دلی حکومت نے دلی فسادات کے ویڈیو دلی پولیس کے حوالے کیے، بعض میں پولیس اہل کار پتھراؤ کرتے نظر آئے
پولیس کے بقول پانچ ویڈیوز میں سے تین پر کارروائی کی گئی ہے، دو کی جانچ جاری ہے
دلی حکومت نے ایسے سات ویڈیو کلپ دلی پولیس کو سونپے ہیں، جن میں شمال مشرقی دلی فسادات کے دوران دو پولیس اہل کار بلوائیوں کے ساتھ مل کر پتھر اور انڈے پھینکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ایک ویڈیو میں پولیس اہل کارپانچ زخمی لوگوں کو زمین پر لٹاکر ان کوقومی ترانہ گانےکو مجبور کر رہے ہیں۔
شمال مشرقی دلی کے پولیس ڈپٹی کمشنر نے ان ویڈیوز کے سونپے جانے کے دو دن بعد کہا تھا کہ تین ویڈیوز پر کارروائی کی گئی ہے جب کہ باقی دو ویڈیو کاتجزیہ کیا جا رہا ہے اور متعلقہ معاملات کی تصدیق کے بعد اس سلسلے میں رپورٹ دائر کی جائےگی۔
جس ویڈیو میں پولیس اہل کار زخمی افراد سے قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس پر دلی پولیس نے کہا کہ کرائم برانچ کی اسپیشل تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے جانچ کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ ایک دیگر ویڈیو میں ہتھیاروں سے لیس کچھ پولیس اہل کار بلوائیوں کے ساتھ پتھر پھینکتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو میں بلوائیوں اور پولیس اہل کاروں کے چہرے بھی صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں پولیس کا آؤٹ پوسٹ بھی دکھائی دے رہا ہے، جس سے جائے واردات کی تصدیق ہوتی ہے۔
ایک دیگر ویڈیو میں بعض پولیس اہل کار مبینہ بلوائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کچھ دیر بعد پولیس اہل کاربلوائیوں کو دوسری طرف جانے کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد پولیس اہل کار اور وہ لوگ پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں۔
ویڈیو میں کئی چہرے صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کئی دکانوں کی ہورڈنگس بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں، جس سے جائے واردات کا پتہ لگانا مشکل نہیں۔ پولیس کے مطابق اس ویڈیو کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ایک تیسرا ویڈیو ان زخمی افراد کا ہے جنھیں قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کی پہچان فیضان(عمر 24سال)کے طور پر کی گئی تھی، جس کی بعد میں موت ہو گئی تھی۔
اس معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ147، 148، 149 اور 302 کے تحت بھجن پورہ پولیس تھانے میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ چار دیگر ویڈیوز جو دلی حکومت کے محکمہ داخلہ نے دلی پولیس کو سونپی ہیں، ان میں کچھ لوگ واضح طور پر دھمکیاں دے رہے ہیں اور ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کے مقصد سے تشدد بھڑ کانے کی بات کر رہے ہیں۔
پولیس کے بقول انھوں نے ان ویڈیوز میں سے تین کے خلاف کارروائی کی ہے اور بقیہ دو کی جانچ جاری ہے۔