دہلی پولیس چیف نے سابق آئی پی ایس افسر کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے خلاف ’’غلط اور متعصبانہ بیانیہ‘‘ پھیلایا جا رہا ہے

نئی دہلی، ستمبر 16: تنقیدوں میں گھرے ہوئے دہلی پولیس کے کمشنر ایس این شریواستو نے منگل کے روز سابق بیوروکریٹ جولیو ربیرو کے خط کا جواب دیتے ہوئے اپنی پولیس فورس کا دفاع کیا۔

شریواستو نے کہا کہ پولیس فورس نے ذات یا مذہب کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں کیا اور دعوی کیا کہ بعض گروہوں کی طرف سے ذاتی مفادات کے تحت ان کے خلاف ’’تعصب اور بے حسی‘‘ کا غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔

شریواستو نے کہا ’’اگرچہ ہم ذات یا مذہب کی بنیاد پر کسی شکایت کنندہ سے فرق نہیں کرتے ہیں، اقلیتی برادری کی شکایات پر 410 سے زیادہ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جب کہ دوسری کمیونٹی نے 190 سے زیادہ ایف آئی آر درج کروائی ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ 12 ستمبر کو جولیو ربیرو نے شریواستو کو خط لکھ کر فروری میں ہونے والے تشدد کے بارے میں پولیس کے طریقۂ کار پر سوال اٹھایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ پولیس ’’پرامن مظاہرین‘‘ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، جب کہ مظاہرین کے خلاف تشدد کو بھڑکانے اور دھمکی دینے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کا کردار پر ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

ربیرو نے کہا کہ یہ نہایت تشویش کی بات ہے اور انھوں نے دہلی پولیس سے اس کی تحقیقات پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایک دن بعد انڈین پولیس سروس کے مزید 8 سابق افسران نے بھی شریواستو کو خط لکھ کر ربیرو کے خدشات کی حمایت کی اور فسادات کے تمام معاملوں کی منصفانہ اور غیر متعصبانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

منگل کے روز ایک خط میں شریواستو نے دہلی پولیس کی طرف سے تحقیقات کو انجام دینے اور نگرانی کرنے والے افسران کی ’’آزادی، دیانت اور ہمت‘‘ کا ذکر کیا۔

سریواستو نے ربیرو کو بتایا کہ فوجداری مقدمات میں پولیس کی تفتیش حقائق اور شواہد پر مبنی تھی نہ کہ کسی کے ’’وقار اور شخصیات‘‘ سے متاثر۔

کمشنر نے مزید کہا ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم دہلی پولیس میں کسی بھی خود ساختہ ’’حقیقی محب وطن‘‘ یا کسی بھی طبقے، مسلک یا برادری کی طرف داری کیے بغیر مکمل عزم، سالمیت اور حساسیت کے ساتھ اپنے حلف کے مطابق آئین کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘

شریواستو نے کہا ’’بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جن کا مقصد دھوکہ دہی اور پولیس کے متعلق تعصب اور بے حسی کا جھوٹا بیانیہ پھیلانا ہے۔کو آگے بڑھانا ہے۔‘‘

پولیس کمشنر نے مزید کہا کہ جو بھی پولیس کی تفتیش کے نقطۂ نظر سے ناخوش ہے وہ عدالتی راہ بھی تلاش کرسکتا ہے۔