
دنیا کی سب سے مظلوم آبادی روہنگیا کے لیے حصول انصاف یقینی بنایا جائے
عالمی برادری روہنگیاؤں کی امداد میں کٹوتی کرکے سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے: انتونیو گوٹیرس
ڈھاکہ (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو)
کیا اقوام متحدہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ روہنگیائی مہاجرین کو انصاف فراہم کرسکے؟
پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس بنگلہ دیش کے دورے پر آئے تھے جہاں انہوں نے کاکس بازار میں پناہ گزیں ایک ملین سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپس کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ ’’عالمی برادری امداد میں کٹوتی کرکے سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اتنا سخت بیان دینے پر کیوں مجبور ہوئے؟ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ روہنگیائی مسلمانوں کو لا متناہی آفت کا سامنا ہے، مزید تکلیف اٹھائیں گے اور موت کا شکار ہو جائیں گے۔ دراصل 2024 میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے لیے جو عالمی امداد کا اعلان کیا گیا تھا اس میں صرف 40 فیصد امداد ہی موصول ہوئی جس کی وجہ سے کاکس بازار میں پناہ گزیں ڈیڑھ ملین آبادی کو غذائی قلت اور صحت سے متعلق امداد کے بحران کا سامنا ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ انتونیو گوٹیرس اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے اور ان کے ذریعہ امریکہ کے یو ایس ایڈ کے فنڈ میں کٹوتی کرنے کے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے جانے کے بعد صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔
اقوم متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں روہنگیاؤں کو 852.4 ملین ڈالر کی ضرورت تھی اس میں امریکہ کی حصہ داری 301 ملین ڈالرہونی تھی لیکن پوری دنیا سے محض 548.4 ملین ڈالر ہی موصول ہوئے یعنی کل 55 فیصد رقم ہی موصول ہوئی۔ اس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کام کرنے والی ایجنسیاں اور کئی عالمی تنظیموں کے آپریشن بند ہوگئے ہیں یا پھر سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں۔ان اداروں میں بی آر اے سی، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی، سیو دی چلڈرن، کیئر بنگلہ دیش اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ڈبلیو ایچ او اور جی اے وی آئی کمپنیاں ہیں جنہوں نے ویکسینیشن فراہم کر دی ہے۔ چونکہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور پیرس کلائمیٹ پیکٹ سے بھی دستبردار ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے عالمی اداروں کے کام کاج متاثر ہوں گے بلکہ اس کا راست اثر بنگلہ دیش کے روہنگیائی مسلمانوں پر پڑا ہے۔ کئی ہسپتال جو عالمی ادارے صحت کے تحت کام کرتے تھے انہوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دیگر ہسپتالوں پر کام کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں انسانی بنیادوں پر روہنگیاؤں کو انسانی بنیادی امداد فراہم کرنا جاری رکھا تھا۔
کاکس بازار جہاں اس وقت دس لاکھ سے زائد روہنگیائی آباد ہیں وہ اپنی وسعت کے اعتبار سے اتنی بڑی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ بنگلہ دیش انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں نے کاکس بازار کو ایک کھلی جیل بنا رکھا ہے۔ روہنگیائی شہریوں، نوجوانوں اور بچوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے اس کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق کاکس بازار میں اس وقت کم از کم پانچ ہسپتال امریکی امداد سے چل رہے تھے مگر ٹرمپ کے آنے کے بعد وہ سب بند ہوگئے ہیں۔ عالمی فوڈ پروگرام متاثر ہونے کے ساتھ صحت کا شعبہ، فضلے کی نکاسی کا انتظام اور کاکس بازار کا رکھ رکھاؤ متاثر ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام کچرے کے انتظام اور لینڈ فل کی سرگرمیاں بھی 24 جنوری کو USAID کے خط کے جاری ہونے کے ایک دن بعد معطل کر دی گئی ہیں۔USAID میمو میں عمل درآمد کرنے والے شراکت داروں سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر کام بند کر دیں۔ ہدایت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مزید کوئی امداد اس طریقے سے نہیں دی جائے گی جو ریاستہائے متحدہ کے صدر کی خارجہ پالیسی سے پوری طرح مطابقت نہ رکھتی ہو۔