دہلی فسادات متاثرین کا کہنا ہے کہ پولیس ایڈووکیٹ محمود پراچہ کو ہٹانے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہی ہے
نئی دہلی، دسمبر 26: نظام الدین ایسٹ میں دہلی پولیس (خصوصی سیل) کے ذریعے ایڈووکیٹ محمود پراچہ کے دفتر پر چھاپے کے بعد دہلی فسادات کے بہت سے متاثرین نے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ مقدمات واپس لے لیں یا ایڈووکیٹ محمود پراچہ کو اپنے دفاعی وکیل کی حیثیت سے ہٹا کر ان کی جگہ پولیس کے تجویز کردہ وکیل کی خدمات حاصل کریں۔
جمعرات کو دہلی پولیس کی ایک ٹیم کے ذریعے محمود پراچہ کے دفتر پر چھاپہ مارنے کے بعد یہ الزامات فساد متاثرین نے ایک پریس کانفرنس میں لگائے ہیں۔ چھاپہ 24 دسمبر کو دوپہر 12 بجے شروع ہوا اور 25 دسمبر کی صبح 3 بجے تک جاری رہا۔
متاثرین میں سے ایک وسیم نے بتایا کہ فروری میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران پولیس نے اسے سرعام مارا پیٹا اور قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ شاہدرہ ضلع کے جیوتی نگر پولیس اسٹیشن گئے تو پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واپس بھیج دیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے کہا کہ اگر وہ ایف آئی آر درج کرنے پر بضد رہتا ہے تو اسے جھوٹے مقدمات میں پھنسادیں گے اور اس کی زندگی برباد کردیں گے۔
ایک اور شخص محمد ناصر خان نے، جو پولیس کی مار پیٹ کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ میں بینائی کھو بیٹھا تھا، الزام لگایا کہ سینئر پولیس عہدیداروں سے رجوع کرنے اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھنے کے باوجود اس کے معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ پراچہ کی مداخلت کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ لیکن پولیس اب ان سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ یا تو کیس واپس لے یا پولیس کی طرف سے تجویز کردہ وکیل کی تقرری کرے۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ اگر وہ ایڈووکیٹ پراچہ کو اپنا وکیل بنائے رہتے ہیں تو پولیس نے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اس کے معاملے کو کمزور کرنے کے لیے یہ کام کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صرف پولیس ہی نہیں، یہاں تک کہ اس کی ایف آئی آر میں نامزد ملزم بھی اسے دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اسی طرح اور بھی کئی متاثرین نے ایسے الزامات لگائے ہیں، جس کے بعد دہلی پولیس ایک بر پھر سوالات کے گھیرے میں آگئی ہے۔
دریں اثنا جماعت اسلامی ہند سمیت ملک کی متعدد تنظٰیموں اور سماجی کارکنوں نے پولیس کی اس کاروائی کی مذمت کی ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹومورو)