شہید بابری مسجد: بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

جمہوری ادارے پنجرے کا طوطا بن کر باقی نہیں رہ سکتے

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی،لکھنو

 

بابری مسجد گرانے والے مجرموں کے تعلق سے خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے ۳۰ ستمبر کو دیے گئے اپنے ایک عجیب و غریب فیصلے م یں کہا ہے کہ ٢٨ برس قبل بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ طے شدہ منصوبہ بندی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ ایک ہنگامی صورت حال کا نتیجہ تھا اس لیے اس میں نامزد تمام ملزموں کو ٹھوس شواہد نہ ہونے کے سبب بری کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہونے کے باوجود حیرت انگیز نہیں ہے جنہیں معلوم ہے کہ اس وقت کی عدالتیں موجودہ جابرانہ طرز حکومت کے چنگل میں جکڑی ہوئی ہیں اور وہی بولتی ہیں جس کی ان سے خواہش کی جاتی ہے۔
بابری مسجد ١٥٢٨ میں اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ایک کمانڈر میر باقی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ وہی شہر ہے جسے برہمنی طبقے کے ہندو رام کی جائے پیدائش کہتے ہیں اور ان کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں رام کا جنم ہوا تھا اور اس جگہ سولہویں صدی سے پہلے ایک مندر تھا جسے منہدم کر کے اس مسجد کی تعمیر ہوئی تھی۔ ان کے ان دونوں دعوؤں کا کوئی ٹھوس ثبوت تاریخ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی ہندوستانی عدالت نے اسے اب تک کھلے لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ یہ غلط اور من گھڑت دعویٰ بھلے ہی ثبوتوں سے ہمیشہ محروم رہا ہو لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس نے ہندوستان کے جانب دار ارباب حکومت اور عدلیہ سمیت ان کے ماتحت اداروں کو دھرم اور آستھا (عقیدہ) کے نام پر اپنا ہمنوا بنا لیا۔۔اسی دوران ١٩٤٩ میں مقامی ہندو مہاسبھا کے ایک کارکن کے ذریعہ ایک رات چوری سے مسجد کے اندر مورتی رکھ دی گئی اور وہاں رام کے پرکٹ ہونے کا ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ کیا گیا۔ یہی وہ واقعہ ہے جو بالآخر بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کا سبب بنا۔ اُس دور میں جو کہ کانگریس کی حکومت کا دور تھا مقامی انتظامیہ کی طرف سے مسجد میں چوری سے مورتی رکھنے والوں کے خلاف شکایت تو درج ہوئی لیکن اس دن سے اس جگہ کو متنازعہ قرار دے کر مسلمانوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا اس طرح در پردہ مجرموں اور ان کی مجرمانہ حرکت کی تائید کی گئی جس کے نتیجے میں انتہا پسند ہندوؤں کے حوصلے دن بہ دن بڑھتے گئے یہاں تک کہ جنوری ١٩٨٦ میں مقامی وکیل امیش چندر پانڈے نے مقامی عدالت میں قفل کھولنے اور مسجد میں رام مورتی کی پوجا کرنے کی درخواست دی۔ چنانچہ ہندووں کا دباؤ قبول کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسجد کے گیٹ کا قفل کھولنے کا حکم صادر کر دیا۔ مسجد کو ہندوؤں کے لیے کھولنا لیکن مسلمانوں کے لیے بند کر دینا یہ واضح کرنے کے لیے کافی تھا کہ حکومت خواہ کسی پارٹی کو ہو، جدید بھارت کس طرح ہندوتوا کے عفریت کی طرف تیزی سے لڑھک رہا ہے۔ یہاں تک کہ ٦ دسمبر ١٩٩٢ کو پورے ملک سے ایودھیا میں جمع ہوئے کارسیوکوں نے بی جے پی اور دوسری فسطائی ہندو تنظیموں کے سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں مسجد کو شہید کر کے اس رخ کو مزید واضح کر دیا۔ انہوں نے دن دہاڑے مسجد گرائی چنانچہ پوری دنیا نے ایودھیا میں بھارتی دستور و جمہوریت کی تدفین کا منظر دیکھا، لیکن بابری مسجد کو منہدم کرنے والے کسی مجرم کو ہلکی سے ہلکی سزا بھی نہیں ملی اس کی وجہ سے پورا ملک خونیں فسادات کی زد میں آیا اور ہزاروں جانیں تلف ہوئیں لیکن مسجد کے مجرموں اور ان کے سرغنوں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی اس وقت کی مرکزی و صوبائی حکومتوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ انتظامیہ نے اپنے طور سے کوئی نوٹس لیا۔ اس طرح بابری مسجد کی شہادت نے اس وقت کی نرسمہا راؤ کی مرکزی کانگریسی حکومت اور صوبہ اتر پردیش میں کلیان سنگھ کی بھاجپائی حکومت دونوں کے اصل چہرے کو ایک ساتھ بے نقاب کر دیا اور جدید دنیا میں دہشت گردی و مذہبی انتہا پسندی کے اس سب سے بڑے سانحے نے یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک پر فسطائیت کی گرفت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اس کے سامنے یہاں کی حکومت، انتظامیہ اور عدالتیں سب سپر ڈال چکی ہیں۔ اس نے ہندوستان کے دو بڑے فرقوں ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت، بدگمانی اور فرقہ وارانہ منافرت کی جو خلیج وسیع کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال جدید ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے نہ صرف ایودھیا میں آر ایس ایس برانڈ ہندوتوا کو عریاں شکل میں پیش کیا بلکہ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے سیاہ اور کریہہ باب کا اضافہ بھی کیا ہے۔
عصر حاضر میں دو ایسی مسجدیں ہیں جو اقتدار پر قابض حکمرانوں کا ایک لمبی مدت سے سخت امتحان لیتی آ رہی ہیں اور یہ حکمراں اپنے تمام جمہوری دعوؤں کے باوجود اس امتحان میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں بلکہ ان مسجدوں کی وجہ سے ہی ان کا سیاہ کردار دنیا کے سامنے آیا ہے۔ ایک ہندوستان کی بابری مسجد ہے اور دوسری فلسطین کی الاقصیٰ مسجد۔ ایک شہید ہونے کے باوجود ابھی تک ہندوستان کے جمہوری نظام اور اس کی مقننہ و عدلیہ کا امتحان لے رہی ہے اور دوسری ص
یہونی یہودی شر پسندوں کے درجنوں حملوں کے باجود ابھی باقی ہے۔ نہ یہاں بابری مسجد کے مجرموں کو کوئی سزا ہوئی اور نہ وہاں شرپسندوں سے کبھی باز پرس کی گئی بلکہ الٹا سرکاری سطح پر حملہ آوروں کی ہر طرح سے مدد کی گئی۔ بابری مسجد کا معاملہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ آر ایس ایس- بی جے پی اور وشو ہندو پریشد جیسے فسطائی گروہوں کی اکسائی ہوئی بھیڑ کے ذریعہ شہید کیے جانے کے باوجود اس کا آتشیں امتحان ( Acid test) جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ شہید ہونے سے پہلے اس نے حکومتوں اور اس کے کارندوں کی دستوری و جمہوری ذمہ داریوں کا امتحان لیا جس میں وہ سب بری طرح ناکام ثابت ہوئے، جب کہ شہید ہونے کے بعد اس نے یہاں کی عدالتوں کو سخت امتحان میں ڈالا لیکن وہ بھی حالات کے دباؤ کا شکار ہو کر ناکام رہیں۔
بابری مسجد گرنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا (جیسا کہ معروف انگریزی روزنامہ ہندو نے ٧ دسمبر ۱۹۹۲ کے اپنے اداریہ میں اس کا مطالبہ کیا تھا) کہ امن و قانون اور دوسری باتوں سے پہلے جو تاریخی مسجد گرائی گئی تھی اسے دوبارہ اپنی جگہ تعمیر کیا جاتا لیکن اس کی بجائے وہاں شرپسندوں کو عارضی مندر تعمیر کرنے اور اس میں رکھی رام مورتی کے درشن کی اجازت دینے کو ترجیح دی گئی اور ١٩٩٣ میں اس پوری زمین کو حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر مسلمانوں کی رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔ اس کے بعد پورا کیس ایک ایسے رخ پر ڈال دیا گیا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتیں انتہا پسند ہندوؤں کے سامنے جھکتی چلی گئیں اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہندو عقیدے کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو بابری مسجد اراضی کی ملکیت سے دستبردار ہونے کی تلقین کی جانے لگی۔ چنانچہ اسی مقصد سے ٢٠١٧ میں سپریم کورٹ نے اس تنازعہ کو عدالت سے باہر حل کرنے کی تجویز رکھی اور حکومت کے اشارے پر ہندو سنت شری شری روی شنکر نے اپنا وہ مفاہمتی فارمولا بڑی شدت سے مسلمانوں کے سامنے رکھا جس میں مسلمانوں کو بخوشی یہ ٹکڑا ہندوؤں کے حوالے کرنے اور کسی دوسری جگہ مسجد تعمیر کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ بالآخر ثالثی کا یہی یک طرفہ فارمولا جو بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کرنے کے دیرینہ سنگھی منصوبے اور بی جے پی کی مودی سرکار کی خواہشات کا عکاس تھا ملک کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا لب لباب قرار پایا۔ بابری مسجد کی زمین پر بابری مسجد دوبارہ تعمیر تو نہیں ہوئی البتہ ۹ اکتوبر ٢٠١٩ کو سپریم کورٹ نے اس کے مقبرے پر رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ ضرور صادر کر دیا۔ لا قانونیت کو قانون کا نام دے کر بابری مسجد کی ملکیت کے دعوے کو ہمیشہ کے لیے وہاں سے خارج کر دیا۔ اس طرح انصاف کے مقابلے میں آستھا کا پلڑا عدالت عظمیٰ کے میزان میں بھاری پڑ گیا۔ اس کے بعد ۳۰ ستمبر ٢٠٢٠ کو بابری مسجد مقدمے کے تابوت میں آخری کیل لکھنؤ کی سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے ٹھونکی جب اس کی ایک بنچ نے مسجد گرانے والے تمام مجرموں کو با عزت بری کر دیا۔ چنانچہ وہ اب اس قدر جری و بے باک ہو چکے ہیں کہ عدالت سے باہر آکر فتح کا جشن مناتے ہیں اور علی الاعلان اعتراف گناہ کرتے ہیں لیکن ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ اسی مقدمے میں ماخوذ ایک ملزم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو میں صاف صاف کہا کہ ’ہاں! ہم نے مسجد کو توڑا تھا ہمارے اندر سخت غصہ تھا ہر کارسیوک کے اندر ہنومان جی تھے ہاں! ہم نے مسجد توڑی تھی اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے لیکن عدالت نے ہمیں سزا نہیں دی یہ ہندو مذہب کی فتح ہے یہ ہندو قوم کی فتح ہے‘ یہ ہے مجرموں کا طنطنہ، نہ شرم نہ حیا نہ ڈر نہ کوئی خوف۔ کیا اس حالت کی ذمہ دار ہماری یہ عدالتیں نہیں ہیں؟
پوچھتا ہے بھارت اور پورا عالم کہ یہ کیسا فیصلہ ہے جس میں انصاف کے سوا اور سب کچھ ہے۔ اور کیسا ہے یہ عدالتی پیمانہ جو نہ مجرموں کو سزا دے سکا نہ دستور و قانون کی روح کو زندہ رکھ سکا اور نہ ٢٧ سالوں کی طویل مدت میں انصاف کی ایک معمولی مثال بھی پیش کر سکا جسے سنہرے حرفوں میں نہ سہی سیاہی سے ہی لکھا جاتا؟ بلکہ ہم نے دیکھا کہ ہماری وہ عدالتیں جو ملک کے مایوس کن منظر نامے میں مظلوموں کے لیے امید کی آخری کرن تھیں ان کا ہر پیمانہ انصاف خود ان مجرموں کی ناجائز خواہشات کا غلام بنتا چلا گیا۔ مجرموں نے کہا ہمیں بابری مسجد میں چوری سے رکھے گئے رام کے بُت کی پوجا کرنی ہے، عدالت نے کہا اجازت ہے۔ مجرموں نے کہا ہمیں شہید مسجد کی زمین پر عارضی مندر بنانا ہے حکومت نے اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا اس مندر میں ہمیں پوجا کرنے کی اجازت دی جائے عدالت نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی۔ انہوں نے خواہش کی کہ ہمیں مسجد کی زمین پر اب شاندار رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ہندو آستھا کا معاملہ ہے عدالت نے ان کی اس خواہش کو بھی پورا کر دیا اور دستور آئین اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر بابری مسجد کی پوری زمین تحفے کے طور پر پیش کر دی کیونکہ عدالت نے خونیں رتھ یاترا کے ہیروایل کے ایڈوانی کے اس جملے کو اپنا نظریہ بنا لیا تھا کہ رام للا کا معاملہ حکومت و عدالت سے بالاتر ہے بلکہ اپنی نگرانی میں مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ بھی قائم کر دیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس ٹرسٹ کی یا رام مندر کی تعمیر کی ذمہ داری بھی عدالت نے انہیں کو سونپ دی ہے جو خود عدالت عظمیٰ کے سابقہ فیصلے کے رو سے مجرم ہیں۔