ماضی میں امریکہ کا موقف تھا کہ روہنگیائی مسلمان نسل کشی کے شکار ہیں اور میانمار کی فوجی جنتا حکومت کا احتساب لازمی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے سابقہ حکومت کے دور میں اسی موقف پر قائم رہے اور ان کے دور میں بھی امریکہ سب سے بڑا عطیہ دہندگان تھا مگر ”امریکہ فرسٹ“ پالیسی کے تحت امریکہ کی خارجہ پالیسی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ امریکہ عالمی برادری میں سوپر پاور کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے مگر ایک استعماری قوت کا رنگ و روپ اختیار کر کے امریکی مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور انسانی اقدار، اخلاقیات سے مکمل طور پر دست بردار ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا یہ دوہرا رویہ کیوں ہے؟ ایک طرف وہ سوپر پاور ہونے کی حیثیت سے اپنا عالمی کردار ادا کرنے سے دستبردار ہو رہا ہے تو دوسری طرف پوری دنیا پر استعماری نگاہیں ڈال رہا ہے۔ ہر اس مقام اور جگہ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے جس سے اس کو فائدہ پہنچے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل روہنگیائی مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا اظہار اور ان کی اپنے ملک کو باوقار واپسی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے انسانی جذبے کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ اور عالمی برادری پوری دنیا کی سب سے بڑی بے گھر آبادی کی بازآبادی کاری اور ان کے اپنے ہی ملک میں باوقار واپسی کے لیے کب کردار ادا کرے گی۔اب جب کہ خود میانمار غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ فوجی جنتا اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی نے میانمار کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ صرف تمام فریقوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کرنے کے علاوہ کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا روہنگیائی مسلمانوں کی با وقار واپسی ہو سکتی ہے۔المیہ یہ ہے ایک طرف فوجی جنتا چاہتی ہے کہ میانمار باقی روہنگیائی مسلمان ان کے ساتھ رہ کر باغیوں کا مقابلہ تو کریں تو دوسری طرف باغی گروپ چاہتے ہیں کہ روہنگیا ان کا ساتھ دیں مگر دونوں میں سے کوئی بھی روہنگیائی مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس وقت 2.8 ملین روہنگیائی مسلمان در بدری کے شکار ہیں۔ شہریت سے محروم اور ان کے اپنے ملک میں فوجی انتظامیہ کی طرف سے کئی دہائیوں کے ظلم و ستم کا شکار روہنگیا آبادی نسل کشی سے بھاگنے پر مجبور ہوئی اور اب کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیش، ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں روہنگیا پناہ گزینوں کے حالات وسیع پیمانے پر دستاویزی ہیں لیکن اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNHCR) کے ساتھ رجسٹرڈ تقریباً 22,500 روہنگیا پناہ گزینوں پر کم توجہ دی جاتی ہے جو اس وقت بھارت میں مقیم ہیں۔ بھارت کے سیاسی حالات کے سبب مظلوم و مقہور روہنگیائی مسلمانوں کی ظالم کے طور پر شناحت کی جارہی ہے۔ تعصب اور نفرت کا سامنا کرنے والی روہنگیائیوں کی بڑی تعداد اس وقت بھارت کی جیلوں میں بند ہے۔
بلا شبہ بھارت1951 کے پناہ گزین کنونشن یا اس کے 1967 کے پروٹوکول پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہے۔ لہٰذا سرحد عبور کرکے بھارت میں آنے والے روہنگیا پناہ گزیں اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود انہیں قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے بڑی تعداد میں روہنگیائی شہریوں کی فارنرز ایکٹ، 1946 اور پاسپورٹ ایکٹ، 1967کے تحت گرفتاریاں ہوتی ہیں۔سیکڑوں روہنگیائی مہاجرین فارنرز ایکٹ 1946 کے سیکشن 14 (a) (b) (زیادہ سے زیادہ آٹھ سال کی سزا) اور پاسپورٹ ایکٹ 1980 کے رول 6 کے تحت قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔ مختلف رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بھارت کے جیلوں میں بند روہنگیائی شہری اپنی سزا مکمل ہونے کے بعد بھی جیلوں میں بند ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند روہنگیائی مہاجرین کو جس سلوک کا سامنا ہے وہ بین الاقوامی حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے۔حراستی کیمپوں میں میاں بیوی کو الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ ماڈل حراستی ضابطہ کے مطابق نہ بچوں کو اپنے والدین سے اور نہ ہی میاں بیوی کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔ حراستی مراکز میں رہنے والے بچوں کو باقاعدہ اسکولنگ یا کھیل کے میدانوں تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور عمر سے متعلقہ نقل و حرکت کے مسائل والے بوڑھے لوگوں کو کھانے اور بیت الخلا تک رسائی کے لیے ساتھی قیدیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ناقص صفائی اور وینٹی لیشن کی کمی بھی شدید ذہنی صحت اور جسمانی بیماریوں کا باعث بنی ہے جس میں بہت سے معاملات میں عارضی فالج بھی شامل ہے۔ ذہنی صحت کی مدد تک رسائی نہیں ہے اور جسمانی بیماریوں کے لیے صرف پولیس کی نگرانی میں ہسپتالوں کے دورے کیے جاتے ہیں۔ قانونی امداد اور UNHCR جیسے بین الاقوامی اداروں تک بہت محدود رسائی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے من مانی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے ۔ اس میں حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی مائیں، بچے، مختلف طور پر معذور افراد اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں۔
