبہ سنجیدہ غور سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے مدارس میں ایک ایسے قابل عمل متوازی نظام تعلیم جدید کی امتزاجی شمولیت کی متقاضی ہے جو ایک طرف عہد حاضر کے مطالبات اوراس کے منطقی تقاضوں کا احاطہ کرسکے تو دوسری طرف وہ مدارس کے اپنے نظام تعلیم و تربیت کی مقصدی اہمیت و معنویت کو بھی متاثر نہ ہونے دے ‘‘۔حقیقت یہ ہے موجودہ حالات میں عصری تقاضوں سے صرف نظرکرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی عصری علوم کی شمولیت کا موضوع نیا اور انوکھا ہے۔ بلکہ بانی دارالعلوم مولانا قاسم نانوتوی کے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں اُس دور کے جدید موضوعات کی نمائندگی واضح انداز میں پائی جاتی ہے۔
پروگرام کے مہمان اعزازی پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ مدارس سے آج بھی وہی امیدیں وابستہ ہیں جو کل تھیں ۔ہمیں مدارس کے حوالے سے اپنی تعلیمی وتدریسی روایت کی بازیافت کرنی چاہیے۔ اگر ماضی میں ایک ہی مدرسے سے تاج محل کے چیف آرکیٹکٹ احمد علی لاہوری اور مجدد الف ثانی جیسے صوفی و عالم پیدا ہوسکتے ہیں تو آج وہاں سے ایسے لوگ کیوں تیار نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے ۔
پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کلیدی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے مختلف علماء کے حوالوں سے مدارس میں عصری تعلیم کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مولانا آزاد کے حوالے سے بیان کیا کہ انہوں نے ۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء میں کہا تھا ’’تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ زمانہ کی چال کے ساتھ جڑسکے ،اگر آپ مذہب اور عصر دونوں ٹکڑوں کوالگ الک رکھیں گے تو وہ تعلیم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ‘‘۔ اس کے علاوہ انہوں نے مدارس میں قانون کی تعلیم ،پیشہ ورانہ تعلیم،دینی تعلیم کا مختصر مدتی نصاب ،تخصص کی کلاسیں اوراساتذہ کی تربیت کا بھی مشورہ دیا ہے۔
درس نظامی میں ہمیشہ تبدیلی ہوتی رہی ہے
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کسی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے لیکن انہوں نے اپنا مقالہ پڑھنے کے لیے بھیجاتھا ۔انہوں نے اس کی پرزور تردید کی کہ درس نظامی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔علماء نے ہر دور میں اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی ہے۔ اپنے مقالے میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت کا خاکہ پیش کیا۔انہوں نے مولانا سید حسین احمد مدنی کے نصاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں عصری علوم کی شمولیت موجود ہے۔ یہ نصاب مولانا مدنی نے ۱۹۳۳ء میں آسام اور بنگال کے دینی مدراس کے لیے مرتب کیا تھا۔
مولانا علاء الدین ندوی، استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء نے ندوہ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کا ذکر کیا اور یہ تجویز رکھی کہ مدارس میں انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہیے جیسا کہ عالم عرب میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں کے یہاں مذہبی رسوم وتعلیمات کی پابندی کے ساتھ جو تعلیمی ترقی ہورہی ہے وہ ہمارے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آخر میں صدر محترم شیخ الجامعہ جناب افشار عالم نے اپنے کلمہ صدارت میں حکیم عبدالحمید بانی جامعہ ہمدرد کے نظریہ کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز پر ہماری خصوصی توجہ ہے اور ہم اس کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔نشست کے اخیر میں دو کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر وارث مظہری کی ’’برصغیر ہند میں جدید علم کلام :افکار و مناہج کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ اور دوسری پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی کی’’ارباب مدارس کا ادراک ‘‘ہے۔
