زعیم الدین احمد، حیدر آباد
پچھلے دنوں ایک مضمون نظروں سے گزرا جس کا عنوان’’اسرائیل کے دور کا خاتمہ‘‘ تھا جس کو ایک عبرانی اخبار ’ہیریٹز‘ نے شائع کیا تھا۔ اس مضمون کو ایک مشہور صہیونی مصنف ایری شیبٹ نے لکھا جس میں وہ کہتے ہیں ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم ان کو ان کے حقوق واپس کردیں اور قبضہ کا خاتمہ کریں‘‘
شیبٹ نے اپنے مضمون کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کی کوئی امید نہیں، اسرائیل ایک ایسے نقطہ پر پہنچ گیا ہے جس سے اس کی واپسی کا امکان باقی نہیں ہے، اس کے آگے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل مزید قبضوں سے نہیں رک سکتا، آباد کاری سے خود کو روک نہیں سکتا، پُرامن نہیں رہ سکتا نہ ہی جمہوریت کو بچاسکتا ہے اور نہ ہی وہ عوام کی تقسیم سے رک سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے اب یہ ممکن نہیں ہے کہ یہودیت پسندی کی اصلاح کرے‘‘۔ مضمون نگار کا ماننا ہے کہ اسرائیل اب بے لگام ہو چکا ہے، وہ اپنے آپ کو تمام بین الاقوامی قوانین سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔
وہ لکھتا ہے ’’اگر یہ صورت حال ہے تو اس ملک میں رہنے کا کوئی لطف نہیں ہے نہ ہی ہیرٹیز میں لکھنے کا کوئی مزہ ہے اور نہ ہی اسے پڑھنے کا کوئی لطف۔ آپ کو وہی کرنا چاہیے جو دو سال پہلے روجیل ایلفر نے تجویز کیا تھا اس نے ملک چھوڑنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اگر ان کے نظر میں اسرائیلی اور یہودی شناخت اہم عنصر نہیں ہے اور اگر وہ غیر ملکی پاسپورٹ رکھتے ہوں تو وہ اپنے دوستوں کو الوداع کہیں اور سان فرانسسکو، برلن یا پیرس چلے جائیں اور وہاں سے ریاست اسرائیل کو اپنی آخری سانس لیتے ہوئے دیکھیں‘‘۔
مصنف مزید لکھتا ہے کہ میں نے نیتن یاہو، لائبرمین اور نازیوں کی آنکھوں میں اپنی انگلی ڈالی ہے تاکہ ان کو یہودیت پسندی کے نشے سے بیدار کیا جائے۔ نہ ٹرمپ نہ کوشنر نہ بائیڈن نہ اوباما اور نہ ہی ہلیری کلنٹن ان قبضوں کو ختم کرواسکے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ اور یوروپی یونین آبادی کاری سرگرمیوں پر روک لگا سکے۔ اگر ان تمام کاموں سے کوئی اسرائیل کو روک سکتا ہے تو وہ خود ’اسرائیل‘ ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے اگر اپنی بقا چاہتا ہے تو اس کو ایک نئی سیاسی تدبیر اختیار کرنی ہو گی اسے ایک نئی سیاسی زبان ایجاد کرنی ہوگی ایک ایسی زبان جو حقیقت کو پہچانتی ہو۔ اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ فلسطینی اس سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں وہ اس سر زمین میں جڑوں کی طرح پیوست ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اگر آپ یہاں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک تیسرا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور وہ راستہ میری نظر میں یہ ہے کہ قبضہ ختم کیا جائے، غیر قانونی آباد کاری ختم ہو، یہودیت پسندی میں اصلاح ہو، جمہوریت کو بچایا جائے اور ملک کو تقسیم کیا جائے۔
مصنف نے یہ بھی کہا کہ ’’اسرائیلی جب سے فلسطین آئے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہوا ہے کہ وہ صہیونی تحریک کے ذریعہ پھیلائے گئے جھوٹ کا نتیجہ ہیں انہیں یہودی تاریخی کرداروں کے بارے میں دھوکہ دیا گیا ہے۔ صہیونی تحریک نے ہٹلر کے ہولوکاسٹ اور اس کے استحصال کو بڑے زور وشور سے دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا کو یہ باور کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ فلسطین یہودیوں کا ارض موعودہ یعنی ’پرومسڈ لینڈ‘ ہے اور ہیکل سلیمانی مسجد اقصیٰ کے نیچے دبا ہوا ہے، اس طرح انہیں امریکی اور یورپی ٹیکس دہندگان کے پیسہ کی مدد سے بھیڑیا بنا دیا گیا تاکہ وہ بھیڑ کی شکل میں بکریوں کا شکار کرتا پھرے یہاں تک کہ اب وہ ایک ایٹمی طاقت کا حامل شیطان بن چکا ہے‘‘۔
