دکن اور دیوان غالب کی شروحات

مرزا غالب کی شاعری کا مطالعہ:سرزمین دکن کے ادبی حلقوں کی اہم کاوشیں

0

ڈاکٹرظہیردانش عمری

دکن میں غالب شناسی کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔غالب کے حوالے سے ان کی مختلف جہتوں پر یہاں کام ہواہے۔ یہاں دیوان غالب کی شرحیں لکھی گئیں،ان کی شخصیت پر رسائل وجرائد کے خصوصی شمارے شائع کیے گئے ،ان کی شخصیت پر لکھی گئی دیگر زبانوں کے اردو میں تراجم کیے گئے ،اسی طرح یہاں غالب کے چار شاگردوں حبیب اللہ ذکا نلوری،منشی میاں داد خان سیاح،مرزاقربان علی بیگ سالک اور غلام حسین قدر بلگرامی کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔
جہاں تک دیوان غالب کی شروحات کی بات ہے : دکن سے اس کی پانچ شروحات شائع ہوئی ہیں:
۱ وثوق صراحت از عبدالعلی والہ حیدرآبادی مدراسی
۲ شرح دیوان غالب از سید علی حیدرصاحب نظم طباطبائی
۳ وجدان تحقیق از عبدالواجد
۴ شرح دیوان غالب از ضامن کنتوری
۵ ترجمان غالب ازشہاب الدین مصطفی
ان میں سے سب سے پہلا نام ’ وثوق صراحت‘ نامی شرح کا ہے جسے ۱۸۹۵ء میں صاحب تصنیف حضرت عبدالعلی والہ حیدرآبادی کے فرزند عبدالواجد نے شائع کروائی جوخود غالب اور ان کی شاعری کے قدردان تھے،طویل عرصے تک انہیں اور ان کے فرزند کو دیوان غالب پڑھانے کا تجربہ حاصل رہا ہے۔
وثوق صراحت میں غالب کے ۱۱۳۲ اشعار کی شرح ہے ، تشریح بہت مختصر ہے ، کہیں مشکل الفاظ کے معنی پیش کیے گئے کہیں مختصر اشارہ کردیاگیاہے ،کہیں کسی تلمیح کی وضاحت کردی ہے تو کہیں شعر کا معنی بالکل نہیں دیاگیاہے،شاید ان کے لحاظ سے جو جو شعر بہت آسان ہیں وہاں شعر کا معنی پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اس کی وجہ عبدالواجد یوں تحریرکرتے ہیں کہ:
’’اگرچہ اس شرح پر نظرثانی نہیں کی گئی لیکن نظر اول ہی میں جو کچھ لکھا ہے نہایت غنیمت اور قابل قدر ہے ،کیونکہ ایک فرد کامل،سخن گو،سخن داں، سخن فہم اور مسلم الثبوت استاد کی تصنیف ہے ، اختصار کے ساتھ دقائق کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مقصود قائل فوت نہ ہو،کہیں فوراً کہیں کچھ خوض و تامل سے طالب علم کے ذہن نشین ہوجائے۔ حضرت مرحوم کی یہ عادت تھی کہ شرح کو بلاضرورت ہرگز طول نہیں دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ شرح مختصر مفید ہونی چاہیے ‘‘
(وثوق صراحت ،ص:۲،مقدمہ از عبدالواجد،عبدالعلی والہ حیدرآبادی،۱۸۹۵ء،مطبع:مطبع نامی فخرنظامی حیدرآباد )
اس کے علاوہ اس شرح میں کہیں کہیں اساتذہ کے اشعار اور ضرب الامثال بھی پیش کیے گئے ہیں۔اس میں بطور تقریظ مولوی عبدالحی مدگارپیمائش و بندوبست علاقہ سرکارعالی کی منظوم تحریر شامل ہے جس میں وہ مولوی عبدالواجد کو اپنا استادبتاتے ہیں نیز، ان کی جادوبیانی و شیریں سخنی کا اعتراف کرتے ہیں،شاعری،زبان و بیان پر ان کی قدرت کی بہت تعریف کرتے ہیں۔
غالب کے پہلے شعر :
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کی شرح میں صرف ایک لفظ پیرہن کاغذی کی تشریح لکھتے ہیں کہ ’فریادیوں کا لباس جو زمانہ قدیم میں دستورتھا،یہ کنایہ ہے عجز و بے چارگی و تظلم و زاری سے ۔‘
اسی طرح دوسرے شعر میں صرف شوق کا معنی،پانچویں اور چھٹے شعر میں شعر کا معنی پیش کیے بغیر ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔ان کی فہم کے مطابق جو اشعار نہایت آسان اور تشریح طلب نہیں ہیں،ان کی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اسی شرح کے اخیر میں مولوی عبدالعلی والہ حیدرآبادی مدراسی کے فرزند مولوی عبدالواجدیوں تنقید کرتے ہیں کہ :
