دہلی تشدد: سول سوسائٹی گروپوں نے جامعہ کے دو طلبا کی رہائی کا مطالبہ کیا
نئی دہلی، اپریل 16: سول سوسائٹی کے 35 سے زیادہ گروپس اور افراد نے فروری میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے سلسلے میں دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو طلبا کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔
2 اپریل کو دہلی پولیس نے یونی ورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم میران حیدر کو دہلی میں تشدد بھڑکانے کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حیدر راشٹریہ جنتا دل یوتھ ونگ کی دہلی یونٹ کے صدر بھی ہیں۔ کچھ دن بعد یونی ورسٹی میں ایم فل کی طالبہ صفورا زرگر کو بھی فروری میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران جعفر آباد میٹرو اسٹیشن کے قریب سڑک میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ زرگر جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں۔
طلبا کے خلاف لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بیان میں دہلی پولیس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ’’انتقامی کارروائی‘‘ شروع کر رہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں سرگرم عمل تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس پورے تناظر میں خاص طور پر پریشان کن بات یہ ہے کہ صفورا زرگر حاملہ ہیں اور اس حالت میں انھیں مناسب دیکھ بھال اور طبی نگرانی کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران اس طرح کی کارروائی ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
بیان میں طلبا کے آئینی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سے قبل جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی، جو کہ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کا ایک گروپ ہے، نے میران حیدر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر صحت کے بحران کے وقت بھی طلبہ کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا ’’ملک کو بڑے پیمانے پر صحت کے بحران کا سامنا ہے، تاہم ریاستی مشینری طلبا کارکنوں کو اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے جھوٹے مقدمات میں ہراساں کرنے اور ان کو پریشان کرنے میں مصروف ہے۔‘‘ کمیٹی نے کہا کہ حیدر لاک ڈاؤن کے درمیان غریبوں کو کھانا اور دیگر سامان فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