انڈین یونین مسلم لیگ بمقابلہ یونین آف انڈیا رٹ پٹیشن 2019 کیس میں بھارتی حکومت نے تسلیم کیا کہ میانمار میں روہنگیائی آبادی ظلم وستم کا شکار ہے۔مگر جب روہنگیا پناہ گزینوں کی بات آتی ہے تو حکومت ہند قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے لیے مسئلہ کے طور پر دیکھتی ہے۔بھارتی حکومت کے عہدیدار اور حکم راں جماعت مظلوم و مقہور روہنگیا پناہ گزینوں کو دہشت گرد اور دیمک قرار دیتی رہی ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد روہنگیائی پناہ گزینوں کی من مانی اور غیر معینہ حراست کی راہ ہموار کردی ہے۔مرکزی حکومت نے پریالی سور بمقابلہ یونین آف انڈیا (UOI) کیس میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت صرف زندگی گزارنے کا حق تو ہے، لیکن رہائش اور آباد ہونے کا حق نہیں۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ روہنگیائی پناہ گزینوں کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جائے۔بلکہ آرٹیکل 21کی واضح خلاف ورزی ہے۔ جو عزت کے ساتھ جینے کے حق، معاش کے حق اور صحت مند ماحول کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔مزید برآں بھارت کئی بنیادی بین الاقوامی معاہدوں کا فریق ہے جیسے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR) خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن (CEDAW) اور بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC) جو کہ تمام ریاستوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ مگر جب بات روہنگیائی شہریوں کی آتی ہے تو یہ تمام بین الاقوامی معاہدے طاق پر رکھ دیے جاتے ہیں۔
23 دسمبر کو دہلی کے اس وقت کے وزیر اعلی، آتشی نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی حکومت کے محکمہ تعلیم نے سخت حکم جاری کیا ہے کہ دہلی کے سرکاری اسکولوں میں کسی بھی روہنگیا کو داخلہ نہیں دیا جانا چاہیے۔ اگرچہ سرکلر میں صرف ”غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن“ کا ذکر ہے مگر ایکس پر آتشی نے روہنگیاؤں کا ذکر کیا ہے۔ بھارت بھی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا دستخط کنندہ ہے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہر کسی کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اور تعلیم کم از کم ابتدائی اور بنیادی مراحل میں مفت ہوگی۔ کولن گونسالویس، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور انسانی حقوق کے وکیل نے سپریم کورٹ میں جنوری 2025 میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران کہا کہ ”آرٹیکل 21 کے تحت انہیں آئینی حق فراہم کرتے ہیں جو زندگی اور آزادی کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہ شہریوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی حدود میں رہنے والے تمام لوگوں پر نافذ ہوتا ہے۔ یہ روہنگیا پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ اگر انہیں ملک بدر کیا جاتا ہے تو میانمار میں تشدد کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہے“ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی بھی بچے کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جائے گا، تاہم دہلی میں روہنگیا پناہ گزینوں اور ان کے حالات کے بارے میں مزید ڈیٹا اور معلومات طلب کی ہیں۔انڈیا اسپینڈ نے رپورٹ کیا تھا کہ اپریل 2017 میں، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے ڈیویلپمنٹ اینڈ جسٹس انیشی ایٹو (DAJI) کی ایک شکایت پر (جو کہ آدیواسیوں، پناہ گزینوں اور تارکین وطن کارکنوں کے لیے حقوق اور انصاف تک رسائی کو فروغ دینے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے ) واضح طور پر کہا تھا کہ ’’کسی بھی سرکاری اسکول یا اس میں داخلہ کے خواہاں کسی بھی بچے کو داخلہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اقوم متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بنگلہ دیش دورے کے دوران جن جذبات اور پناہ گزینوں کی باز آباد کاری کے سلسلے میں جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ قابل ستائش ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ روہنگیائی مہاجرین کو انصاف فراہم کر سکے گا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025