دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج
نئی دہلی، مئی 2: دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اور تجربہ کار صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر 28 اپریل کو ان کے ایک ٹویٹ کے لیے سٹی پولیس نے ملک بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے، جس میں انھوں نے ’’کویت‘‘ کا ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر شکریہ ادا کیا تھا۔
ڈاکٹر خان کے خلاف آئی پی سی سیکشن 124 اے (بغاوت) اور 153 اے (مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیادوں اور مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے اور تفرقہ انگیز کارروائیوں) کے تحت وسنت کنج کے رہائشی نے ایف آئی آر درج کی تھی۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایف آئی آر کو بعد ازاں دہلی پولیس کے انسداد دہشت گردی دستہ کے اسپیشل سیل میں منتقل کردیا گیا۔
جب ڈاکٹر خان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے پولیس کیس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
ٹویٹ کے ایک دن بعد ڈاکٹر خان نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا تھا۔
انھوں نے 29 اپریل کو کہا ’’یہ ٹویٹ اس پس منظر میں ہے کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے معاملات سے کس طرح سے نمٹا گیا ہے، چاہے وہ لنچنگ ہو، فسادات ہوں، میڈیا کو ہراساں کیا جانا ہو یا سیاسی اور انتظامی عمل میں ان کے مسائل کا ازالہ نہ کرنا ہو۔ میں نے اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں اس ملک کا محب وطن ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملک اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی میں ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہمیشہ ہی مسائل پر آواز اٹھاتا رہا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔ میری معلومات کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں نے بیرونی طاقتوں سے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف شکایت نہیں کی۔‘‘ میں دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح قانون کی حکمرانی، ہندوستانی آئین اور ہمارے ملک کے بڑے اداروں پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر خان نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کے ایک حصے نے ان کے خیالات کو مسخ کیا اور وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