’’اس شرح میں نہ اشعار کے معنی ہیں اور نہ لفظوں کے ،اور نہ دقایق و نکات شاعری کا بیان ہے بلکہ دودولفظوں کے معنی لکھےہیں جن کا عدم و جود مساوی ہے ،لہٰذا یہ شرح غیر مفید و بے کار ہے فقط واجد‘‘ (ایضاً ،ص:۱۹۳ )
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ شرح اتنی ہی غیر مفید و بے کار تھی تو مولوی عبدالواجد نے اسےشائع ہی کیوں کیا؟
دوسری شرح شرح دیوان غالب ہے جسے نظم طباطبائی نے لکھا ہے ،یہ شرح پہلی بار ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی،غالب پر لکھی گئی شروحات میں اس شرح کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ نظمؔ عربی فارسی کے بہت بڑے عالم تھے، نظام کالج میں پروفیسر رہے ،غالب کی شاعری پر ان کی بہت گہری نظر تھی، انہوں نے بہت ہی دقت نظر کے ساتھ اس شرح کو تحریر کیاہے ۔ایک شعر کے جتنے معنی ممکن ہوسکتے ہیں انہوں نے بیان کردیے ہیں،ایک شعر کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’جذبہ بے اختیارشوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دم کے معنی سانس اور باڑھ اور یہاں دونوں معنی تعلق و مناسبت رکھتے ہیں کہ سینہ شمشیر کہا ہے مطلب یہ کہ میرے اشتیاق قتل میں ایسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر کھنچ آیا‘‘(شرح دیوان غالب،نظم طباطبائی، ص:۲، مطبع:انوارالمطابع لکھنؤ، اشاعت:۱۹۰۰ء )
تیسری شرح وجدان تحقیق ازواجد حیدرآبادی فرزند عبدالعلی والہ حیدرآبادی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی،یہ شرح حضرت والہ حیدرآبادی کے نکات کی تشریح پر مبنی ہے،اگرچہ یہ مکمل شر ح نہیں ہے اس میں صرف ردیف الف سے ختم ہونے والے اشعار کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ اس شرح کے دونام ہیں ایک تو وجدان تحقیق،دوسرا توضیح اشارات والہ۔
اپنے والد کی نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے میر محبوب علی خان کی مدح میں ایک قصیدہ کہا اور اس شرح کی زینت بنایا،جیسا کہ اس دور میں رواج تھا،اس کے بعد وثوق صراحت پر منظو م و منثور تبصرے جواخبارجریدۂ روزگارمدراس،رسالہ معارف پانی پت،گلدستۂ خدنگ نظر لکھنؤ،گلدستہ معیار لکھنؤ میں شائع ہوئے۔
بعدازاں وجدان تحقیق پر تاریخی قطعات ہیں، پھر اصل شرح شروع ہوتی ہے ، ایک ایک شعر کی تشریح انہوں نے دو دوتین تین صفحات پر پھیلادی ہے اوربہت سی ادھر اُدھر کی باتیں طوالت کے شوق میں راہ پاگئی ہیں،اپنی بات کو مدلل کرنے کے لیے عرفی شیرازی،صائب تبریزی،ابن نصوص شیرازی وغیرہ کے کلام کو جزو کتاب بنایاگیاہے۔
دیوان غالب کے پہلے شعر کی تشریح کا کچھ حصہ پیش کیاجاتاہے:
’’چونکہ تصویر اکثر کاغذپرہوتی ہے لہٰذا تصویر کوکاغذی پیرہن یعنی پوشاک کاغذی دارندہ قراردیاہے،اس شعر کے اتنے معنی ہوسکتے ہیں کہ تصویر زبان حال سے تظلم و فریادکرتی ہے مگران معنوں میں کوئی لطف اور نزاکت نہیں کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اورتاویل و تعبیر میں بہت کچھ گنجائش ہے چنانچہ بعض لوگ اس شعر کو تصوف میں لیے جاتے ہیں اور صوفیانہ معنی بیان کرتے ہیں مگر خود ان کو یقین نہیں کہ مقصود قائل یہی ہو‘‘(وجدان تحقیق،عبدالواجد،اشاعت:۱۹۰۲ء، مطبع فیض منبع فخر نظامی،حیدرآباد،ص:۳ )
چوتھی شرح ترجمان غالب ہے جسے جناب سید مصطفیٰ نے تحریر کیاہے۔یہ مولانا وحید الدین سلیم کے ممتاز شاگردوں میں شمارہوتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنی اس شرح کو وحیدالدین سلیم ،سید اشرف شمسی اور مولانا عبدالحمید خان بنگش کے نام معنون کیا ہے ،ان کی شاگردی میں رہنے کا شرف ان کو حاصل رہا ہے۔
دیگر شروحات سے انہوں نے بہت کم استفادہ کیاہے اورانہوں نے خود جو نتائج اخذ کیے ہیں ان کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔لکھنے والے کی شخصیت کا عکس اگر اس کی تحریرپر نہ پڑے تو پھر وہ تحریر کیا؟