میرے نزدیک ان عدالتی فیصلوں کو الگ الگ فیصلوں کی شکل میں دیکھنا اور اندرونی سلسلے کو نظر انداز کرنا جو ایک متعین سوچ سے جڑا ہے صریح غلطی ہو گی۔ یہ علامتیں در اصل آر ایس ایس بی جے پی کے ماتحت ہندوستان کے اس بدلتے مزاج کی نشاندہی کرتی ہیں جو ایک فسطائی مزاج سے زیادہ قریب ہے اور جو ہمیشہ کسی ملک کی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنے کی وکالت کرتا ہے۔ خواہ وہ ہٹلر کا جرمنی ہو، یا بی جے پی کا بھارت۔ اس فسطائیت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ عدلیہ سمیت تمام ادارے حکمرانوں کی مرضی کے غلام ہو جاتے ہیں۔ آج ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ کوئی ایک فیصلہ حقائق کے خلاف ہو تو اس کی تاویل ممکن ہے اور دلوں کو تسلی بھی دی جا سکتی ہے لیکن جب اقلیتوں کے تعلق سے بیشتر فیصلے انصاف کے صریح منافی اور مذہبی جانبداری کے مظہر ہوں تو لوگوں میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ سال بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دینے کے باوجود اپنے متنازعہ و غیر منصفانہ فیصلے میں دو حقیقتوں کو واضح الفاظ میں تسلیم کیا تھا۔ ایک یہ کہ ١٩٤٩ میں مسجد کے اندر مورتیوں کا رکھا جانا بالکل غیر قانونی تھا۔ دوسرا یہ کہ شرپسندوں کے ذریعہ بابری مسجد کو منہدم کرنا ایک مجرمانہ فعل تھا۔ لیکن افسوس کہ کسی عدالت نے نہ تو کبھی مسجد میں رکھی گئی مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا اور نہ مسجد گرانے والے مجرموں کو قرارِ واقعی سزا دینے کا کوئی فیصلہ سنایا۔ بابری مسجد گرنے کے بعد اس کی ملکیت کا مقدمہ ۲۷ سال چلا جبکہ اس کے گرانے والے مجرموں کے خلاف ایک دوسرا مقدمہ ۲۸ سال چلا۔ بابری مسجد مقدمے نے بڑے الٹ پھیر دیکھے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ چارج شیٹ بھی بدلتی رہی۔ کبھی دو مقدموں کو ایک کیا گیا اور کبھی ایک کو دو۔ دنیا جانتی ہے اور عام میڈیا میں گردش کرتی خبریں اور منھ بولتی تصویریں گواہ ہیں کہ بابری مسجد گرانے کی ناپاک مہم میں بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے تمام اہم لیڈر شامل تھے۔ اگرچہ ان میں سے زیادہ تر مر چکے ہیں لیکن بی جے پی کے ان رہنماؤں میں چار اب بھی زندہ ہیں جن میں سابق نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی، سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی، سابق مرکزی وزیر اوما بھارتی اور سابق وزیر اعلیٰ اتر پردیش کلیان سنگھ شامل ہیں۔ وی ایچ پی کے چار نامزد ملزمین میں سے صرف سادھوی رتھمبرا زندہ ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کئی ملکی اخبارات و رسائل نے ہندوتوا کے ان سرغنوں کی تصویریں شائع کر کے اس کے نیچے ”فسطائیت کے چہرے“ کی سرخی لگائی تھی۔ ٦دسمبر۱۹۹۲ کو مرکزی حکومت کے ذریعہ قائم کردہ لبراہن کمیشن نے سترہ سال کے بعد اس واقعے پر جون ۲۰۰۹ میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں بھی بی جے پی کے ان رہنماؤں کی بطور مجرم نشاندہی کی گئی تھی، لیکن الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر بنی لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ٣٠ ستمبر ٢٠٢٠ کو ثبوتوں کی کمی کو بہانہ بنا کر اپنے متنازع فیصلہ میں زندہ بچے سارے ٣٢ ملزمین کو بری کر دیا اور دنیا ہمارے ملک کے سکڑتے اور بگڑتے عدالتی نظام کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
خصوصی عدالت نے کہا کہ بابری مسجد گری ہے یہ حقیقت ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ وہ ایک سازش کے تحت گرائی گئی بلکہ کچھ ”غیر سماجی عناصر“ کی اچانک کارروائی سے ایسا ہوا اور جن سیاسی رہنماؤں کے خلاف مسجد گرانے کی مہم کی قیادت کرنے اور سازش میں شامل ہونے کا الزام ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ وہ تو بے قابو بھیڑ کو ایسا کرنے سے روک رہے تھے۔ اس فیصلے کے بین السطور کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں عدالت منصف کے بجائے خود ہی ایک مدعی و فریق بن گئی ہے اور اپنی جانب سے مسجد کے مجرمین کو کلین چٹ دینے کے لیے ایسے ثبوت فراہم کر رہی ہے جو بادی النظر میں بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ جن ملزمین کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ بے قصور ہیں اور وہ بھیڑ کو مسجد گرانے سے روک رہے تھے خود ان کا موقع واردات پر ہونا ہی ان کے جرم کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ واقعات کی جزوی تفصیلات کے ساتھ میڈیا میں چھپی ان کی اس وقت کی تصویریں یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ وہاں کچھ اور نہیں بلکہ تخریب کاروں کی قیادت کرنے گئے تھے اور جب بھیڑ نے اس مسجد کا بڑا حصہ گرا دیا تو وہ ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر اس کے گرنے پر خوشیاں مناتے پائے گئے۔
یہ تمام تصویریں اور خبریں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات و رسائل میں آج بھی محفوظ ہیں۔ اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی کی تصویر کچھ یہی بیان کر رہی ہے، انہیں اور وہاں موجود دوسرے رام رتھیوں کو دیکھ کر ایک عام آدمی کو بھی یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ مسجد گرانے کی کارسیوکوں کی مہم کا وہ نہ صرف حصہ تھے بلکہ اپنے ہر قول و فعل سے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ لیکن کورٹ نے ان حقائق کو پوری طرح نظر انداز کر کے جو فیصلہ دیا ہے وہ انصاف کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہے۔ یہ کورٹ کا وہ انداز ہے جو اس کی آزادی پر بہت سارے شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ مجرموں کو بری کرنے کی ایک ایسی نامعقول تاویل ہے جو کسی بھی معقول انسان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکتی۔ یہ بولی وہی عدالت بول سکتی ہے جو ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن کے بقول حکومت کے زیر اثر ایک ”پنجرے کا طوطا“ ہی بول سکتا ہے۔ عدالت کہہ رہی ہے کہ بی جے پی کے سیاسی رہنماؤں کا اس سازش میں کوئی رول نہیں ہے، بلکہ الٹا انہیں تمغہ بھی دے رہی ہے کہ یہ مہان پُرش تو وہاں روک تھام کے لیے گئے تھے۔ کتنی معصوم ہے یہ دلیل اور کتنا سادہ لوح ہے اس دلیل کو پیش کرنے والا۔ کون نہیں جانتا کہ یہ وہی رہنما تھے جو مسجد کی شہادت سے تقریباً سات سال پہلے سے پورے ملک میں رام مندر کے نام پر آگ لگا رہے تھے اور انہیں کی لگائی ہوئی آگ کے شعلوں نے نہ صرف مسجد کو ختم کیا بلکہ ہندوستان کو بھیانک فسادات کی نذر کردیا تھا اورMalevolent Republic: A Short History of the New Indiaکے مصنف، کپل کومیریڈی نے اس فیصلے کے حوالے سے گارجین سے گفتگو کرتے ہوئے جو بات بیان کی ہے وہی سچ ہے کہ ”مسجد کی بربادی اس مہم کا انجام تھی جس کا مقصد مسجد کو کسی بھی شکل میں ڈھانا تھا“
٣٠ ستمبر کے فیصلے سے پہلے ملزمین کے جرم کے تعلق سے عدالت میں ٨٥٠ سے زیادہ گواہوں کو پیش کیا گیا، سینکڑوں دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز کو جج صاحبان کے ملاحظے کے لیے اکٹھا کیا گیا مگر اس میں سے ایک بھی ثبوت عدالت کے لیے قابلِ اعتنا نہیں بنا اور نہ اس نے کسی ملزم کو قصوروار تسلیم کیا۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ بابری مسجد یا تو گرائی ہی نہیں گئی یا خود ہی گر گئی یا پھر سی بی آئی کے ذریعہ جمع کیے گئے تمام ثبوت فرضی اور تمام گواہ جھوٹے تھے۔
خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کے گزشتہ فیصلے کا منطقی نتیجہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب سب سے بڑی عدالت نے بغیر کسی ثبوت کے مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کی غرض سے ہندوؤں کے حوالے کر دیا تو اس کا اثر اس مقدمے پر پڑنا لازمی تھا جو مسجد منہدم کرنے والوں کے خلاف چل رہا تھا۔ نچلی عدالت نے جب یہ دیکھا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دے ہی دیا ہے اور رام مندر ٹرسٹ بھی اسی حکمراں پارٹی کی نگرانی میں بنانے کا حکم دیا ہے جس کے رہنماؤں پر اس کو گرانے کا الزام ہے تو اس نے سوچا پھر بھلا اب اس تتمے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ ایک سال کے بعد اس نے بھی بہ یک جنبش قلم تمام مجرموں کو بری قرار دے دیا۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مادھو گوڈبولے کو بھی جو بابری مسجد کی شہادت کے وقت یونین ہوم سکریٹری تھے ہم سب کی طرح عدالت سے کچھ ’’لگ نتیجے‘‘ کی توقع تھی لیکن عدالت نے انصاف کی بجائے حیلہ بازی کا جو کھیل دکھایا وہ ہم سب کے سامنے ہے اور ہم سب کا وہی احساس ہے جو گوڈبولے کا ہے کہ ’’اس کیس کی سنوائی پچھلے کئی سالوں سے چل رہی تھی، سیکڑوں گواہ اور ہزاروں دستاویزات کو پرکھا گیا اور اب عدالت اس نتیجے پر آئی ہے کہ (ملزموں کو قصوروار قرار دینے کے لیے) ثبوت ناکافی ہیں۔ یہ ایسی چیز جسے قبول کرنا محال ہے‘‘
بابری مسجد کے تعلق سے عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ کہ مسلمانوں کو جب یہ یقین ہو چلا تھا کہ ملک کے موجودہ حالات اور اس کے حکمرانوں کی غیر منصفانہ روش کی وجہ سے بابری مسجد کی زمین پر اس کی دوبارہ تعمیر اب محال ہے تو انہوں اس معاملے کو بہت پہلے اللہ کے حوالےکر دیا تھا۔ اب نہ انہیں کسی مفاہمت کار و ثالثی کی ضرورت تھی اور نہ بابری مسجد کی زمین کے بدلے کسی دوسرے قطعہ اراضی کی۔ لیکن انہیں یہ توقع ضرور تھی کہ عدالت انصاف کی کچھ لاج رکھ کر مسلمانوں کی اشک شوئی ضرور کرے گی جن کے مذہبی جذبات کو ان واقعات سے گہری چوٹ پہنچی ہے اور جن کا اعتماد بوجوہ متعصب حکرانوں پر ہی نہیں عدالتوں پر بھی متزلزل ہوا ہے۔ انہیں یہ بھی امید تھی کہ گو کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ نے تقریباً ختم کر دیا ہے لیکن تھوڑی بہت ہی سہی، فسادیوں اور قصورواروں کو سزا ضرور ملے گی اور یہ فیصلے ایسے ہر گز نہیں ہوں گے جو مجرموں اور فسطائی ذہنیت کے علم برداروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنیں گے۔ انہیں اس کی بھی توقع تھی کہ یہ فیصلے کم سے کم اتنے متوازن ضرور ہوں گے کہ ان سے انتہا پسند نئی قوت حاصل کرکے آنے والے دنوں میں ایودھیا کے طرز پر دوسری مسجدوں اور عبادت گاہوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ لیکن افسوس کہ پہلے ٢٠١٠ میں الٰہ آباد کی ہائی کورٹ، اس کے بعد سپریم کورٹ اور آخر میں لكھنؤ کی سی بی آئی کورٹ بھی مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں کی یہ توقع پوری کرنے میں ناکام رہی اور ان کے فیصلوں نے جہاں مجرموں کا حوصلہ بڑھایا ہے وہیں مسلمانوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کر دیا۔
ملک کی موجودہ حکومت اور عدالتوں کے آلودہ و تعصب آمیز طرز عمل کو دیکھتے ہوئے جو بات غور و فکر کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ما بعد بابری مسجد کا مرحلہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ تاریخ کا ایک ایسا مرحلہ ہے جب یہ ملک جمہوری و دستوری روح سے آہستہ آہستہ الگ ہو رہا ہے اور فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں ایک در پردہ حکمت عملی کے تحت ہندوتوا ماڈل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پولیس، انتظامیہ اور حکومتی وزارتوں میں مذہب کی بنیاد پر تعصب و امتیاز کے جراثیم تو پہلے ہی سرایت کر چکے ہیں، شدت پسند عناصر اور مسلم دشمن گروہوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا رویہ فرقہ وارانہ فسادات اور موب لنچنگ سے بھی بہت آگے نکل چکا ہے۔ اتنا آگے کہ دستور و قانون بھی ان پر لگام کسنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں اور اس کی انتہا یہ ہے کہ اب عدالتیں بھی شدت پسند عناصر کی ہم نوا بنتی جا رہی ہیں۔ ایک طرف بابری مسجد کے کھلے مجرموں کو ثبوتوں کی کمی کا بہانہ بنا کر بری کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف نئے قانون شہریت کے خلاف مظاہروں میں شامل جامعہ و علی گڑھ کے مسلم طلبہ کو سلاخوں کے پیچھے یہ کہ کر ڈالا جا رہا ہے کہ یہ مظاہرے ہی دلی فساد کا سبب بنے تھے۔ عدلیہ کی سطح پر یہ منفی تبدیلیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں كے خلاف ہندوتوا کی نفرت انگیز لہر نہ تو وقتی ہے اور نہ حادثاتی۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بابری مسجد سے دست بردار ہو جانے سے مسلمانوں کو امن و عافیت کی ضمانت مل جائے گی وہ ایسا سوچ کر وہی غلطی کر رہے تھے جو عدالت نے کی ہے، کیونکہ ہر وہ عمل جو مجرموں کی حوصلہ افزائی کرے وہ اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اس سے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اس قسم کے رویے کو کسی بھی مہذب قانون میں صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ اگر بابری مسجد کے مجرموں کو حکومت و عدلیہ اور بے حس سماج سے کوئی شہ نہ ملتی تو یہاں کی فضاؤں میں یہ نعرے کبھی نہ گونجتے: ”ایودھیا تو بس جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے“ کون نہیں مانتا کہ عدالتوں کے ان فیصلوں سے یہ خطرناک فسطائی رجحان مزید طاقتور و توانا ہو کر ملک میں انتہا پسندی کی نئی داستانیں رقم کرے گا۔
یہاں کے عام لوگوں نے اس خطرے کو ابھی تک محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن ماہرین کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ یہاں کی عدالتیں آج کل جس قسم کے فیصلے دے رہی ہیں وہ ملک کو اسی خطرے کی طرف لے جانے والی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے جہاں اکثریتی قوم پرستوں اور انتہا پسندوں کی ترجیحات کے مقابلے میں تمام دستوری مطالبات اور دستور میں موجود انسانی آزادی و مساوات کی تمام ضمانتوں کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ان عدالتی فیصلوں کی تہ میں جھانکنا ان افراد کے لیے بطور خاص ضروری ہے جو سماجی و سیاسی طور سے کسی قائدانہ منصب پر فائز ہیں اور حال و مستقبل کے ہندوستان میں اپنی قوم کے لیے کوئی دیرپا لائحہ عمل طے کرنا چاہتے ہیں۔ معروف اسکالر و مصنف کپل کوریڈی اس واقعے کے اسی داخلی پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”وہ لوگ جنہوں نے اس زمانے میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بر انگیختہ کیا تھا وہ اس وقت ریاست کی طرف سے ایک ویلن (شرپسند عناصر) سمجھے گئے لیکن اب وہ سب آزاد ہیں اور ان کے ساتھ ہیرو جیسا برتاؤ ہو رہا ہے ان سب کا سفر ایک ہی منزل کی طرف ہے اور وہ ہے ہندوستان کو ایک قبیح اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنا“یہ صورت حال عام ہندوستانیوں کے لیے تشویشناک ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں ایماندار عدلیہ ہی کمزور طبقوں کا آخری سہارا سمجھی جاتی ہے، اگر یہ سہارا بھی ان قوموں سے چھین لیا جائے تو وہ خود کو غیر محفوظ اور بے یار و مددگار محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ’گیتا پریس اینڈ دی میکنگ آف ہندو انڈیا‘ کے مصنف اکشے مکل موجودہ صورت حال اور اس عدالتی فیصلے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں وہ خود کو اتنا مایوس پاتے ہیں کہ وہ بی بی سی سے اپنی یہ اندرونی کیفیت چھپا نہیں سکے کہ ”یہ فیصلہ مسلمانوں کو پوری طرح سے ہار کا احساس دے گا۔ آخر وہ کس کے سہارے اور کس کے بھروسے رہیں گے۔‘
وہ اپنی حال شناسی کو لفظوں کا پیکر دیتے ہوئے کہتے ہیں ’اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم بہت تیزی سے ایسے حالات کی طرف گامزن ہیں“