اس کے بعدسیمینار کے دو دنوں میں مقالات کی کل سات نشستیں منعقد ہوئیں جن میں تقریباً چالیس مقالات پیش کیے گئے۔ ان نشستوں کی صدارت پروفیسر محسن عثمانی، مولانا طاہر مدنی، پروفیسرمحمد فہیم اخترندوی، پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی، مولانا محی الدین غازی، ڈاکٹر زینت اقبال اور ڈاکٹر ارشد حسین نے کی۔
ورک شاپ
پروگرام کے دوسرے دن(۲مئی ۲۰۲۴) اسی موضوع پر ایک ورک شاپ کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔عموماً سیمینار میں مقالات پڑھے جاتے ہیں پھر ان مقالات کو شائع کر دیا جاتاہے اور متعلقہ موضوع سرد خانے میں چلا جاتاہے لیکن اس موضوع پر ورک شاپ ایک بہترین تجربہ ثابت ہوا اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آئی کیوں کہ ورک شاپ کے ذریعہ سوالات کے منفی اور مثبت پہلو نکھر کر سامنے آئے ،ہر سوال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ۔ورک شاپ میں بھی چوں کہ مختلف مکاتب فکر کے مدارس کے نمائندے موجود تھے اس لیے بہت سی چیزوں کو سیکھنے، سمجھنے اور دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔
ورک شاپ میں بیس سے زائد علماء، اسکالرز اور پروفیسر حضرات نے شرکت کی۔ ورک شاپ کے لیے چند سوالات منتظمین کی طرف سے منتخب کیے گئے تھے جن سے شرکاء کو پہلے ہی واقف کرادیا گیا تھا ۔ پروگرام میں ایک ایک سوال پر شرکاء نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
مدارس میں عصری تعلیم کا امتزاج کس حد تک ممکن اور قابل عمل ہے؟
جو سوالات زیر بحث تھے ان میں ایک سوال یہ تھاکہ دینی مدارس میں عصری تعلیم کا امتزاج کس حد تک ممکن اور قابل عمل ہے؟ اس پر راقم الحروف کی رائے تھی کہ مدارس میں عصری علوم کی شمولیت ممکن بھی ہے اورضروری بھی۔ اس لیے کہ عصری مضامین کو پڑھانے سے دینی تعلیم کی تفہیم میں بھی مدد ملتی ہے اور فراغت کے بعد فضلاء کے لیے دوسرے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوتاہے ،اس کی وجہ سے فضلاء بہتر انداز میں کام کرسکتے ہیں۔دعوتی نقطہ نظر سے ایسے فضلاء عصری اداروں میں موثر کردار ادا کرتے ہیں ۔ عصری اداروں میں وہ مرعوب نہیں ہوتے، اس لیے کہ جو تعلیمی لیاقت کالج کے بچوں میں ہے وہ مدرسہ کے فاضل میں بھی ہے۔ ساتھ ہی وہ صلاحیت بھی ان کے اندر ہے جو عصری اداروں کے تعلیم یافتہ میں نہیں ہے۔ قاسم نانوتویؒ بھی اس نظریہ کے قائل تھے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے فضلاء اگر سرکاری اداروں میں جاتے ہیں تو یہ ان کی صلاحیت میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ان سب کے علاوہ حکومتی نقطہ نظر سے بھی عصری علوم کی شمولیت ایک ضرورت بن چکی ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ دینیات اور حفظ کی تعلیم کے دوران دسویں تک کی باضابطہ تعلیم دے دی جائے اور عربی کی تعلیم کے دوران ابتدائی تین سالوں میں خارج سے تیاری کرواکے NIOS کے ذریعہ بارہویں کی تعلیم دلادی جائے، اس طرح مدارس کے نصاب میں کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا اور دونوں طرح کی تعلیم حاصل ہوجائے گی ۔ اس وقت بعض اسکول حفظ پلس ٹین (+10)کے چل رہے ہیں جہاں بچے حفظ کے ساتھ دسویں کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس طرح دینیات اور حفظ کے درمیان دسویں تک کی تعلیم مکمل ہوسکتی ہے جب کہ بچے کی عمر چودہ سال ہو گی۔ اس کے بعد بچے عربی کی تعلیم حاصل کریں گے۔ اس عرصے میں چوں کہ انہوں نے مکمل دسویں تک کی تعلیم حاصل کی ہے اس لیے عربی درجات میں بھی زیادہ مضامین پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ بارہویں کی تعلیم کے لیے بعض مضامین کی تعلیم کافی ہوگی ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ابتدائی چار جماعتوں میں اعدادیہ تاسوم میں اضافی کلاس شامل کرکے دسویں کے نصاب کی مکمل تعلیم دے دی جائے اور چہارم سے مکمل دینی موضوعات کو ہی پڑھایا جائے ۔یہ تجربہ بھی بعض مدارس میں کیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن العمل ہے، اس سے بھی مدارس میں نصاب کی تبدیلی کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں پیدا ہوگا۔
اس سوال کے جواب میں مولانا خالد سبف اللہ رحمانی کی تحریر میں یہ تجویز یہ تھی کہ دسویں جماعت تک مشترکہ نصاب ہو ۔جو کتابیں عصری درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں بعض تبدیلیوں کے ساتھ وہ مدارس میں بھی پڑھائی جائیں۔ اس کی صورت یہ ہو کہ مدارس کے مروجہ آٹھ سالہ نصاب میں سے پہلے تین سال کے وہ مضامین جو عربی زبان اور فن کی ابتدائی کتابوں سے متعلق ہیں بآسانی دس سال میں سموئے جاسکتے ہیں ،اس دس سالہ نصاب کے بعد جیسے عصری تعلیم حاصل کرنے والے مزید پانچ سال میں گریجویشن کرتے ہیں اسی طرح جو طلباء عالم کورس کرنا چاہیں وہ پانچ سالہ درس نظامی کے مروجہ نصاب کو مکمل کرلیں،پھر عصری تعلیم حاصل کرنے والے جیسے مزید دو سال کا وقت لگاکر ماسٹر کی ڈگری حاصل کرتے ہیں، اسی طرح دینی تعلیم حاصل کرنے والے افتاء اور تکمیل و تخصص و غیرہ کا کورس کرسکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو طلباء دسویں جماعت کے بعدعالم کورس کی تعلیم حاصل کریں گے وہ بنیادی عصری علوم سے واقف ہوں گے اور جوآگے عصری علوم حاصل کرنا چاہیں گے وہ بنیادی دینی تعلیم حاصل کرچکے ہوں گے اور ایک ساتھ دینی و عصری تعلیم کا ایسا بوجھ نہیں پڑے گا جو طلباء کے لیے نا قابل تحمل ہوجائے ۔
بعض حضرات کی رائے تھی کہ چوں کہ نئی تعلیمی پالیسی میں دسویں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، اس لیے ہمارا تعلیمی نظام سولہ سالہ ہو جس میں بارہویں تک باضابطہ دونوں تعلیم دی جائے اور چار سال عالمیت کے اختصاص کے رکھے جائیں اس چار سال میں عصری مضامین شامل نہ کئے جائیں اس طرح دینی تعلیم میں بھی رسوخ پیدا ہوگا اور عصری تعلیم میں بھی قابلیت پیدا ہوجائے گی ۔
ایک رائے یہ تھی کہ آٹھویں تک کے تعلیمی نظام میں دینی و عصری تعلیم کے فرق کو ختم کرکے دونوں تعلیم کو مکمل طور پر ایک کر دیا جائے یعنی آٹھویں جماعت تک نہ وہ مدرسہ ہو اور نہ اسکول، بلکہ دونوں مضامین پڑھائے جائیں اور آٹھویں کے بعد کچھ عصری مضامین کم کردیے جائیں ۔چار سال تک اس طرح بارہویں کا امتحان دلا دیا جائے پھر اوپر اختصاص کے علاحدہ علیحدہ شعبے ہوں۔ اس میں فن کے متخصصین تیار کیے جائیں ۔
ان تمام آراء کے درمیان مختلف قسم کے نئے سوالات پربھی بحث ہوئی۔یہ بھی کہا گیا کہ مدارس کے مقاصد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ،کوئی بھی ایسا نظام یا نصاب جو مدارس کی روح کے خلاف ہو وہ کسی قیمت پر ارباب مدارس کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ بعض حضرات کی رائے تھی کہ بارہویں تک کی تعلیم صرف ڈگری کے طور پر نہ دلائی جائے بلکہ ان کے اندر قابلیت بھی پیدا ہونی چاہیے۔ اس پر کہا گیا کہ دونوں تعلیم میں قابلیت اور کمال ممکن نہیں ہے۔ جب دونوں تعلیم ایک ساتھ ہیں تو کسی ایک تعلیم کو اصل اور دوسری کو تابع بنانا ہوگا، ورنہ مدارس اسکول میں تبدیل ہوجائیں گے ۔