
دراوڑین بمقابلہ ہندوتوا: نظریاتی جنگ کا تسلسل
ہندی زبان؛ جنوبی ریاستوں پر سہ لسانی فارمولا کیوں مسلط کیا جا رہا ہے؟
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
جنوبی بھارت کے ساتھ مالی ناانصافی: ٹیکس کی غیر منصفانہ تقسیم
نئی تعلیمی پالیسی پر پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث چل پڑی، کچھ دنوں سے جنوبی ہند کی ریاستوں پر مرکز کی جانب سے یہ زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ہندی کو فروغ دیں، ہندی لازماً سیکھیں، ہندی کو سرکاری زبان بنائیں گے، کوئی وزیر کہتا ہے کہ ہندی نیشنل لینگویج ہے، خاص طور پر تمل ناڈو اس مطالبہ پر از سر تا پا احتجاج بنا ہوا ہے، وہ کسی صورت سہ لسانی فارمولے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، مرکز اور خاص طور پر بی جے پی کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہندی کو ہر جگہ مسلط کرے، جنوب کی ریاستیں اس کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی موضوع پر وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان پارلیمنٹ میں نیو ایجوکیشن پالیسی سے متعلق گفتگو کر رہے تھے، ان کی مخالفت میں تمل ناڈو کے ممبران پارلیمنٹ نے احتجاج منظم کیا، جس پر دھرمیندر پردھان نے ان کو غیر مہذب قرار دیا، جس پر کنی موزی نے سخت احتجاج کیا، بعد ازاں وزیر تعلیم نے معافی مانگی اور اپنے الفاظ واپس لیے۔ تمل ناڈو میں خاص طور پر تمل زبان کو لے کر بڑی حساسیت پائی جاتی ہے، ویسے تو ساری جنوبی ریاستوں میں زبان کو لے کر حساسیت پائی جاتی ہے لیکن تمل ناڈو میں یہ بہت بڑا موضوع ہے، مرکزی حکومت نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے سہ لسانی فارمولے کو لاگو نہ کرنے پر گرانٹس کو روک دیا ہے، اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ستر کی دہائی میں یعنی 26 جنوری 1965 جب کہ ملک اپنا 16 واں ریپبلک ڈے منا رہا تھا، لیکن تمل ناڈو میں خوں ریز فسادات بھڑک اٹھے تھے جس میں تقریباً ستر افراد کی جانیں چلی گئیں۔ واقعہ یوں ہے کہ آزادی کے وقت اکثر یو پی کے رہنما جن میں خاص کر ہندو مہاسبھا کے ارکان ہندی کو قومی زبان بنانا چاہتے تھے، کانسٹینٹ اسمبلی میں اس پر زوردار بحث بھی ہوئی، لیکن اس وقت مدراس کانگریس کے رہنما ٹی ٹی کرشنما چاری نے یو پی میں بیٹھے لوگوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ ہندی کو قومی زبان بنائیں گے تو جنوبی ہند کی ریاستیں انڈین یونین سے نہیں جڑیں گی وہاں پہلے سے موجود علیحدگی پسند عناصر اس بات کو لے کر ہندوستان سے علیحدگی کا نعرہ بلند کریں گے اور ہندی سرمایہ دارانہ ذہنیت ان کو مزید تقویت پہنچائے گی۔ یو پی میں بیٹھے میرے دوستوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ انہیں ایک اکھنڈ بھارت چاہیے یا ہندی ہندوستان؟ اسی وجہ سے ایک بیچ کا راستہ اختیار کیا گیا اور یہ طے پایا کہ پندرہ سال تک انگریزی اور ہندی دونوں آفیشل لینگوئج رہیں گے۔ کیوں کہ 1965 کو وہ پندرہ سال مکمل ہونے والے تھے اور مرکز میں لال بہادر شاستری وزیر اعظم تھے، ان کی شبیہ ایک ہندی نواز شخصیت کی تھی، تمل ناڈو میں کانگریس کی حکومت تھی اور اس وقت کے چیف منسٹر نے وہاں سہ لسانی فارمولا کی تجویز رکھ دی۔ بس کیا تھا، ساری ریاست آگ سے بھڑک اٹھی، ٹرینیں جلادی گئیں، ہندی لکھے ہوئے ایک ایک بورڈ کو مٹا دیا گیا، کئی نوجوانوں نے اپنے آپ کو آگ لگا کر خودکشی کر لی، مرکزی حکومت نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور وہی دونوں زبانوں کو یعنی انگریزی و ہندی کو آفیشل لینگویج برقرار رکھا گیا۔ اب پھر مرکزی حکومت وہی نادانی کرنے جا رہی ہے، ہندی ہندو ہندوستان کا ناعاقبت اندیش راگ الاپا جا رہا ہے، خوف یہ ہے کہ کہیں معاملات پھر سے وہی روخ اختیار نہ کرلیں، جس طرح 1965 میں ہوگئے تھے۔
اسٹالن نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ دو ہزار ایک سو باون کروڑ روپے کا ایجوکیشن فنڈز روک کر ہم پر ہندی تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے، ہماری کلائی مروڑنا چاہتی ہے جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔
لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف ہندی کو مسلط کرنے کا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پوری سنگھی ذہنیت ہے، جو اس کے پیچھے کار فرما ہے، شروع ہی سے سنگھی ذہنیت یہ رہی ہے، کہ وہ دراویڑین نظریہ کو دبا کر رکھے، اسے ختم کردے، اور اس کے مقابلے میں ہندوتوا نظریہ کو یہاں مسلط کرے، وہ اپنے نظریہ کو مسلط کرنے کے لیے ہر وہ کام کرتی رہی ہے، جو ملک کے لیے خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی زبان کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، تو کبھی ڈی لیمٹیشن کا اور کبھی فائنانشل ڈیولوشن کے مسئلے کو لے کر جنوبی ہند کو تنگ کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سہ لسانی فارمولا صرف جنوب کی ریاستوں پر ہی کیوں لاگو ہو؟ شمال کی ریاستوں میں صرف دو ہی زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، وہاں کیوں سہ لسانی فارمولا لاگو نہیں ہوتا؟ کیوں ان ریاستوں کو یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ جنوب کی کسی ایک زبان کو سیکھیں؟ ہندی ایک ہی تو سرکاری زبان نہیں ہے بلکہ دیگر اور بارہ سرکاری زبانیں ہیں، ہندی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تیلگو ہے، پھر اردو، بنگالی، تمل، کنڑا، مراٹھی، ملیالم ہے۔ پورے ملک میں صرف پینتیس فیصد لوگ ہی ہندی بولتے ہیں، تقریباً چودہ کروڑ لوگ تیلگو بولتے ہیں اور دس کروڑ لوگ تمل بولنے والے ہیں۔ ہندی کی وجہ سے شمالی ہند کی دیگر جو زبانیں تھیں جیسے، بھوجپوری، اودھی، میتھلی ان کا چلن تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندی نے ان زبانوں کو ہضم کر لیا ہے، اسی کے پیش نظر جنوب کی ریاستیں یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ ہندی کو رواج نہیں دیں گی۔ ان کا یہ خدشہ واجبی نظر آتا ہے، زبان صرف بول چال ہی کی حد تک نہیں ہوتی بلکہ یہ تہذیب و ثقافت کا حصہ بھی ہوتی ہے۔
زبان کے علاوہ دو اور خطرناک مسائل بھی ہیں جو مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں، وہ ہیں ڈی لیمٹیشن اور فائنانشل ڈیولوشن۔
واضح رہے کہ حکومت کے خزانے میں جو ٹیکس جمع ہوتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ جنوبی ہند کی ریاستیں جمع کرتی ہیں، لیکن اس کے بدلے میں مرکزی حکومت سے جو رقم انہیں واپس ملتی ہے، وہ انتہائی کم ہے، یعنی ٹیکس وصولی تو بھرپور ہو رہی ہے، لیکن اس کے عوض جو رقم جنوبی ہند کی ریاستوں کو دی جا رہی ہے وہ بہت کم ہے۔ بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان یہ وہ ریاستیں ہیں جو مرکزی خزانے سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں، ان ریاستوں کو کوئی مخصوص صورتحال کا سامنا نہیں ہے اور نہ ہی جغرافیائی اعتبار سے مسائل کا سامنا ہے، البتہ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی و طبقاتی منافرت کی سیاست اور ہندو احیاء پرستی کے حوالے سے ساز گار ہیں اور ان کا طرہ امتیاز بھی یہی ہے کہ یہ آبادی کے اعتبار سے زیادہ ہیں، یہاں زیادہ نشستیں ہیں، حکومت بنانے میں ان کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، ان کی سیاست کی بنیاد ہی مذہبی منافرت و طبقاتی کشمکش پر قائم ہے، اور بی جے پی کو یہی کچھ چاہیے، انہیں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ووٹ نہیں مل رہے ہیں، انہیں معاشی ترقی کی وجہ سے ووٹ نہیں مل رہے ہیں، بلکہ انہیں ہندو مسلم سیاست پر ووٹ مل رہے ہیں۔ ان ریاستوں کی معاشی بد حالی کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں کے بے روزگار نوجوان لاکھوں کی تعداد میں جنوبی ہند کی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں اور روزگار پاتے ہیں، ان ریاستوں کی نااہلی کے باوجود ان پر مرکزی حکومت کے خزانے کھلے ہوئے ہیں۔ وہیں جنوبی ہند کی ریاستیں جو معاشی طور پر مستحکم مانی جاتی ہیں، جو قانون کے نفاذ میں بہترین مظاہرہ کرتی ہیں، ہر میدان میں اچھا مظاہرہ کر رہی ہیں، مرکزی حکومت کے سوتیلے پن اور ناانصافی کا شکار ہو رہی ہیں، یہی جنوبی ہند کی ریاستوں کی سب سے بڑی شکایت ہے۔
اسی سوتیلے پن اور غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کرناٹک کو گزشتہ چار سال میں 62 ہزار 98 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، یعنی ہر سال تقریباً پندرہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ چار سال پہلے تک ٹیکسوں وصولی کے بدلے کرناٹک کو چار اعشاریہ سات ایک فیصد دیا جاتا تھا، لیکن مرکزی حکومت نے اس میں کٹوتی کرتے ہوئے تین اعشاریہ چھ سات فیصد کر دیا ہے۔ اس فارمولے کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کو ریاستوں سے اگر سو روپے ٹیکس وصول ہوتے ہیں، تو اس میں سے 41 روپے ریاستوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہ 41 روپے میں بھی مشترکہ ٹیکس کو چھوڑ کر جو مرکزی و ریاستی حکومت سیس کے نام پر وصول کرتی ہے، جیسے پٹرول و ڈیزل پر سیس، ایکسائز وغیرہ اس کے علاوہ مرکزی حکومت مختلف ناموں سے سیس وصول کرتی ہے، جو مشترک نہیں ہوتا یعنی ریاستوں کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں ہوتی، دس فیصد کٹوتی کرتی ہے، یعنی یہ 41 فیصد برائے نام ہے، عملی طور پر یہ تیس فیصد ہی ہوتا ہے۔ مثلاٌ کرناٹک کو ایک روپے ٹیکس کے بدلے میں مرکزی حکومت اسے صرف 15 پیسے ہی واپس کرتی ہے، تلنگانہ کو صرف 43 پیسے واپس کرتی ہے، تمل ناڈو کو 29 پیسے دیتی ہے، کیرالا کو 57 پیسے واپس آتے ہیں، جبکہ آندھراپردیش کو صرف 49 پیسے ہی ملتے ہی۔ اس کے برعکس اتر پردیش کو ایک روپے ٹیکس وصولی پر مرکزی حکومت اسے دو روپے 73 پیسے دیتی ہے، وہیں راجستھان کو ایک روپیہ 33 پیسے دیتی ہے، اسی طرح بہار کو 7 روپے 06 پیسے دیتی ہے۔ یہ ہے مرکزی حکومت کا انصاف۔ ٹیکسوں کی یہ تقسیم بھی آبادی کے اعتبار سے ہوتی ہے، جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے، جن ریاستوں نے اچھی منصوبہ بندی کی اور معاشی ترقی کی، انہیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ٹیکسوں سے جو رقم ریاستوں کو مختص کی جاتی تھی وہ 1971 کی مردم شماری سے کی جاتی تھی لیکن مودی سرکار نے اسے 2011 کی مردم شماری سے کیا ہے، جس کے نتیجے میں جنوبی ہند کی ریاستیں بھاری نقصان اٹھا رہی ہیں، ٹیکس کے ذریعے جنوب کی ریاستیں مرکزی خزانے میں 22 لاکھ 26 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ جمع کرتی ہیں، لیکن ان کو مرکز کی جانب سے ملنے والا حصہ صرف 6 لاکھ 42 ہزار کروڑ روپے ہے۔ وہیں شمال کی سب سے بڑی ریاست یو پی سے مرکزی خزانے میں جمع ہونے والی رقم صرف 3 لاکھ 41 ہزار کروڑ روپے ہے، لیکن اسے مرکزی حکومت سے ملنے والا حصہ 6 لاکھ 91 ہزار کروڑ روپے ہے، یعنی تقریباً 7 لاکھ کروڑ روپے زیادہ۔ آپ اس فرق کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب جنوبی ریاستوں کا حال اس بھینس کا سا ہو جائے گا جو دودھ دے دے کر سوکھ چکی ہو۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025