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کی اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو شر پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام سے اتنی تکلیف نہیں پہنچی تھی جتنی یہاں کی عدالتوں کے ایسے پے در پے فیصلوں سے پہنچی ہے جن میں انصاف کا پوری طرح خون ہوا ہے اور مجرموں اور ظالموں کو ان فیصلوں سے یہ شہ ملی ہے کہ وہ آئندہ بھی اس قسم کے غیر انسانی اور غیر دستوری حرکتیں کر کے اس ملک میں نہ صرف ہر سزا سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ حکومتوں اور عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان فیصلوں سے مسلمان خود کو اتنا ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں کہ اب انہیں کم سے کم موجودہ حالات میں بھارت کے کسی سرکاری اور عدالتی ادارے پر بھروسہ نہیں رہا اور خود وہی نہیں بلکہ اکشے مکل کی طرح دوسرے انصاف پسند بھی یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر مسلمان جائیں تو کہاں جائیں؟ یہ الگ بات ہے کہ زندہ قوموں کی زندگی میں جب ایسے مرحلے آتے ہیں اور جب ان پر ہر طرف سے راہیں مسدود ہونے لگتی ہیں تو نئی راہیں ان کا خیر مقدم کرتی ہیں اور یہ بظاہر ڈرانے والی مشکلات نئے امکانات کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ لیکن مستقبل کے نام پر حال کے تمام سوالات کو یکسر نظر انداز کرنا بھی دور اندیشی اور حکمت عملی کے خلاف ہے۔ یہ سوالات سرکاری و عدالتی مناصب پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی تنبیہ و یاد دہانی اور سیاسی و عدالتی نظام کی اصلاح دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ججوں کے تعلق سے معروف وکیل و سیاست داں پرشانت بھوشن کا حالیہ رویہ اور ہندوستان کے چیف جسٹس کے بالمقابل ان کا اصولی اور بے لچک موقف اس کی ایک روشن مثال ہے۔ خوف کھا کر ان اداروں اور اس کے ذمہ داروں کو بے لگام چھوڑ دینا دور اندیشی اور مستقبل کی حکمت عملی دونوں کے خلاف ہے۔
عدالتوں کے فیصلے آتے رہیں گے اور عدالت کی کرسی پر بیٹھے افراد بھی آتے اور جاتے رہیں گے اس لیے مایوس کن ماحول میں بھی مایوس ہونا خدائے واحد پر یقین رکھنے والی ایک موحد قوم کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ قومیں ایسے ہی حالات میں نکھرتی اور آزمائش کی بھٹیوں میں تپ کر کھری ہوتی ہیں۔ اگر یہاں کے مسلمان اپنے مشن کے ساتھ زندہ رہنے پر ڈٹ جائیں تو نہ تو کوئی حکومت ان کا وجود مٹا سکتی ہے اور نہ کسی عدالت کا کوئی فیصلہ انھیں حرف غلط کی طرح ختم کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان کا نظریاتی وجود کسی بھی قوم کے ظاہری قومی وجود سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ انہیں خود کو بھی ثابت قدم رکھ کر ان عدالتوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی حکومتوں کو بھی یہ یاد دلانا ہے کہ ایک غلط اور غیر منصفانہ فیصلہ دیتے یوئے یہ عدالتیں یہ ہر گز نہ بھولیں کہ انصاف کے ابدی و فطری پیمانوں کی رو سے جو چیز جائز ہے وہ ہر حال میں جائز رہتی ہے اور جو چیز ناجائز ہے وہ ہمیشہ ناجائز ہی رہے گی۔ اسے کسی حکومت کا کوئی قانون یا کسی ملک کی عدالت عظمیٰ کا کوئی فیصلہ بھی جائز ٹھیرانے کا مجاز نہیں ہے۔ قانونِ فطرت جائز و ناجائز کو ایک دن سیاہ و سفید کی طرح الگ کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا فیصلہ کبھی کبھی مدتوں بعد آتا ہے۔ قانونِ فطرت کا یہ مزاج کعبة اللہ اور بیت المقدس کی تاریخ میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

عدالتوں کے فیصلے آتے رہیں گے اور عدالت کی کرسی پر بیٹھے افراد بھی آتے اور جاتے رہیں گے اس لیے مایوس کن ماحول میں بھی مایوس ہونا خدائے واحد پر یقین رکھنے والی ایک موحد قوم کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ قومیں ایسے ہی حالات میں نکھرتی اور آزمائش کی بھٹیوں میں تپ کر کھری ہوتی ہیں۔ اگر یہاں کے مسلمان اپنے مشن کے ساتھ زندہ رہنے پر ڈٹ جائیں تو نہ تو کوئی حکومت ان کا وجود مٹا سکتی ہے اور نہ کسی عدالت کا کوئی فیصلہ انھیں حرف غلط کی طرح ختم کر سکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020