ایک رائے یہ آئی کہ بڑی تعداد میں مدارس میں جو طلباء داخل ہوتے ہیں وہ ابتدائی تعلیم اور حفظ مکمل کرکے تعلیمی سلسلہ موقوف کردیتے ہیں۔ مدارس میں ایسے بچوں کی بڑی تعداد ہے، اس لیے حفظ کے شعبے کو فعال بنایاجائے ۔اس میں لازمی تعلیم کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ جو بچے صرف حفظ کرتے ہیں وہ بھی اس قابل ہوں کہ بعد کی زندگی میں اپنی تعلیمی لیاقت کا مظاہرہ کرسکیں،اس کے لیے بھی اگر دسویں تک جز وقتی عصری تعلیم کا نظم کر دیا جائے تو یہ بچے حافظ ہونے کے ساتھ دسویں یا بارہویں کی ڈگری کے حامل ہوں گے ۔
کیا عصری علوم کی شمولیت سے فضلائے مدارس کی شناخت متاثر ہوگی؟
ایک سوال یہ تھا کہ کیا عصری علوم کی شمولیت سے مدارس اور فضلائے مدارس کی شناخت متاثر ہوگی؟ اس سلسلے میں شرکاء سیمینار کی دو رائے تھی: ایک رائے یہ تھی کہ اگرتربیت اچھی ہوئی تو کوئی شناخت متاثر نہیں ہوگی بلکہ مزید بہتر ہوگی جب کہ دوسری رائے تھی کہ اگر عصری علوم کی شمولیت تابع ہو، غالب نہ ہو تو شناخت متاثر نہ ہوگی لیکن اگر مدرسہ میں دینی تعلیم کے مضامین پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے عصری مضامین پر زیادہ توجہ دی گئی تو مدارس کی حیثیت عرفی متاثر ہوگی ۔
مختصر مدتی عالم کورس کس حد تک مفید ہو سکتا ہے؟
ایک سوال یہ تھا کہ مختصر مدتی عالم کورس کس حد تک مفید ہو سکتا ہے؟ یعنی جو لوگ مدرسہ کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ اسکول و کالج کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا ملازمت کر رہے ہیں یا تعلیمی سلسلہ منقطع کرچکے ہیں، ان کے لیے اگر مختصر مدتی کورس بنایا جائے جو سال کے اعتبار سے مختصر ہو یعنی تین سال یا چار سال کا ہو یا اوقات کے اعتبار سے مختصرہو مثلاً روزانہ ڈھائی تین گھنٹے کی تعلیم ہو تو کیا یہ تجربہ مفید ہوگا؟اس پر تمام ہی شرکاء کی رائے تھی کہ ایسا ہونا چاہیے ۔یہ اسلامی تعلیمات کے عام کرنے کا ایک ذریعہ ہوگا۔ اس کے ذریعہ بہت زیادہ لوگوں تک اسلامی تعلیمات پہنچ سکیں گی، جو لوگ دینی تعلیم سے دور ہیں وہ بھی مختصر مدتی کورس کے ذریعہ دینی تعلیم حاصل کرلیں گے۔ البتہ اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تھی کہ اس کو عالم کورس کا نام نہ دیا جائے بلکہ مختصر دینی تعلیم کورس یا تعارف اسلام کورس وغیرہ کا نام دیاجائے ۔
آن لائن تعلیم مفید یا مضر؟
ایک سوال یہ تھا کہ آن لائن تعلیم کس قدر اور کس حد تک مفید ہے؟ اس سلسلے میں تمام ہی شرکاء کی رائے تھی کہ جز وقتی یا مختصر مدتی دینی تعلیم کورس کے لیے آن لائن نظام تعلیم مفید ہے جب کہ تعلیم کے تقاضے پورے کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس لیے کہ سارے بچے یا جو بھی دینی تعلیم کے خواہش مند ہیں وہ مدرسہ میں رہ کر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہر جگہ مدارس کا یہ نظام موجود ہوتا ہے۔
ہندی اور انگریزی زبان کی نصاب میں شمولیت
ایک سوال یہ تھا کہ عربی کے علاوہ ہندی اور انگریزی زبان کی شمولیت نصاب میں کس حد تک ضروری ہے؟ اس سلسلے میں بھی اکثر شرکاء کی رائے تھی کہ ہندی چوں کہ ملکی زبان ہے اور ملک کی بڑی اکثریت سے اسی زبان میں بات کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح انگریزی چوں کہ معاصر دنیا میں بین الاقوامی رابطے اور بحث و تحقیق کی زبان ہے، اس لیے دونوں ہی زبانوں کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے اور اس حد تک شامل کرنا چاہیے کہ ہمارے فضلاء انگریزی اور ہندی بولنے اور لکھنے پر اچھی طرح قادر ہو سکیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024