مصنف نے یہ بھی کہا کہ مغربی اور یہودی آثار قدیمہ کے ماہرین کی مدد سے جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے نشانات موجود نہیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور تل ابیب یونیورسٹی کے ’اسرائیل فیلن اسٹائن‘ ہیں جس نے اس بات کو پُر زور انداز میں کہا کہ ’’ہیکل ایک جھوٹ ہے یہ ایک دیو مالائی کہانی کے سوا کچھ نہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے‘‘ تمام کھدائیوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ ہزاروں سال پہلے مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ اس بات کی تصدیق بہت سے یہودی حوالوں سے بھی ہوتی ہے۔
۱۹۶۸ کی دہائی میں ایک برطانوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر لیتھلین کیبنوس جب وہ یروشلم میں برطانوی اسکول برائے آثار قدیمہ کی ڈائریکٹر تھیں تب انہوں نے یروشلم میں کھدائی کی تھی تو انہیں مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار نہیں ملے تو انہوں نے کہا کہ یہ سارے اسرائیلی خرافات ہیں کہ مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی ہے انہوں نے اس اسرائیلی دعوے کو بے نقاب کر دیا جس کی پاداش میں انہیں فلسطین سے بے دخل کر دیا گیا۔ ’’سلیمان کی اصطبلی عمارت‘‘ کا ہیکل سلیمان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک محل کا تعمیری نمونہ ہے جو عام طور پر فلسطین کے متعدد علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان پر لعنت برستی ہے چنانچہ آئے دن اسی وجہ سے اسرائیلیوں پر حملے ہوتے ہیں، وہ کبھی مقدیسیوں تو کبھی خلیلیوں اور نابلسیوں کے ہاتھوں اپنے چہروں پر تھپڑ کھاتے ہیں یا اجتماعی پتھر بازی کی شکل میں سزا بھگتتے ہیں۔
اسرائیلیوں کو اندازہ ہو چلا ہے کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ان سے یہ جھوٹ بولا گیا کہ اس سر زمین پر کوئی آباد نہیں ہے۔ ایک اور مصنف جیوڈون لیوی جو بائیں بازو کے یہودی ہیں کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطینی عوام کے وجود کا نہیں ہے بلکہ اسرائیلیوں پر ان کی برتری کا ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ فلسطینی اسرائیلوں پر حاوی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی باقی دنیا کے لوگوں سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیا اور ہم ان کے نوجوانوں کو گھانا کی طوائف اور منشیات کہتے ہیں ہم نے سمجھا کہ کچھ سال گزر جانے کے بعد وہ اپنے وطن اور اپنی سر زمین کو بھول جائیں گے۔ اگر ان کی نوجوان نسل ۸۷ کی بغاوت کو دہرائے گی تو انہیں جیل میں ٹھونسیں گے۔ ہم نے سوچا کہ اگر وہ سال ۲۰۰۰ کی طرح مسلح بغاوت کرتے ہیں تو ہم ان کے ہر سبز باغ کو ختم کر دیں گے اور سب کچھ ان سے چھین لیں گے لہٰذا ہم نے یہی کیا۔ ہم نے ان کے گھروں کو مسمار کر دیا اور کئی سالوں تک ان کا محاصرہ کیا، انہیں محصور رکھا لیکن ان تمام کارروائیوں اور محاصرے اور تباہی کے باوجود انہوں نے ہم پر وار کیا ہمیں مارنے کے لیے ہم پر میزائل داغے جو کہ نا ممکن تھا لیکن انہوں نے کیا۔ لہٰذا ہم نے ان کے اور ہمارے درمیان دیواروں اور خاردار تاروں کی تعمیر کی۔ پھر وہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعہ ہمارے علاقوں میں آنا شروع ہوئے ہم نے ان کا مقابلہ دماغ سے کیا تو انہوں نے اسرائیلی سیٹلائٹ (آموس) پر قبضہ کر لیا اور اسرائیل کے ہر گھر میں دہشت بن کر داخل ہو گئے۔ دہشت اس وقت دو بالا ہو گئی جب ان کے نوجوان دوسرے ’اسرائیلی‘چینل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم تاریخ کے سب سے مشکل لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ میری نظر میں اس کا ایک ہی راستہ اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور قبضوں کا خاتمہ کیا جائے۔
ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود اس حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو چکا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کر لیا جائے اور پڑوسی ممالک سے اس کو تسلیم کرالیا جائے اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی دوسرا رخ اختیار کرلے۔ ان کا کہنا ہے کہ توسیع پسندی کسی صورت میں بھی اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے چاہے وہ اپنی سرحدوں کو توسیع کرنے کی قوت رکھتا ہو لیکن اسے اس صورت میں مقبوضہ علاقوں کو بھی اپنی آبادی میں شامل کرنا پڑے گا جس سے ظاہر ہے کہ یہودی اقلیت میں آجائیں گے۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں اور ان میں سے ساٹھ لاکھ اسرائیل میں آباد ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش نسل کا تناسب یہودیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ۱۹۶۷ میں عرب اسرائیل کی آبادی کا ۱۴ فیصد تھے جو اب ۲۲ فیصد ہو چکے ہیں۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ جو سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا خواب تھا وہ شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے، کوئی فریق بھی اس سے مطمئن نہیں ہے کیوں کہ اس معاہدہ سے امن قائم ہونا ممکن نہیں۔ معاہدہ کی رو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کرے گا، القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس رہے گا۔ شہر کے مکین عرب شہری اسرائیل کے نہیں بلکہ فلسطین کے شہری ہوں گے مسجد اقصیٰ کی جوں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی یعنی یہ اردن کے اوقاف کے زیر نگرانی رہے گی۔ نئی فلسطینی ریاست فوج نہیں رکھ سکتی لیکن پولیس کا عملہ رکھ سکتی ہے وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ظلم سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ جلد یا بدیر اپنے برے انجام کو پہنچ ہی جاتی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی بند گلی کی طرف سفر کر چکا ہے جس سے اس کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اگر وہ سارے علاقے پر قبضہ کرتا ہے تو اسے علاقے میں بسنے والوں کو بھی اپنانا پڑے گا جس سے یہودی اقلیت میں آ جائیں گے۔ اور اگر وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہے تو وہ اپنے پڑوس میں مستقل خطرہ محسوس کرتا رہے گا۔
***
اسرائیل ایک ایسی بند گلی کی طرف سفر کر چکا ہے جس سے اس کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اگر وہ سارے علاقے پر قبضہ کرتا ہے تو اسے علاقے میں بسنے والوں کو بھی اپنانا پڑے گا جس سے یہودی اقلیت میں آجائیں گے۔ اور اگر وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہے تو وہ اپنے پڑوس میں مستقل خطرہ محسوس کرتا رہے گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021