اسی کی طرف انہوں نے اشارہ کیاہے:’’حضرت بے خود کی پوری شرح دیکھی لیکن کوشش یہی رہی کہ اپنی ذاتی کاوش اور فکر کے نتائج سپرد قلم کیے جائیں،البتہ یادگار غالب میں مولانا حالی نے اور اردوئے معلی و عود ہندی میں خود شاعر نے جن اشعار کی تشریح فرمائی ہے وہ جوں کی توں ان کتابوں کے حوالہ سے نقل کردی گئی ہے ‘‘(ترجمان غالب،شہاب الدین مصطفیٰ،ص:۲،مطبع:مکتبہ نشاۃ ثانیہ معظم جاہی مارکیٹ حیدرآباد،اشاعت:۱۹۵۶ء )
کاوکاوسخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لاناہے جوئے شیر کا
اس شعر کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ:
’’کاو:کاوش،خلش،تکلیف
فرماتے ہیں شب تنہائی ہمارے لیے غم کا ایک پہاڑ ہے جو کاٹے نہیں کٹتا رات تمام کرب و بے چینی،کاوش و خلش میں گزرتی ہے شب ہجر کا صبح کرنا اتنا ہی مشکل اور جانکا ہے جتنا کہ فرہاد کے لیے کوہ بے ستون کو کاٹ کر جوئے شیر لاناکاوش طلب تھا‘‘(ایضاً،ص:۲ )
سب سے پہلے شعر میں جو مشکل الفاظ ہیں ان کا معنی بیان کردیتے ہیں بعد ازاں شعر کا مطلب آسان لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تشریح نہ بہت مختصر ہے اور نہ بہت طویل بلکہ متوسط طریقے سے انہوں نے اپنے خیالات پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
پانچویں شرح شرح ضامن کنتوری ہے جو۱۹۳۵ ء کے آس پاس لکھی گئی لیکن ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔
ضامن کنتوری کے تعارف میں صر ف ایک بات کہنی کافی ہوگی کہ مشہورزمانہ شاعر حضرت امجد حیدرآبادی آپ کے شاگردوں میں سے تھے،ان کی تشریح کافی بسیط ہے۔اشعار کی تشریح کے سلسلے میں انہوں نے نہایت شر ح و بسط سے کام لیا ہے ،محترمہ اشرف رفیع اس کتاب کے مقدمے میں ان کی تشریح کے انداز پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
’’فارسی میں شرح نویسی کی جو طاقتورروایت کارفرما رہ چکی ہے وہ کثیرالجہات تھی،یعنی شرح لکھنے والا شعر کا مفہوم لکھنے کے ساتھ اس شعر سے متعلق ضروری نکات بھی لکھتا جا تایہی انداز اس شرح کا بھی ہے ،اشعار کی شرح کے ذیل میں زبان و بیان محاورہ دہلی ولکھنو بلاغت و فصحات ،عروض و قافیہ وفلسفہ و منطق کے بہت سے مسائل بکھرے ہوئے ہیں ‘‘(شرح دیوان غالب از ضامن کنتوری،ص:۱۷،مرتبہ اشرف رفیع )
ضیاء الدین احمد شکیب نے جب ’غالب اور حیدرآباد‘ لکھی تب یہ شرح شائع نہیں ہوئی تھی اس لیے اس کی اہمیت اور اس کی اشاعت کی طرف انہوں نے توجہ مبذول کروائی۔جگہ جگہ انہوں نے حافظ خسرو کے کلام سے استدلال بھی کیاہے۔اس شرح سے ایک مختصر مثال پیش ہے :
’’تغافل بدگمانی بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا
اس شعر کو نظم کرنے میں تسامح ہوگیا۔مرزا یہ کہناچاہتا تھا کہ
تغافل بدگمانی بلکہ نگاہ بے حجاب کو
میری سخت جانی بیم گزند نظر آیا
اس کو وزن میں لانے کی خاطر کیا یہ کہ تغافل و بدگمانی کو سخت جانی پر عطف کردیا جس سے یہ مطلب نکلا کہ میرے تغافل میری بدگمانی اور میری سخت جانی کو دیکھ کر نگاہ ناز ڈر گئی۔اعتراض یہ پیدا ہوا کہ تغافل و بدگمانی انداز معشوقانہ ہیں نہ کہ شیوہ عشاق اس لیے شعر معناً غلط ہے‘‘(شرح دیوان غالب،ضامن کنتوری،ص:۲۶ )
ان شروحات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکن میں دیوان غالب کی شرحیں اگر چہ مختصر لکھی گئیں لیکن معیار کے لحاظ سے یہ شرحیں اپنی ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔
(مضمون نگار کتابی سلسلہ ارتعاش،حیدرآباد کے مدیراعلی ہیں ،رابطہ نمبر : 9701065617)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025